استغفار

وہي استغفار قابل ستائش ہے جو حقيقي اور دل کي گہرائيوں سے ہو زبان سے توبہ اور استغفار کرنے سے کچھ حاصل نہيں ہو سکتا استغفار کي شرط يہ ہے کہ انسان اپنے گناہ پر شرمندہ ہو اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا قوي ارادہ رکھتا ہو،اگر ہم چاہتے ہيں کہ اس نعمت الہي يعني استغفار تک دسترسي حاصل کريں تو ضروري ہے کہ دو صفتوں کو خود سے دور کريں: پہلي غفلت و بے توجہي اور دوسري غرور و تکبر۔

استغفار

یہ واضح حقیقت ہے کہ انسان جب ایک گناہ پر اپنی عادت بنا لیتا ہے تو اسےکچھ سجھائی نہیں دیتا وہ اسے حق اور درست سمجھنے لگ جاتا ہے لہذا انسان کو ہمیشہ اس طرف متوجہ رہنا چاہیے جب اس سے کوئی گناہ سر زد ہو تو فورا استغفار کر لینا چاہیے تا کہ اس کے دل پر مہر نہ لگ جائے؛استغفار کرنا اور خدا سے اپنی بخشش کوطلب کرنا انسان کے دل سے گناہ کو دور کردیتا ہے، اس کے ذریعہ خدا اور انسان کا رابطہ مضبوط ہوتا ہے اور انسان کے اندر معنویت پیدا ہوجاتی ہے، امام رضا(علیہ السلام) اس کے بارے میں اس طرح فرمارہے ہیں: «استغفار کے ذریعہ اپنے آپ کو معطر کرو تا کہ گناہ کا تعفن تمھارے وجود کو خراب نہ کرے» (جامع احادیث‌الشیعه، ج ۱۴، ص ۳۳۷)رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہيں: ’’انّ اللہ تعالي یغفر للمذنبين الا من لا يريد ان يغفرلہ ‘‘ یعني خداوند عالم گناہگاروں کے گناہوں کو بخش ديتا ہے مگر ان گناہگاروں کے علاوہ جن کو خدا بخشنا نہيں چاہتا۔ اصحاب نے سوال کيا : ’’يا رسول اللہ ! من الذي يريد ان لا يغفرلہ؟‘‘ يا رسول خدا وہ کون ہے جس کو خدا بخشنا نہيں چاہتا ؟ ’’قال من لا يستغفر‘‘ يعني وہ جو استغفار نہيں کرتا۔پس استغفار باب توبہ و مغفرت کي چابي ہے۔ استغفار کے ذریعے ہي مغفرت الٰہي کو حاصل کيا جا سکتا ہے۔خدانے اگر ہمارے لیے باب توبہ فراہم کردیا ہے تو اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ گناہوں کي کوئي حيثيت نہيں ہے۔ کبھي کبھي يہي گناہ انسان کے وجود حقيقي کو بھي ضائع کر دیتے ہیں اور ا س کو حيات انساني کے عالي مراتب سے ايک پست ترين حيوان ميں تبديل کردیتے ہيں۔
اس لئے انسان کو رحمت الٰہی سے مایوس نہیں ہونا چاہیئےاور استغفار کرتے رہنا چاہیئے۔

تبصرے
Loading...