متقین کے صفات

ایک اور موضوع جس پر بحث کرنامناسب ہے وہ” متقین کے صفات“ ہیں۔ تقوی کی قدر و قیمت اور بلند مقام سے آگاہ ہونے کے بعد ہمیں متقین کی نشانیوں اور صفات کو جانناچاہئے تاکہ تقوی کو حاصل کرنے کے طریقہ سے آگاہ ہوجائیں۔

اس سلسلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

”یا اباذر؛ لایکون الرجل من المتقین حتی یحاسب نفسہ اشد من محاسبة الشریک شریکہ․ فیعلم من این مطعمہ و من این مشربہ و من این ملبسہ؟ امن حل ذلک ام من حرام“

”اے ابوذر! انسان تب تک پرہیز گاروں میں شمارنہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے شریک کا محاسبہ کرنے سے سخت تر خود کو محاسبہ کی منزل میں قرار نہ دے ۔ تاکہ جان لے اس کی خوراک ، پینے کی چیزوں او رپہننے کا لباس کہاں سے آیا ہے، حلال سے ہے یا حرام سے ہے․“

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حساب و کتاب کی خصوصیات کو متقین کی جملہ صفات میں شمار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: باتقوی وہ ہے جولاپروا ہ نہ ہو اور اپنے آپ کو تحت محاسبہ قرار دے ۔ اگر کسی خورا ک کو حاصلکیاہے تو دیکھ لے کہ اسے حلال راہ سے حاصل کیا ہے یاحرام راہ سے، اگر لباس فراہم ہوا ہے تو دیکھ لے کہ وہ اس کے پیسے کہاں سے لایا ہے ۔ اسی طرح گھر کے بارے میں کہ اس کے پیسے کہاں سے فراہم ہوئے ہیں۔ اسی طرح اس کی گھر بنانے کا محرک یہ ہے کہ خدا کی عبادت و بندگی بہتر طور پر انجام دے سکے، خاندان کے لئے بیشتر آرام و آسائش فراہم کرے اور بہتر عبادت کر سکے اور اپنے فرزندوں کی تربیت کر سکے یا اس کا گھر بنانے کا محرک دوسروں پر فخر و مباہات کرنااور دوسروں کو نیچا دکھاناہے ۔

جب و ہ کسی راہ میں پیسے خرچ کرناچاہتاہے، دیکھناچاہئے خدا اس پر راضی ہے اور اس سے واجب تر کوئی کام تو نہیں ہے کہ جس کے لئے یہ پیسے خرچ کرناضروری ہوں؟ بہر صورت تمام جوانب کی پڑتال کرے اور ایسا نہ ہو کہ سر کو نیجے کرکے اور جس راہ سے بھی ممکن ہو پیسے جمع کرکے جس کام پر چاہے خرچ کرے ۔ دیکھ لے کہ جو امکانات اسے حاصل ہوئے ہیں وہ حلال راہ سے حاصل ہوئے ہیں یا حرام سے ۔ اگر حرام طریقے سے حاصل ہوئے ہیں تو اسے اس کیجگہ پر واپس پلٹا دے او رخود کو مصیبت میں نہ ڈالے․

بعض اوقات انسان اس قدر دنیا داری میں ملوثہوتا ہے اور اپنے آپ کو دنیوی امور میں گرفتار کرتاہے کہ اس سے چھٹکارا پانا ناممکن ہوجاتا ہے ۔ اپنے آپ کو بڑے بڑے قرضوں اور لون کی قسطوں میں پھنساتاہے اور اپنی آبرو کو داؤ پر لگاتاہے، حتی کسی نہ کسی طرح دوسروں کو بھی اپنے مسائل میں گرفتار کرتا ہے اورا س طرحسے نجات کا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا، صرف اس فکر میں ہوتاہے کہ کچھ پیسے اس کے ہاتھ آئیں ،جس طریقہ سے بھی ہو، حلال یا حرام!( یعنی پیسہ ہو جیسا ہو)

