حلم اور ضبطِ نفس کے مثبت اثرات

خلاصہ: حلم کی ایک برکت اور اثر عفو و درگزرہےعفوودرگزر جوانمردوں کی صفات میں سے ہے جس کے ذریعے دوستی کے تعلقات اور باہمی روابط میں استحکام اور مہرومحبت پیدا ہوتی ہے،ایسا انسان جس میں حلم کی صفت نہ ہو، اس میں عفوودرگزر کی خصوصیت نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم کا حلیم ہونا، اس کی جانب سے عفووبخشش کا موجب ہے۔

حلم اور ضبطِ نفس کے مثبت اثرات

بسم اللہ الرحمن الرحیم
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ایک خطبے کے آغاز میں فرماتے ہیں:الحمد لله  الذی عظم حلمه فعفا (اس خدا کی حمدوسپاس جس کے حلم کی عظمت اسکے عفوودرگزر کا موجب ہے۔ [نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱]حلم کی ایک اور تاثیر یعنی اس کی وجہ سے دوستوں میں اضافہ ہونے کے بارے میں امیر المومنین فرماتے ہیں:وبالحلم عن السّفبه تکثر الانصار ؛احمق لوگوں کے مقابل حلم و بردباری کا اظہار انسان کے ساتھیوں میں اضافہ کرتا ہے۔[نہج البلاغہ کلمات ِقصار ۲۲۴]اسی بنیاد پر آپ نے فرمایا ہے کہ:الحلم عشیره؛حلم خود ایک قبیلے کی مانند ہے۔[نہج البلاغہ کلمات ِقصار۔ ۴۱۸]حلم سے ہمت پیدا ہوتی ہے اور یہ انسان کی عزت و آبرو کی حفاظت کا موجب ہوتا ہےحلم کی اس تاثیر کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:والحلم والا ناة توامان ینتجها علوّ الهمّة؛حلم اور بے اعتنائی دو جڑواں مولود ہیں جن سے بلند ہمتی پیدا ہوتی ہے۔[نہج البلاغہ کلمات ِقصار۴۶۰]ایک دوسرے مقام پر فرمایا: الحلم غطاء ساتر۔حلم ڈھانکنے والا پردہ ہے۔حلم کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ عزت و شرف کا باعث ہےلہٰذا حضرت علیؑ نے فرمایا ہے: ولاعز کالحلم؛کوئی شرف حلم کی مانند نہیں۔[نہج البلاغہ۔ کلمات ِقصار۱۱۳]یعنی حلم اور ضبط نفس خداوند ِعالم کی بارگاہ اور لوگوں کی نظروں میں عزت وشرف کا باعث ہے۔حلم ہی کے اثرات اور برکات میں سے ایک یہ ہے کہ کاموں میں تقصیر اور کوتاہی کا موجب نہیں ہوتا اور لوگوں کے سامنے ایک پسندیدہ اور خوشگوار زندگی کا باعث بن جاتا ہےبقول امام علی علیہ السلام: ومن حلم لم یفرط فی امرہ، وعاش فی الناس حمیداً (حلیم شخص، اپنے کاموں میں تفریط و کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوتا اور لوگوں کے درمیان پسندیدہ انداز سے زندگی بسر کرتا ہے۔[نہج البلاغہ کلمات ِقصار۳۱]
خداوند ِعالم سے دعا گوہیں کہ ہم ان فرامین اور بزرگانِ دین کے اس طرزِ عمل سے حلم اور ضبط ِنفس کا درس لیں اور اس خصلت کے ذریعے دنیا اور آخرت میں امتیازی مقام حاصل کریں۔
ماخذ:سید رضی،نہج البلاغہ

تبصرے
Loading...