بات لکڑہارے کی

خلاصہ: آیات، روایات اور تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حاسد ہمیشہ خود کا نقصان کرتا ہے۔

بات لکڑہارے کی

          حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں ایک لکڑہارا تھا جو جنگلوں اور پہاڑوں میں جاکر لکڑیاں کاٹتا، انہیں پیٹھ پر ڈھو کر لاتا اور بازار میں فروخت کیا کرتا تھا، اس سے تھوڑی بہت جو آمدنی ہوتی اسی پر اس کا گزر بسر ہوتا تھا۔ یہ کام اگر چہ بہت سخت اور تکلیف دہ تھا؛ مگر لکڑہارا کبھی اس سے نالاں اور شکوہ کناں نہیں تھا۔
          پھر کیا ہوا کہ اس کے ایک پڑوسی نے بھی یہی کام شروع کردیا؛ مگر فرق یہ تھا کہ اس کے پاس ایک گدھا تھا، وہ زیادہ لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور اس سے کم قیمت پر بازار فروخت کیا کرتا تھا، یہ دیکھ کر اس کے اندر حسد کی آگ بھڑک اٹھی، وہ سیدھا حضرت موسی کے پاس گیا اور اس طرح اپنی پریشانی بیان کرنا شروع کی: آپ کو پتہ ہے کہ میں ایک پیشہ ور لکڑہارا ہوں، اکثرایسا ہوتا ہے کہ لکڑیاں کاٹ کر جب میں اپنی پیٹھ پر لادتا ہوں تو بہت کانٹے چبھ جاتے ہیں، مجھے بھی پر سکون زندگی جینے کی تمنا ہے، برائے کرم جب آپ اللہ کی بارگاہ میں حاضرہوں تو میری مشکل بھی وہاں رکھ دیں اور میرے لئے ایک گدھے کی درخواست کردیں جس پر میں لکڑیاں اٹھا کر بازار لے جاسکوں۔
          جب حضرت موسی، اللہ سے ہمکلام ہوئے تو آپ نے اس غریب لکڑہارے کی فریاد اللہ کے سامنے پیش کردی۔
          جواب ملا: موسی! یہ بندہ حسد کی آگ میں جل رہا ہے، جب تک وہ خود کو اس مہلک بیماری سے نجات نہیں دلائے گا کبھی بھی چین سے نہیں رہ سکتا ، اس سے جاکر کہہ دینا کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز آجائے، آج کل اس دوسرے لکڑہارے کا گدھا بیمار ہے، اس سے کہو کہ یہ اپنے پڑوسی کے گدھے کی شفا کے لئے دعا کرے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے اور اس کا گدھا ٹھیک ہوجاتا ہے تو میں اسے ایک گدھا عطا کردوں گا۔
          جب حضرت موسی نے آکر اس غریب لکڑہارے سے ساری تفصیل بیان کی تو اس کے اندر موجود آتش حسد اور تیز ہوگئی، اور کہنے لگا: میں کبھی بھی اپنے پڑوسی کے گدھے کی شفا کے لئے اللہ سے دعا نہیں مانگ سکتا، جو کچھ میرے پاس ہے میں اسی میں خوش ہوں اب مجھے خدا سے کسی گدھے کی طلب نہیں، میں تو یہی دعا کروں گا کہ اس کا گدھا کبھی ٹھیک نہ ہو، اور یہی میرے لئے بہت ہے۔

          پیارے نوجوانو! تم نے دیکھا کہ حسد کتنی بری چیز ہے! جب تک یہ بیماری کسی کے اندر موجود ہو وہ کبھی بھی خوش نہیں ہوتا اور حسد کی آگ میں خود جلتا رہتا ہے۔ ہمارے نبی نے کتنی عمدہ نصیحت فرمائی: إِيَّاكُمْ‏ وَ الْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ(بحار الانوار، ج‏70، ص: 255(حسد سے بچو؛ کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے۔

منبع و ماخذ
مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى‏، ناشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت‏، 1403 ق‏، چاپ دوم‏۔

 

 

 

تبصرے
Loading...