اگر ہم تقوی کے بلند مرحلہ پرنہیں پہنچے ہیں ، کہ مشتبہ و مکروہ سے پرہیز کریں، توکم از کم حرام کے حدودکی رعایت کریں! ایسانہ ہو کہ جو مال ہمارے ہاتھ آیاہے وہ کسی اور کا حق ہے ۔ ہر مومن کو اپنی زندگی میں بعض قوانین و حدود کی رعایت کرنی چاہئے اور اس سے آگے نہیں بڑھناچاہئے ۔ ایک تاجرکو ایک طرح سےشرعی احکام کی رعایت کرنی چاہئے ملازم کو دوسرے انداز سے ان کی رعایت کرنی چاہئے اور اسے دیکھنا چاہئے کہ جو وہ تنخواہ لیتا ہے، کیا اس کے ساری وہ کام کرتاہے یا کم کام کرتاہے؟ کام کے وقت تفریح آرام، سیگریٹ پینے، اور دوسروں سے گفتگو کرنے میں وقت گزارتا ہے یا کام انجام دیتاہے؟ بعض مومن و اہل عبادت ، نافلہ پڑھتے ہیں، لیکن جب اپنے کام کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو تمام چیزوں کو پس پشت ڈال کر اپنے فریضہ کو بھول جاتے ہیں او رتصور کرتے ہیں کہ اس کرسی پر بیٹھ جانا ہی گویا انھوں نے اپنےفریضہ کو انجام دے دیا ہے ۔

سرکاری ملازم یا کسی پرائیویٹ کمپنی کے ملازم کے لئے ڈیوٹی کا وقت اس کے مالک کا حق ہے اسے اس وقت میں کسی اپنے ذاتی امورمیں مشغول نہیں ہوناجاہئے، حتی اگر کبھی ذاتی کام کے لئے ٹیلیفون کرے اور وہ ٹیلیفون کام میں رکاوٹ بنے، تو وہ اس کے مقابل میںجواب دہ ہے ، ہم ان نکات کی طرف توجہ نہیں رکھتے ہیں۔ اسی طرح بیت المال سے استفادہ ،بیت المال کی ہی مصلحت کی راہ میں ہونا چاہئے، اس بناپر اگر ہم نے عہدو پیمانکیا ہے کہ ایک مشخص (معین) وقت میں ایک خاص کام انجام دیں، تو اس وقت کو کسی دوسرے کام میں صرف نہیں کرناچاہئے، حتی اگر ہم نے ایک خاص زمانہ میں ایک کام کو اجرت پر انجام دینے کے لئے عہدو پیمان کیا ہے، توہمیں اس وقت میں نماز پڑھنے کا حق نہیں ہے مگر یہ کہ پہلے سے ہی مالک سے شرط رکھی ہو۔

بیت المال کے بارے میں حرام و حلال او ر اس کے شرائط و حدود کی رعایت کرنا دشوار ہے ۔ خوش بختی سے ایسے مسائل ہمارے لئے بہت کم پیش آتے ہیں، لیکن ہم دوسرے مسائل سے روبرو ہیں: جب ہم دین کی تبلیغ کے لئے جاتے ہیں ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ تبلیغ کی راہوں کو جانیں ، ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ایسا کام انجام نہ دیں کہ جس سے دوسروں پر آنچ آئے اور دوسروں کی بے احترامی نہ کریں اور اپنے آپ کو نمایان کرنے کی فکر میں نہ ہوں۔ ممکن ہے تبلیغ کے لئے ایک ایسی جگہ پر جائیں جہاں پر ہم سے پہلے کوئی اور شخص تبلیغ کے لئے گیا ہولوگ اس سے مطمئن اور خوش ہوں اور ہمارے سامنے اس کی تعریفیں کریں کہ فلاں شخص اچھی مجلسیں پڑھتاتھا، اس کی تقریر ا-چھی تھی اور لوگ اس کا استقبال کرتے تھے ۔ یہاں پر ممکن ہے ہم اس شخص کی تعریف تو کریں، لیکن اشارو ں میں حتی باتوں باتوں میں لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کریںکہ اس شخص کا علم مجھ سے کم ہے تا کہ بعد والے برسوں میں پھر مجھے ہی دعوت کریں! مثلا ہم اس طرح کہتے ہیں چند سال پہلے وہ شخص میرا ہم درس تھا ایک مدت کے بعد اس نے پڑھائی چھوڑدی یا دفتری کاموں میں مشغول ہوگیا اور پڑھائی کو جاری نہ رکھ سکا، یعنی ہم علم میں آگے بڑھے اور وہ پیچھے رہا!

