امام زین العابدین (ع)کا درس تواضع

فقراء و مساکین کے ساتھ منکسرانہ و متواضعانہ برتاؤ ہماری ثقافت و تہذیب کا حصہ اور اعلی اسلامی و انسانی اقدار کا آئینہ ہے جسے ہمارے ائمہ علیھم السلام  نے بطور وراثت ہمارے سپرد کیا ہے۔-

امام زین العابدین (ع)کا درس تواضع

                

                 اسلامی تعلیم اور اقدار کا ایک اہم حصہ مسلمانوں کو تواضع و انکساری کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن یہ ایک تعلیم ہے جس سے ہم بیگانہ ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی انکساری کرے تو اسے سچ سمجھتے ہوئے انسان کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں مثلا اگر کوئی خود کو انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاہل قرار دے تو ہم بھی اس کی علمی منزلت سے آنکھیں بند کرکے اسے ایک جاہل انسان فرض کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ اخلاقی گراوٹ یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں نے تواضع و انکساری کو تقریبا خیرباد ہی کہہ دیا ہے اور اب تو ہم اتنی طبقاتی تقسیمات میں تقسیم ہوچکے ہیں کہ گویا ہمارے ساتھ زندگی بسر کرنے والے دیگر افراد کسی دوسرے سیارے کی مخلوق اور اچھوت ہیں۔لیکن بزرگان دین نے ہمیشہ اس رویے کی مخالفت کرکے مسلمانوں کے لیے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جن پر قدم رکھنے کی صورت میں ہم نہ کبھی انسانی اقدار سے دور ہونگے نہ کبھی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہونگے۔
               ائمہ معصومین علیھم السلام ہماری زندگی کے لئے مشعل راہ ہیں، ان کے افعال اور اقوال ہماری زندگی کی کامیابی کے لئے سند ہیں، انہیں میں سے ایک ہمارے چوتھے امام حضرت زین العابدین علیہ السلام ہیں جو کمالات کی اعلی منزل پر فائز تھے، جن کے پاس خدا کا دیا سب کچھ تھا مگر اسکے باوجود تکبر ، غرور اور گھمنڈ جیسے امراض سے کوسوں دور تھے بلکہ آپ کی پوری زندگی میں سوائے تواضع کے کوئی اور چیز نہیں دیکھی گئی،آپ خود کو خدا کا بندہ کہنے میں فخر محسوس کرتے تھے اور لوگوں کو بھی تواضع اور فروتنی کی دعوت دیتے تھے۔
                ایک مقام پر آپ ارشاد فرماتے ہیں:’’ لَا حَسَبَ لِقُرَشِيٍّ وَ لَا عَرَبِيٍ‏ إِلَّا بِتَوَاضُع‏ ‘‘[1] خدا کے نزدیک قریشی اور عربی کا کوئی معیار نہیں ہے اس کے نزدیک بس تواضع کی قدر و منزلت ہے۔
                 دوسرے مقام پر تواضع کی عظمت ظاہر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’ إِنَ‏ فِي‏ السَّمَاءِ مَلَكَيْنِ‏ مُوَكَّلَيْنِ‏ بِالْعِبَادِ، فَمَنْ تَوَاضَعَ لِلَّهِ رَفَعَاهُ، وَ مَنْ تَكَبَّرَ وَضَعَاه‏ ‘‘[2] خداوند منان نے آسمان پر بندوں کے لئے دو فرشتے معین فرمائے ہیں، لہٰذا جو تواضع کرتا ہے یہ فرشتے اسکے درجات کو بلندکرتے ہیں اور جو تکبر کرتا ہے اسکے درجات کو کم کرتے ہیں۔
