حق کو جھٹلانے کی سخت مذمت

خلاصہ: کافر اور منافق انبیاء (علیہم السلام) کو جھٹلاتے رہے، جھٹلانے والے شخص کو چاہیے کہ اپنے اس غلط کام کی وجوہات کو پہچانے اور اس کام سے باز آنے کے طریقوں کو سمجھ کر اس کام سے باز آجائے۔

انبیاء اور اہل بیت (علیہم السلام) جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف پکارتے تھے، ان کے سامنے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ  کافر اور دشمن ان کو جھٹلاتے تھے۔
سورہ انعام کی آیت ۲۱ میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ”، “اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹا بہتان باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے۔ یقینا ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پائیں گے”۔
سورہ فرقان کی آیت ۱۱ میں ارشاد الٰہی ہے: بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ وَأَعْتَدْنَا لِمَن كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيراً”، “بلکہ یہ لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں اور جو لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں ہم نے ان کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے”۔
حق کو جھٹلانا کبھی خفیہ طور پر ہوتا ہے اور کبھی کھلم کھلا۔ حق کو جھٹلانے والا کبھی دل سے جھٹلاتا ہے، کبھی زبان سے، کبھی عملی طور پر۔
تاریخ میں جھٹلائے گئے مسائل میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ “حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت اور خلافت اور امامت” کا مسئلہ ہے جو خلافت کے غاصبوں نے جھٹلایا۔
جب حق کو جھٹلانے کے نقصانات کو قرآن کریم اور احادیث میں سے پڑھا جائے اور جھٹلانے والوں کے انجام کے بارے میں غور کیا جائے تو جھٹلانے والا شخص اس غلط کام سے باز آسکتا ہے۔
نیز جھٹلانے سے باز آنے کے لئے جھٹلانے کی جڑوں کو پہچانا جائے، نیک لوگوں کی ہم نشینی اختیار کی جائے، صحیح عقیدہ کو تلاش کرکے اسے اپنایا جائے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے تسلیم ہونا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت ۱۸۴ میں رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کو تسلّی دی ہے: فَإِن كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ جَاءُوا بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتَابِ الْمُنِيرِ”، “اس کے بعد بھی آپ کی تکذیب کریں تو آپ سے پہلے بھی رسولوں کی تکذیب ہوچکی ہے جو معجزات, مواعظ اور روشن کتاب سب کچھ لے کر آئے تھے”۔
* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب، آخری آیت کا ترجمہ از: علامہ ذیشان حیدر جوادی (اعلی اللہ مقامہ)

تبصرے
Loading...