تربیت اور وراثت کا اولاد کی پرورش میں کردار

خلاصہ: اچھی تربیت اور وراثت کا اولاد پر اچھا اثر ہوتا ہے اور بری تربیت اور وراثت کا اولاد پر برا اثر ہوتا ہے۔

تربیت اور وراثت کا اولاد کی پرورش میں کردار

والدین دو راستوں سے اپنی اولاد کی اخلاقی صورتحال میں اثرانداز ہوتے ہیں، تکوین اور تشریع کے ذریعے۔
یہاں پر تکوین سے مراد وہ صفات ہیں جو نطفہ میں درج ہیں اور نہ جانتے ہوئے اولاد میں منتقل ہوتے ہیں اور تشریع سے مقصود تعلیم و تربیت ہے جو جانتے ہوئے وقوع پذیر ہوتی ہے اور اچھے اور برے صفات کی پرورش کا باعث بنتی ہے۔
اگرچہ ان دونوں میں سے کوئی بھی جبری نہیں ہے، لیکن یقیناً انسان کے صفات میں ان کا کردار ہوتا ہے۔ بہت سارے نیک، صالح، شجاع اور نرم دل افراد کی اولاد انہی کی طرح ہوتی ہے اور اُدھر سے کتنے برے لوگوں کی اولاد بھی انہی جیسی ہوتی ہے۔ بیشک اس مسئلہ میں دونوں طرف سے کچھ افراد مستثنیٰ بھی ہوتے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ وراثت اور تربیت کا اثر، جبری نہیں ہے کہ جس میں تبدیلی ناممکن ہو۔
سورہ نوح کی آیت ۲۷ میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی یہ بات بیان ہوئی ہے جو آپؑ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی: إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّاراً”، “اگر تو انہیں چھوڑے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کرینگے اور بدکار اور سخت کافر کے سوا کسی اور کو جنم نہیں دیں گے”۔
اس کلام میں بدکار افراد اور ان کی بدکار اولاد کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بیان کیا جارہا ہے کہ ان کو زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں ہے، انہیں اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوجانا چاہیے اور ان کا خاتمہ ہوجائے، یہ بات شاید اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو کہ معاشرے کے ماحول، گھریلو تربیت اور حتی وراثت کا بھی اخلاق اور عقیدہ میں کردار ہوتا ہے۔
یہ بات غورطلب ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) یقینی طور پر عرض کررہے ہیں کہ ان کی ساری اولاد بدکار اور کافر ہوگی، کیونکہ بدکاری کی لہر، اُن کے معاشرے میں اس قدر طاقتور تھی کہ اس سے نجات پانا، آسان نہیں تھا، نہ یہ کہ یہ اسباب سوفیصد جبری پہلو کے حامل ہوں اور انسان کو بے اختیار اپنی طرف کھینچیں۔

* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* ماخوذ از: اخلاق در قرآن، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج۱، ص۱۶۵۔

تبصرے
Loading...