                ایک دن مشہور شاعر اور محدث محمد بن شہاب زہری غمگین شکل و صورت لئے امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، امام علیہ السلام نے زہری سے پریشانی کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا ’’ قَالَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ غُمُومٌ وَ هُمُومٌ تَتَوَالَى عَلَيَّ لِمَا امْتُحِنْتُ بِهِ مِنْ جِهَةِ حُسَّادِ نِعَمِي‏‘‘مجھے ان لوگوں پر غصہ آتا ہے جن سے میں تو نیکی کرتا ہوں لیکن وہ مجھ سے حسد کرتے ہیں۔‘‘
              امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:’’ تمہارے لئے ضروری ہے کہ تمام مسلمانوں کو اپنا ذاتی خاندان تصور کرو، ان میں سے جو تم سے بڑا ہو اسے اپنے باپ کے مقام پر سمجھو اور جو تم سے چھوٹا ہو اسے بیٹے کے مقام پر سمجھو اور جو تمہارا ہم عمر ہو اسے اپنا بھائی تصور کرو پھر تم سوچو کہ آیا اپنے خاندان کے افراد کا کوئی نقصان تمہیں پسند آتا ہے؟ کیا تم اپنے خاندان پر ظلم یا بد دعا کرنا گوارا کروگے ؟ یا چاہوگےکہ ان کے راز آشکار ہوجائیں ؟ اور اگر کبھی ابلیس تمہارے دل میں یہ وسوسہ پیدا کرے کہ تم ان سے بہتر ہو تو شیطانی وسوسہ کو اپنے سے دور کرو اور اپنے آپ سے کہو کہ فلاں شخص مجھ سے عمر میں بڑا ہے یہ ایمان لانے میں مجھ پر سبقت رکھتا ہے اور اس کے نیک عمل مجھ سے زیادہ ہیں، اگر وہ تم سے عمر میں چھوٹا ہو تو تم انے دل میں یہ خیال کرو کہ اس کی عمر مجھ سے کم ہے اسی لئے اس کے گناہ بھی مجھ سے کم ہیں، لہذا یہ مجھ سے بہتر ہے ، اگر وہ شخص تمہارا ہم عمر ہو تو تم اپنے دل میں یہ خیال پیدا کرو کہ مجھے اپنے گناہوں کا یقین ہے اس کے گناہوں کا شک ہے، لہذا یہ مجھ سے بہتر ہے ، اگر تم کسی کو اپنا احترام کرتے ہوئے دیکھو تو تم میں تکبر اور خود پسندی کے جذبات پیدا نہیں ہونے چاہیے تم اپنے دل سے کہو کہ اسلام ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کے احترام کا حکم دیتا ہے اسی لئے یہ لوگ میرا احترام کرتے ہیں  ورنہ مجھ میں کوئی خصوصیت نہیں ہے، اگر کسی شخص کو اپنے آپ سے بے اعتنائی کرتا ہوا پاؤ تو یہ سمجھو کہ یہ تمہارے گناہوں کی سزا ہے۔
یاد رکھو اگر تم نے میری باتوں پر عمل کیا تو تمہارے دوست زیادہ اور دشمن کم ہوں گے۔ تم ان کی خوبیوں سے مستفید ہو سکو گے اور ان کی برائیوں سے محفوظ رہوگے۔ [3]
               مطالب بالا سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ تواضع زندگی کی اتنی اہم چیز ہے کہ اگر انسان کے اندر تواضع نہ ہو توگوشت پوست والا انسان حیوانیت کی سطح پر گر جاتا ہے۔ جب دل میں تواضع کی صفت نہیں ہوگی تو پھر تکبر ہوگا ،دل میں اپنی بڑائی ہوگی اور یہ تکبر اور بڑائی تمام امراض ِباطنہ کی جڑ ہے، اسی لئے ہمارے ائمہ نے تواضع کی اتنی تاکید فرمائی ہے تاکہ انسان دوسرے صفات رذیلہ سے محفوظ رہے۔

……………………………………………………………………………………
حوالہ جات
[1]  بحار الانوار، ج67، ص204، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى،انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت – لبنان‏، 1404 قمرى‏۔
[2]  الکافی، ج3، ص314، محمد بن يعقوب بن اسحاق كلينى رازى‏، اتنشارات دار الكتب الإسلامية، تهران، چاپ چهارم، 1365 هجرى شمسى‏۔
[3] بحار الانوار، ج71، ص156، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى،انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت – لبنان‏، 1404 قمرى‏۔

تبصرے
Loading...