خدا کے ذکر کی مٹھاس

خلاصہ:  اگر انسان نے خدا کے ذکر کی مٹھاس کو چکھا ہے تو خداوند متعال بھی اسکی دعا کو سنتا ہے۔

خدا کی ذکر کی مٹھاس

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     اگر انسان نے خدا کے ذکر کی مٹھاس کو نہیں چکھا  تو گویا اس نے عبادت کے مفھوم کو ہی نہیں سمجھا اور اگر عبادت کے مفھوم کو نہیں سمجھا تو اسکے اثرات سے بھی محروم رہیگا اور اگر اس نے خدا کے ذکر کی مٹھاس کو چکھا ہے تو  خداوند عالم بھی اسکی دعا کو سنتا ہے جب اس مٹھاس کے ساتھ خدا سے کچھ مانگتا ہے تو خدا بھی اسکی دعا کو بہت جلدی قبول کرتا ہےجیسا کہ خود خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے: «واذا سالک عبادي عني فاني قريب اجيب دعوه الداع اذا ادعان[سورہ بقرہ آیت:۱۸۶] اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں. پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی پکارتا ہے».
     حضرت علی(علیہ السلام) فرما رہے ہیں کہ اہل ذکر وہ لوگ ہیں جو اپنی نفسانی اور شیطانی خواہشوں کو انجام نہیں دیتے اور پوری طرح سے اپنے آپ کو خداوند عالم کی طرف متوجہ کردیتے ہیں[نھج البلاغہ،ص۳۴۳]۔
اس حدیث کی روشنی میں اہل ذکر وہ لوگ ہیں جنھوں نے تقوے کو اختیار کیا، جیسا کے خداوند عالم فرما رہا ہے: «وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى و اتقون یا اُولِی الالبَابِ[سورہ بقرہ،آیت:۱۷۱] اپنے لئے زادُ راہ فراہم کرو کہ بہترین زادُ راہ تقویٰ ہے اوراے صاحبانِ عقل! ہم سے ڈرو»۔
*نھج البلاغہ، محمد ابن حسین شریف الرضی، ھجرت، ص۳۴۳، ۱۴۰۴ق۔

تبصرے
Loading...