پڑوسی  کے حقوق

خلاصہ: اسلام نے پڑوسی کے لئے بہت زیادہ حقوق کو معین کئے ہیں جن کو اداء کرنا بہت ضروری ہے۔

پڑوسی  کے حقوق

    آج کے دور میں ہم پڑوسی کے حقوق پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتے، بلکہ لوگوں کے نزدیک یہ کوئی دین کا تقاضا ہی نہیں، اکثر لوگ عبادات نماز، روزہ، حج وغیرہ کو ہی بس دین سمجھتے ہیں، لیکن اگر معصومین(علیہم السلام) کی احادیث اور سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں سمجھ میں آئیگا کہ اسلام نے پڑوسی کے لئے کتنے زیادہ حقوق رکھیں ہیں، جیسا کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) اس حدیث میں ارشاد فرمارہے ہیں:«قَالَ أَ تَدْرُونَ مَاحَقُّ الْجَارِ قَالُوا لَا قَالَ إِنِ اسْتَغَاثَكَ أَغَثْتَهُ وَ إِنِ اسْتَقْرَضَكَ‏ أَقْرَضْتَهُ‏ وَ إِنِ افْتَقَرَ عُدْتَ عَلَيْهِ وَ إِنْ أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ عَزَّيْتَهُ وَ إِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ هَنَّأْتَهُ وَ إِنْ مَرِضَ عُدْتَهُ وَ إِنْ مَاتَ تَبِعْتَ جَنَازَتَهُ وَ لَا تَسْتَطِيلُ عَلَيْهِ بِالْبِنَاءِ فَتَحْجُبَ الرِّيحَ عَنْهُ إِلَّا بِإِذْنِه‏؛ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: کیا تم لوگ جاتنے ہو کہ پڑوسی کا حق کیا ہے؟ ان لوگوں نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا: ھمسایہ وہ ہے کہ اگر وہ تم سے مدد مانگے تو ان کی مدد کرو، اور اگر وہ تم سے قرض طلب کرے تو اسے قرض دو، اور اگر اس کو کسی چیز کی ضروری ہے تو اس کی ضرورت کو پورا کرو،  اور اگر اس پر کوئی مصیبت آئی ہے تو اس ک تلسیت پیش کرو، اور اگر اس کے ساتھ کوئی اچھی چیز ہوئی تو اسے مبارک باد پیش کرو، اور اگر وہ مریض ہو جائے تو اس کی عیادت کو جائے اور اگر مرجائے تو اس کی  تشیع جنازہ میں شرکت کرو اور اپنے مکان کی حدوں کو اس کی طرف نہ بڑھاؤ اور ھوا  کا رخ  اس پر بند نہ ہونے دو»[نھج الفضاحۃ، ص:۴۴۵]۔
*نھج الفضاحۃ، ابوالقاسم پایندہ، ص:۴۴۵، دنیای دانش، تھران، چوتھی چاپ، ۱۳۸۲۔

تبصرے
Loading...