انسان بلاء میں کیوں گرفتار ہوتا ہے

خلاصہ: اگر انسان فطرت کے قانون پر چلتا رہے تو خدا کی برکتیں اس پر نازل ہوتی رہینگی اور جب خدا کے بنائے ہوئے قانون کو توڑنے لگیگا تو ان کی زندگی خراب ہوجائیگی

انسان بلاء میں کیوں گرفتار ہوتا ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
      بعض بلائیں اور مصیبتیں ایسی ہیں جن میں انسان کا کردار اثر انداز ہوتا ہے جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے: «أَوَ لَمَّا أَصابَتْکُمْ مُصیبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْها قُلْتُمْ أَنَّى هذا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِکُم[سورۂ آل عمران، آیت:۱۶۵] کیا جب تم پر وہ مصیبت پڑی جس کی دوگنی تم کفّارپر ڈال چکے تھے تو تم نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ کیسے ہوگیا تو پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ یہ سب خود تمہاری طرف سے ہے»
     دوسری جگہ خداوند متعال اس کے بارے میں اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «ظَهَرَ الْفِسادُ فِى الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِما کَسَبَتْ أَیْدِى النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ[سورۂ روم، آیت:۴۱] لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بنا پر فساد خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تاکہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائیں»۔
    اس آیت میں قرآن مجید نے ان گناہوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن کے وجہ سے سب لوگ پریشانیوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں، علامہ طباطبائی اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انسان کے اعمال اور انسان کی تکوینی زندگی کے درمیان بہت گہرا تعلق پایا جاتا ہے، اگر انسان فطرت کے قانون پر چلتا رہے تو خدا کی برکتیں اس پر نازل ہوتی رہینگی اور جب خدا کے بنائے ہوئے قانون کو توڑنے لگیگا تو ان کی زندگی خراب ہوجائیگی[الميزان فى تفسير القرآن، ج‏:۱۸، ص:۵۹]۔    
     امام باقر(علیہ السلام) انسان کے گناہوں کے اثرات کے بارے میں اس طرح فرمارہے ہیں: « جان لو کہ کسی بھی سال کی بارش گذشتہ سال سے کم نہیں ہوتی، بلکہ خدا جس جگہ پرچاہے اس کو برساتا ہے۔ بے شک جب معاشرے میں لوگ گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں تو خدا اس حصہ کی بارش وہاں پر نہیں برساتا اور اس بارش کو بڑے اور وسیع بیابانوں اور پہاڑوںپر برسادیتا ہے»[الكافي، ج:۵، ص:۳۷۴].
*الميزان فى تفسير القرآن، سيد محمد حسين طباطبايى، دفتر انتشارات اسلامى جامعه‏ مدرسين حوزه علميه قم، قم، ۱۴۱۷ق.
الكافي، محمد بن يعقوب کلینی‏، دار الكتب الإسلامية، تهران‏، ۱۴۰۷ق‏.

تبصرے
Loading...