غریبوں کی مدد

خلاصہ: ہماری آمدنی کے ایک حصہ پرغریبوں کا بھی حق ہوتا ہے۔

غریبوں کی مدد

         ایک بادشاہ شکار پر نکلا تو ایک کسان کو ہل چلاتے ہوئے دیکھا، بادشاہ نے کسان سے پوچھا: دن میں کتنا کما لیتے ہو؟ کسان نے جواب دیا چار روپیے۔
بادشاہ نے پوچھا: کیسے خرچ کرتے ہو؟ کسان نے جواب دیا ایک روپیہ خود پر خرچ کرتا ہوں، ایک روپیہ قرض دیتا ہوں، ایک روپیہ قرض واپس کرتا ہوں اور ایک روپیہ دریا میں ڈال دیتا ہوں۔
         بادشاہ حیران ہوا اور بولا: تمہاری باتوں کا مطلب نہیں سمجھا، کسان نے کہا ایک روپیہ خود پر اور اپنی بیوی پر خرچ کرتا ہون، ایک روپیہ اپنی اولاد پر خرچ کرتا ہوں مطلب قرض دیتا ہوں تاکہ وہ بڑھاپے میں مجھ پر خرچ کریں، ایک روپیہ والدین پر خرچ کرتا ہوں مطلب قرض واپس کرتا ہوں جو انہوں نے بچپن میں مجھ پر خرچ کیااور ایک روپیہ اللہ کی راہ میں کسی غریب کو دیتا ہوں مطلب دریا میں ڈال دیتا ہوں جس کا اجر مجھے اس دنیا میں نہیں چاہئے۔

         پیارے نوجوانو، اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہماری آمدنی پر نہ صرف ہمارے والدین، بیوی اور بچوں کا حق ہے بلکہ غریب لوگوں کا بھی حق ہے، اور یہی دنیا کا نظام ہے، جس سے غریب کا بھی گزر بسر ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہو کہ رسول اسلام نے فرمایا: اًلخلقُ عیالُ الله فَاَحَبَهُم الی الله عَزُوجل اَنفقَهُم لِعیالهِ(بحار الانوار،ج۹۶، ص۱۱۸) تمام انسان عیال خدا ہیں اور خدا اس شخص کو بہت پسند کرتا ہے جو اسکی اہل عیال پر خرچ کرتا ہے۔

 

         منبع و ماخذ
         مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى‏، ناشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت‏، 1403 ق‏، چاپ دوم‏۔

تبصرے
Loading...