حیا نیکی کا سبب بھی اور برائی سے رکاوٹ بھی

خلاصہ: حیا ایسی چیز ہے کہ جس شخص کے پاس ہو، وہ اس کے ذریعے دو طرح کے کام کرسکتا ہے: نیکی بھی کرسکتا ہے اور برائی سے بھی بچ سکتا ہے۔ اس بات کی وضاحت روایات کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔

حیا نیکی کا سبب بھی اور برائی سے رکاوٹ بھی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال یہ ہے کہ کیا “حیا” برائی کے ارتکاب سے منع کرتا ہے یا نیک کاموں کی طرف بھی ترغیب دلاتا ہے؟ اگر کوئی شخص واجبات کو بجالانے میں کوتاہی کرتا ہے، مثلاً نماز نہیں پڑھتا، روزہ نہیں رکھتا تو کیا اسے واجبات کی ترغیب دلانے کے لئے “حیا” کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں کیا “حیا” کی حدیں فرمانبرداری کو بھی شامل ہوتی ہیں یا صرف گناہ سے مختص ہیں؟
جب اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات کا اس سوال کے پیش نظر مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ حیا، روکنے کا بھی سبب ہے اور ترغیب دلانے کا بھی۔
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: الحَياءُ يَصُدُّ عَن فِعلِ القَبيحِ”، “حیا برے کام سے روکتا ہے”۔ [غررالحكم، ح 1393]۔
نیز آپؑ فرماتے ہیں: “الحَياءُ سَبَبٌ إلى كُلِّ جَميلٍ”، “حیا، ہر خوبصورتی کا سبب ہے”۔ [تحف العقول ، ص 84]
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: لَولاهُ لَم يُقرَ ضَيفٌ ولَم يوفَ بِالعِداتِ ولَم تُقضَ الحَوائِجُ”، “اگر وہ (حیا) نہ ہو تو کسی مہمان کا احترام نہ کیا جاتا، اور وعدوں کو پورا نہ کیا جاتا، اور (لوگوں کی) ضروریات پوری نہ کی جاتیں”۔ [بحارالأنوار، ج 3، ص 81]
 حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: الحَياءُ مِفتاحُ كُلِّ الخَيرِ، “حیا ہر بھلائی کی کنجی ہے”۔ [غرر الحكم : ح 340]
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: پژوهشي در فرهنگ حيا، عباس پسندیدہ]
[حكمت نامه جوان، محمدی ری شہری]

تبصرے
Loading...