کاہلی اور سُستی

آج ہم جتنا وقت تلف کریں گے کل اتنا ہی زیادہ پشیمان ہونا پڑے گاکوئی زیادہ سوتا ہے، تو کوئی زیادہ ٹی وی دیکھتا ہے، تو کوئی گھنٹوں تک دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرتا ہے، کوئی بیٹھ کر در و دیوار کو تکتا ہے۔ خاندان اور معاشرے کے منفی حالات سےپہلے کامیابی اور ترقی کے فقدان کا سبب ہماری کاہلی اور سُستی ہی ہے۔

کاہلی

ہم اپنی تمام ناکامیوں پر توجہ کر یں تو اپنی کوتاہی کو اپنے ارد گرد رہنے والوں، معاشرے، آب و ہوا، جغرافیہ، سورج، آسمان، تقدیر اور قسمت پر ڈال سکتے ہیں، لیکن جب تنہائی میں اپنی ناکامیوں پر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بیرونی شرائط ناکامی کا سبب نہیں تھے بلکہ ہماری سستی اس ناکامی کا سبب تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ سستی اور کاہلی کے برے اثرات صرف ہمارے اوپر ہی اثرانداز نہیں ہوتے بلکہ دوسروں پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے۔ اس بارے میں امیرالمؤمنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: سستی دوسروں کے حقوق کو ضایع کرتی ہے۔ مثال کے طور پر جو خاتون گھر کے کاموں میں سستی کرتی ہے وہ اپنے شوہر اور بچے کو نقصان پہونچاتی ہے یا وہ شخص جو گھر کے باہر کاموں کو انجام دینے میں سستی اورکاہلی کرتا ہے وہ اپنے گھرانے پر ظلم کرتا ہے۔ مزید اہم بات یہ کہ سستی اور کاہلی صرف دنیوی کاموں کو خراب نہیں کرتی بلکہ آخرت کے کاموں کو بھی برباد کرتی ہے۔ جیسا کہ امام معصوم علیہ السلام کا ارشاد ہے: جو شخص اپنے دنیوی کاموں میں سستی کرتا ہے وہ اپنے آخرت کے کاموں میں بھی سستی کرتا ہے۔ اس طرح نہیں ہے کہ ہم تصور کریں کہ ایک خاتون یا شخص فقط تعلیم، کام یا گھر کی ذمہ داری میں سست اور کاہل ہے بلکہ جو شخص سست اور کاہل ہے وہ اول وقت نماز پڑھنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا، اسی طرح صلۂ رحم، والدین کے ساتھ نیکی کرنے اور مفید مذہبی نشستوں میں شرکت کرنے، زیارت کرنے، دوسروں کے کام آنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا۔ اسی لئے ہم اور آپ جتنا زیادہ سستی کے برے آثار پر توجہ کریں گے اتنا ہی زیادہ ہمارے اندر کام کرنے کے جذبہ میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جائیگا۔امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے:امام علی علیہ السلام:محکم ارادہ کے ذریعہ کاہلی اور سستی کو دور بھگاؤ۔(میزان الحکمہ ج 10 ص 134)

 

تبصرے
Loading...