امر بالمعروف اور نہی عن المنکر عقل کا حکم

خلاصہ: کچھ ایسے اچھے کام ہیں جن کے انجام دینے کا حکم عقل سلیم دیتی ہے اور بعض برے کاموں سے منع کرتی ہے۔

       جس معاشرے میں دین اور شریعت نہیں ہوتی وہاں پر کچھ ایسے کام دکھائی دیتے ہیں جو کسی لحاظ سے صحیح ہوتے ہیں، اصل میں ایسا نہیں کہ وہ لوگ دین پر عمل کررہے ہیں، بلکہ وہ کام انسانی عقل کے مطابق ہے، مثلاً مہمان کا احترام۔ اگر کافر ملک میں دیکھا جائے تو وہ لوگ مہمان کا احترام کرتے ہوئے نظر آئیں گے، انہوں نے دین کو مدنظر نہیں رکھا، بلکہ ان کی اور ہر انسان کی عقل حکم دیتی ہے کہ مہمان کا احترام کرو، اسی طرح کئی دیگر کام ہیں جن کا عقل سلیم حکم دیتی ہے، ان میں سے ایک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ کتنے اچھے اور برے کام ہیں کہ اگر انسان بے دین بھی ہو تو اسے معلوم ہوگا کہ یہ کام اچھا ہے اور وہ کام غلط ہے۔
واضح رہے کہ اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو غیرمسلم اور بے دین لوگ ہیں، وہ بھی نجات پانے والے اور کامیاب ہیں، ہرگز ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یہاں مقصود یہ ہے کہ بعض چیزوں کا حکم دین کے علاوہ عقل بھی دیتی ہے، اگر عقل کے حکم کی طرف توجہ کی جائے تو دیندار لوگوں کو ان کے اعتراض یا سوال کا جواب اس بات سے مل جاتا ہے کہ تم لوگ تو دیندار ہو، جو لوگ بے دین ہیں ان کو بھی ان کاموں میں سے بعض پر عمل کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی ان کاموں کے صحیح یا غلط ہونے کو فطرت اور عقل کی بنیاد پر سمجھتے ہیں۔
اس بات کو ہر بے دین اور غیرمسلم بھی اپنی عقل کے ذریعے سمجھتا ہے کہ اگر کشتی میں چند افراد بیٹھے ہوں اور ان میں سے صرف ایک فرد کشتی کو سوراخ کرنا شروع کردے تو دوسروں کو منع کرنا چاہیے، کیونکہ کشتی کوسوراخ کرنے کا نقصان صرف اسی آدمی کو نہیں ہوگا، بلکہ سب کشتی کے مسافروں کو ہوگا، اس صورتحال میں کون کہہ سکتا ہے کہ مجھے منع کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟!
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی اسی طرح ہے، جن قوانین کا خیال رکھنا معاشرے کے افراد کے لئے فائدہ مند ہے، عقل ان لوگوں سے کہتی ہے کہ ایک دوسرے کو اس اچھے اور فائدہ مند کام کا حکم دو، اگر کوئی شخص معاشرے میں غلطی، برائی یا نقصان دہ کام کررہا ہے تو دوسرے لوگوں کو عقل حکم دیتی ہے کہ اسے اس برائی سے منع کرو۔

تبصرے
Loading...