بدکلامی اور فحاشی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     روایتوں میں بدکلامی اور فحاشی کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے، جیسا کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) بدکلامی کے بارے میں فرماتے ہیں: «إِنَ‏ اللَّهَ‏ حَرَّمَ‏ الْجَنَّةَ عَلَى‏ كُلِ‏ فَحَّاشٍ‏ بَذِي‏ءٍ قَلِيلِ الْحَيَاءِ، خداوند متعال نے جنت کو فحاش اور کم حیاء رکھنے والے پر حرام قرار دیا ہے»[اصول کافی، ج۲، ص۳۲۳]، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) دوسری جگہ فرماتے ہیں: «الْفُحْشُ‏ وَ التَّفَحُّشُ‏ لَيْسَا مِنَ‏ الْإِسْلَام، گالی دینا  اور بدکلامی کرنا اسلام میں سے نہیں ہے»[عيون الحكم و المواعظ، ص۲۷]
     معصومین(علیہم السلام) کی سیرت  کے ذریعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی بدکلامی نہیں کی، یہاں تک کہ اگر کسی نے ان کے ساتھ بدکلامی کی ہے تب بھی انھوں نے اپنے اخلاق کے ذریعہ ان کو سیدھے راستے کی جانب ہدایت فرمائی ہے، جیسا کہ ایک نصرانی امام باقر(علیہ السلام) کے اخلاق کے ذریعہ مسلمان ہوگیا:
نصرانی نے امام(علیہ السلام) سے کہا: تم بقر(گائے ) ہو،
امام(علیہ السلام) نے فرمایا: نہیں میں باقر ہوں،
اس نے امام(علیہ السلام) سے اسی طرح کی بہت زیادہ بدکلامی کی، لیکن امام(علیہ السلام) نے اس کی بدکلامی کا جواب اخلاق کے ساتھ دیا، جب اس نے یہ دیکھا تو و اسی وقت اس نصرانی نے اسلام کو قبول کرلیا[مناقب آل أبي طالب( عليهم السلام)، ج:۴، ص:۲۰۷]۔
     ہم جن کو اپنا آقا اور مولی مانتے ہیں، ان کا کردار تو یہ ہے کہ اگر کوئی نصرانی بھی آپ کے ساتھ بدکلامی کرتا ہے تو وہ اس کو اپنے اخلاق کے ذریعہ مسلمان بنادیتے ہیں، لیکن ہم اپنے مؤمن بھائی کے ساتھ بھی بداخلاقی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور بعض وقت اس کی دلیلییں بھی پیش کرنے لگتے ہیں، خدا ہم سب کو معصومین(علیہم السلام) کے کردار  کو اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔
*اصول لكافي، محمد بن يعقوب كلينى‏، ج۲، ص۳۲۳، دار الكتب الإسلامية، تهران‏، ۱۴۰۷ق‏.
*عيون الحكم و المواعظ، على بن محمد، ص۲۷، محقق: حسنى بيرجندى، دار الحديث‏،قم‏، ۱۳۷۶ش‏.
*مناقب آل أبي طالب( عليهم السلام)، ابن شهر آشوب مازندرانى، ج۴، ص۲۰۷، علامه‏، قم‏،۱۳۷۹ ق‏.

تبصرے
Loading...