دوسروں کی تردید اور تضعیف کرنے کے لئے اور دوسروں کی شخصیت کو پست دکھلانے کے لئے یا اپنے ذاتی منافع و مقاصد تک پہنچنے کے لئے ، شیطان مختلف طرح کے حیلوں او ربہانوں سے کام لیتا ہے کہ ان میں سے بعض خاص قسم کی ظرافت کے حامل ہوتے ہیں اور ہر ایک ان کی قباحت اور برائی کو نہیں جان سکتا ہے ممکن ہے ظاہر میں کافی پر رونق اور زیبا دکھائی دیں۔

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) جناب ابوذر سے اپنی نصیحتوں کوجاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

”یا اباذر؛ من لم یبال من این اکتسب المال لم یبال اللّٰہ عزوجل من این ادخلہ النار“

”اے ابوذر؛ جو بھی اس کا خیال نہیں رکھتا ہے کہ مال کہاں سے آتا ہے خدائے متعال بھی اس کی پروانہیں کرے گا کہ اسے کہاں سے جہنم میں ڈالے ۔“

انسان کو مال حاصل کرنے میں دقت کرنی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ پیسے کہاں سے حاصل کرتاہے ۔ ایسانہ ہو کہ لوگوں کی ستائش ، تملق، ترویج او ران کے سامنے سر خم کرکے پیسے حاصل کئے ہوں اس کے لئے یہ مہم نہیں ہے کہ پیسے حلال راہ سے آئے ہیں یا حرام راستہ سے، اس کا کا م شرعی جواز رکھتاہے یا نہیں ، اگر ایسا کیا تو خدائے متعال کو اسے اپنے قہر کی آگ میں جلانے اور جہنم میں ڈالنے کا حق ہے․

”یا اباذر؛ من سرّہ ان یکون اکرم الناس فلیتق اللّٰہ عزوجل“

”اے ابوذر! جو بھی لوگوں میں اپنے آپ کو محترم ترین شخص کے طور پر دیکھنا چاہے اسے تقوائے الٰہی اختیار کرنا چاہئے․“

”یا اباذر! انّ احبکم الی اللّٰہ جل ثناؤہ اکثرکم ذکرا لہ و اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم لہ و انجاکم من عذاب اللّٰہ اشدکم لہ خوفا“

”اے ابوذر؛ تم میں سے خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو بیشتر اس کی یاد میں ہو او رتم میں سے خدا کے نزدیک عزیز ترین وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو اور خدا کے عذاب سے دورترین وہ شخص ہے جو اس سے زیادہ ڈرے“

(جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے اشارہ کیاہے کہ خوف خدا تقوی کے مقدمات میں سے ہے اور جب تک یہ خوف نہ ہو تقوی حاصل نہیں ہوتاہے)

”یا اباذر:ان المتقین الذین یتقون من الشی ء الذی لایتقی منہ خوفا من الدخول فی الشبہة “

”اے ابوذر ! پرہیز گار وہ لوگ ہیں جو ان چیزوں سے بھی اجتناب کرتے ہیں جن سے پرہیز نہیں کیا جاتاہے، تا کہ شبہ سے دوچار نہ ہوں۔“

