اپنے دینی بھائی سے ہدیے لینا

خلاصہ: اگر انسان معنویت اور روحانیت کی طرف توجہ کرے تو اپنے دینی بھائیوں سے معنوی ہدیے لے سکتا۔

اپنے دینی بھائی سے ہدیے لینا

    حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: أحَبُّ إخواني إلَيَّ مَن أهدى إلَيَّ عُيوبي، “میرا سب سے زیادہ محبوب بھائی وہ ہے جو میرے عیب مجھے ہدیہ دے”۔ [تحف العقول، ص ۳۶۶]
بعض چیزیں بظاہر تلخ ہوتی ہیں، لیکن ان کی حقیقت میٹھی اور لذیذ ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک اپنے دینی بھائی کو اس کے عیب ہدیہ دینا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے اس فرمان میں عیب بتانے یا دکھانے کے لفظ استعمال نہیں کیے، بلکہ ہدیہ دینے کے الفاظ استعمال کیے ہیں، جن سے نفسیاتی پہلو کا خیال رکھنا بھی سمجھ میں آتا ہے، یعنی جب انسان سمجھ جائے کہ عیب سے مطلع کرنا ہدیہ دینا اور عیب سے مطلع ہونا ہدیہ لینا ہے تو اس کے لئے عیب بتانے اور سننے کی ظاہری تلخی کم ہوجائے گی، لہذا عیب بتانے والا اپنے دینی بھائی کو آسانی سے اس کا عیب بتاسکتا ہے کیونکہ وہ اسے ہدیہ سمجھ کر، دے رہا ہے اور سننے والے کے لئے اپنا عیب سننا آسان ہوگا، اس لیے کہ وہ ہدیہ سمجھ کر لے رہا ہے۔
عیبوں سے مطلع کرنے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ مطلع کرنے کی بجائے، اس حدیث میں “ہدیہ دینے” کے لفظ استعمال ہوئے ہیں۔
جو شخص اپنے دینی بھائی کو اس کا عیب بتاتا ہے اور جسے اس کا عیب بتایا جاتا ہے، دونوں افراد کی اس بات پر توجہ رہنی چاہیے کہ ایک دے رہا ہے اور دوسرا ہدیہ لے رہا ہے۔ جو شخص عیب بتا رہا ہے وہ دوسرے آدمی کا فائدہ سمجھ کر اسے اس کا عیب بتارہا ہے، لہذا حقیقت میں اسے ہدیہ دے رہا ہے، اور جس شخص کو اس کا عیب بتایا جارہا ہے وہ اس بات کو اپنے اوپر اعتراض اور تنقید اور اپنے لیے بے عزتی نہ سمجھے، بلکہ ہدیہ سمجھ کر قبول کرے۔
ہوسکتا ہے کہ جس آدمی کو اس کا دینی بھائی اس کا عیب بتاتا ہے تو اس کے لئے اس وقت سننا اور برداشت کرنا مشکل کام ہو، لیکن جب ہدیہ سمجھ کر اس عیب کو سنے گا اور اس پر غور کرے گا تو اسے اپنے دینی بھائی کی یہ بات “عیب بتانا” نہیں لگے گی، بلکہ اسے سمجھ آجائے گی کہ یہ تو مجھے “ہدیہ” ملا ہے۔

* تحف العقول، ابن شعبة الحراني، مؤسسة النشر الاسلامي، ص ۳۶۶۔

تبصرے
Loading...