اختیار اور شرعی احکام کا باہمی تعلق

خلاصہ: انسان کے پاس اختیار کی قوت ہے، مگر اختیار کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔

اختیار اور شرعی احکام کا باہمی تعلق

     اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار کی قوت دی ہے جس کی بنیاد پر انسان اچھائی اور برائی، صحیح اور غلط، حق اور باطل میں سے ایک کو اختیار کرسکتا ہے، لیکن اختیار اور طاقت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان خودمختار ہے، بلکہ امتحان لینے کے لئے ایک طرف سے انسان کے پاس اختیار اور طاقت ہونی چاہیے اور دوسری طرف سے امر و نہی اور شرعی احکام اس کی طرف آنے چاہئیں تاکہ امتحان اور آزمائش منعقد ہوسکے۔ کیونکہ اگر ان میں سے ایک نہ ہو اور دوسرا ہو تو امتحان ہی بے معنی ہوجائے گا۔

      اگر اسے اختیار دیا جائے اور شرعی احکام اس کے ذمہ نہ لگائے جائیں تو مقصدِ خلقت ضائع ہوجائے گا اور انسان حیوانوں کی طرح زندگی گزارے گا۔
      یا اگر شرعی احکام انسان پر لاگو کیے جائیں، لیکن اسے اختیار اور طاقت نہ دی جائے تو شرعی احکام کا لاگو کرنا، خلافِ حکمت ہوگا، کیونکہ جب انسان کچھ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اسے کس طرح حکم دیا جاسکتا ہے کہ یہ کام ضرور کرو اور وہ کام مت کرو۔ لہذا امتحان کے لئے طاقت و اختیار کی بھی ضرورت ہے اور شرعی احکام کی بھی۔
      سورہ دہر کی دوسری اور تیسری آیات میں ارشاد الٰہی ہے: إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيراً . إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُوراً، “بےشک ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ ہم اسے آزمائیں پس اس لئے ہم نے اسے سننے والا (اور) دیکھنے والا بنایا۔ بلاشبہ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے اب چاہے شکر گزار بنے اور چاہے ناشکرا بنے”۔
      لہذا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ایسا نہ ہو کہ انسان طاقت اور اختیار سے غلط فائدہ اٹھائے اور شرعی احکام کو نظر انداز کردے اور ایسا بھی نہ ہو کہ ایک اور غلطی کا شکار ہوجائے کہ عام حالات میں کسی کام پر اپنے آپ کو مجبور سمجھ لے۔ انسان مجبور نہیں ہے، اس کے پاس اختیار کی قوت ہے اور غوروخوض کرتے ہوئے اپنے اختیار کے ساتھ شرعی حکم پر عمل کرسکتا ہے۔

*  ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔

تبصرے
Loading...