بصیرت اور تقوی

خلاصہ: اگر انسان اپنے آپ کو گناوں سے محفوط رکھے تو خدا اس کے دل میں وہ بصیرت عطا کرتا ہے کہ جس کہ ذریعہ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہوتا ہے۔

بصیرت اور تقوی

     خداوند عالم مؤمن کو ایسی بصیرت عطا کرتا ہے کہ جس سے وہ اپنے فائدہ اور نقصان کو اچھی طرح پہچان لیتا ہے اور پھر اسے فائدہ پہونچانے والی چیزوں کی توفیق عطا کر دی جاتی ہے اوراس کے دل میں نقصان دہ امور کی نفرت ڈال دی جاتی ہے۔
     یہ بصیرت خاص اہل ایمان کو نصیب ہوتا ہے اور یہ خاص اہل ایمان وہ ہیں جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔
     جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَ آمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَ يَجْعَلْ لَكُمْ نُوراً تَمْشُونَ بِهِ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ وَ اللهُ غَفُورٌ رَحيمٌ[سورۂ حدید، آیت:۲۸] ایمان والو اللہ سے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آؤ تاکہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دہرے حّصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دے دے جس کی روشنی میں چل سکو اور تمہیں بخش دے اور اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے»۔
     اس آیت میں جس نور کے ملنے کا تذکرہ ہے اس سے دو قسم کا نور مراد ہے:
     ۱۔ ۔دنیا میں نور، یعنی ایمان اور اعمال صالحہ اور بصیرت قرآنی کا نور، جو انسان کو حق پر قائم رکھتا ہے، خواہ ایسا شخص دنیا کے کسی بھی کونے میں چلا جائے، یہ نور اس کے ساتھ رہتا ہے۔
     ۲۔ آخرت میں نور، یعنی جب انسان پل صراط سے گزرنے لگے گا تو یہ نور اس کے لیے روشنی پیدا کرے گا تاکہ اس کے لیے چلنا آسان ہوجائے۔

تبصرے
Loading...