تجربہ اور عبرت حاصل کرنے کی اہمیت

خلاصہ: تجربہ ایسا سرمایہ ہے جس سے انسان نصیحت اور درسِ عبرت لے کر آئندہ نقصانات سے بچ سکتا ہے۔

تجربہ اور عبرت حاصل کرنے کی اہمیت

سورہ حشر کی دوسری آیت میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ”، “عبرت حاصل کرو اے دیدۂ بینا رکھنے والو”۔
سورہ یوسف کی آیت ۱۱۱ میں ارشاد الٰہی ہے: “لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ، “یقیناً ان لوگوں کے (عروج و زوال کے) قصہ میں صاحبانِ عقل کے لئے بڑی عبرت و نصیحت ہے”۔
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: مَن قَلّتْ تَجرِبَتُهُ خُدِعَ، مَن كَثُرَتْ تَجرِبتُهُ قَلَّتْ غِرَّتُهُ، “جس کا تجربہ کم ہو وہ دھوکہ کھاتا ہے۔ جس کا تجربہ زیادہ ہو وہ کم دھوکہ کھاتا ہے”۔ [غررالحکم، ص۵۸۵، ح۲۵۵۔ ص۵۹۳، ح۳۹۲]
نیز حضرت امام علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: العاقلُ مَن وعَظَتْهُ التَّجارِبُ”، ” عقلمند آدمی وہ ہے جس کوتجربات نصیحت کریں”۔ [تحف العقول، ص۸۵]
جب انسان مختلف تجربات حاصل کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی غلطیاں کم ہوگئی ہیں، البتہ ضروری ہے کہ انسان جب تجربہ کرتا ہے تو اس سے سبق اور عبرت ضرور لے، ورنہ دو نقصانوں کی زد میں ہے: ایک سابقہ تلخ تجربہ سے جو نقصان اٹھایا، دوسرا مستقبل میں دوبارہ تجربہ کرتے ہوئے جو نقصان اٹھائے گا۔
تجربہ کو ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ آدمی کو سابقہ نقصان پر ہمیشہ افسوس نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اسے تجربہ اور درسِ عبرت سمجھ کر آئندہ خیال رکھنا چاہیے کہ اس جیسے مسئلہ میں سوچ سمجھ کر، دیکھ بھال کر اور عقلمندی سے قدم اٹھائے۔ اس تجربہ کو حاصل کرنے میں نقصان سے ہٹ کر آدمی کو کئی فائدے بھی حاصل ہوئے ہیں: ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کے پاس ایسے تجربہ کا سرمایہ ہے جو سب لوگوں کے پاس نہیں ہے، اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آئندہ وہ ایسا نقصان نہیں اٹھائے گا، بلکہ ہوسکتا ہے کہ اگر وہ سابقہ تجربہ نہ ہوتا تو اسے آئندہ اُس سے بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑتا، اور تیسرا فائدہ یہ ہے کہ جب وہ اس تجربہ سے نصیحت حاصل کرلے گا تو یہ اس کی عقلمندی ہے، اور چوتھا فائدہ یہ ہے کہ وہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر دوسرے لوگوں کو بھی مشورہ دے کر ان کو نقصانات سے بچنے پر ہوشیار کرے گا۔

* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* غررالحکم و دررالکلم، آمدی، ص۵۸۵، ح۲۵۵۔ ص۵۹۳، ح۳۹۲۔
* تحف العقول، ابن شعبة الحراني، ص۸۵۔

تبصرے
Loading...