گالی گلوچ دینے سے پرہیز

خلاصہ: گالی گلوچ دینا اور بدزبانی کرنا انتہائی برا کام ہے جس سے انسان کو بالکل پرہیز کرنی چاہیے۔

گالی گلوچ دینے سے پرہیز

بعض لوگوں کو گالی گلوچ دینے کی عادت پڑجاتی ہے اور گالیاں دیتے ہوئے ان کو کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، جبکہ گالی گلوچ دینا انتہائی برا کام ہے جس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یعنی ایسا نہیں کہ صرف گالی دینا کم کردے ، بلکہ گالی دینا چھوڑ دے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: إيّاكُم وَالفُحشَ؛ فَإِنَّ اللّه َعز و جل لا يُحِبُّ الفاحِشَ المُتَفَحِّشَ”، “گالی دینے سے پرہیز کرو، کیونکہ اللہ عزّوجل گالی دینے والے بدزبان سے محبت نہیں کرتا”۔ [الخصال، ص۱۷۶]
انسان کی زبان پر جو باتیں آتی ہیں، ان پر انسان کو اختیار ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات انسان اپنی زبان کو اس قدر بے لگام چھوڑ دیتا ہے کہ لگتا ہے اب زبان پر قابو پانا اس کے اختیار سے باہر ہے، کیونکہ جونہی کسی پر اسے غصہ آتا ہے فوراً گالیاں دینا شروع کردیتا ہے، جبکہ ایسے موقع پر اسے دو چیزوں پر قابو پانا چاہیے:
ایک غصہ پر: غصہ ہر برائی کی کنجی ہے  اور غصہ کرنے سے صورتحال زیادہ خراب ہوجاتی ہے نہ یہ کہ بہتر ہوجائے۔
دوسرا زبان پر: جب انسان کو غصہ آئے تو اس کے اظہار کا ایک راستہ زبان ہے، زبان کا استعمال کیونکہ آسان ہے تو جب آدمی غصہ میں آکر زبان کو استعمال کرے تو اس زبان سے بہت ساری غلط باتیں نکلیں گی۔ غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد بعض باتوں پر آدمی پشیمان اور شرمندہ ہوگا کہ اتنی غلط باتیں اور اس حد تک زبان کو بےلگام چھوڑ کر ہر بات زبان پر کیوں لاتا ہے۔
اگر اس کی عادت گالیاں دینے کی نہ ہوتی تو غصہ میں آکر بھی گالیاں نہ دیتا۔ اس بات پر اسے توجہ رکھنی چاہیے کہ اگر وہ اس جھگڑے میں سچا ہے اور حق پر ہے تو اسے نہ غصہ کرنے کی ضرورت ہے اور نہ گالیاں دینے کی، کیونکہ وہ ٹھنڈے دل اور میٹھی زبان سے اپنے حق کو دلائل کے ذریعے ثابت کرسکتا ہے اور اگر حق پر نہیں ہے بلکہ قصوروار ہے تو پھر اسے چاہیے کہ حق حقدار کو دیدے اور اپنی غلطی تسلیم کرلے، اگر وہ باطل اور غلطی کا شکار ہونے کے باوجود غصہ کرتے ہوئے گالیاں دے رہا ہے تو یہ چند غلطیوں کے علاوہ ایک اور غلطی بھی ہے۔ کیا وہ چاہتا ہے کہ غصہ اور گالیوں کے ذریعے اپنی غلطی اور قصور کو حق ظاہر کرے؟! اور سامنے والا آدمی اس کے اس دباؤ کی وجہ سے اسے برحق مان لے اور اپنے آپ کو قصوروار سمجھ لے! کیا یہ صحیح ہے؟!

* الخصال، شيخ صدوق، ص۱۷۶۔

تبصرے
Loading...