کہا گیا ہے کہ تقوی کے کچھ مراتب ہیں اور بعض لوگ صرف ان چیزوں سے دوری اختیار کرتے ہیں جو قطعا حرام ہیں اور بعض لوگ اس مرحلہ سے بالاتر قدم بڑھاکر حتی مشکوک چیزوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں او ربعض لوگ اس مقام پر پہنچے ہیں کہ جس چیز کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ مباح ہے اس سے بھی پرہیز کرتے ہیں تا کہ مشکوک چیز وں میں مبتلا نہ ہوں۔اس کے بعد پیغمبر اسلام تقوی کے عالی ترین مرحلہ اور خدا کی اطاعت کے بارے میں فرماتے ہیں:

”یا اباذر: من اطاع اللّٰہ عزوجل فقد ذکر اللّٰہ و ان قلت صلاتہ وصیامہ و تلاوتہ للقرآن“

”اے ابوذر؛ جس نے خدائے متعال کی اطاعت کی اس نے اس کویادکیا ہے اگر چہ اس کے روزہ و نماز کم ہوں او رقرآن مجید کی تلاوت کم کی ہے ۔“

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم)کے بیان میں زہدو تقویٰ:

اس کے بعد آنحضرت زہد کے بارے میں فرماتے ہیں:

”یا اباذر؛ اصل الدین الورع و راسہ الطاعة․ یا اباذر؛کم ورعا تکن اعبد الناس و خیر دینکم الورع“

”اے ابوذر! دین کی جڑزہد اور گناہ و شبہات سے دوری اختیار کرناہے او راس کی اصل خدا کی اطاعت ہے ۔ اے ابوذر! اپنے نفس کو گناہوں سے بچانا تا کہ تم لوگوں میں عابد ترین شخص بن جاؤ اور تمھارے دین کا بہترین حصہ پارسائی ہے ۔“

بنیادی طور پر ورع نفس کو محرمات سے روکنے اور اس سے دوری اختیار کرنے کے معنی میں ہے، اس کے بعد یہ لفظ مطلق طور پر نفس کو روکنے کے معنی میں استعمال ہواہے اور اس کا مفہوم تقوی مفہوم سے کے بہت قریب ہے ۔ لیکن غالبا ورع کو پرہیزگاری کے ملکہ (جو ایک اندورنی حالت ہے) میں استعمال کرتے ہیں اور تقوی کا مقدمات عمل، خود اچھے عمل نیز داخلی ملکہ پر اطلاق ہوتاہے․

حضرت علی علیہ السلام انسان کو گناہ اورانحراف سے روکنے کے سلسلہ میں ورع کے نقش کے بارے میں فرماتے ہیں:

”لاشرف اعلی من الاسلام و لا عزّاعزّ من التقوی و لا معقل احسن من الورع“

”اسلام سے بالاتر کوئی عظمت و بزرگی نہیں ہے، پرہیز گاری سے بالاتر کوئی عزت و احترام نہیں ہے اور ورع و پارسائی (گناہ او رشبہات سے دروی) سے بڑھ کر کوئی مستحکم ترین پناہ گاہ نہیں ہے ۔“ ۱

حضرت اما م جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

”اتقوا اللّٰہ و صونوا دینکم بالورع“

”الہی تقوی کو اپنا لائحہ عمل پیشہ قرار دو اور پارسائی سے اپنے دین کا تحفظ کرو“ ۲

سعادت او ربلند معنوی درجات تک پہنچنے اور ہلاکت کے بھنور میں گرکر غرق ہونے سے بچنے کے لئے سب سے بڑا ذریعہ پارسائی اور اپنے آپ کو حرام سے بچانا ہے ۔ حقیقت میں ورع اور گناہوں سے اپنے کو محفوظرکھنا خدا کی بندگی اور اس کی عبادت کا سخت ترین مرحلہ ہے ۔ اس لئے امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

”ان اشد العبادة الورع “

”ورع مشکل ترین عبادت ہے ۔“‘ ۳

عبادت کی سلامتی میں ورع کے رول پیش نظر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

”․․․ لاخیر فی نسک لاورع فیہ“ ۴

”جو عبادت ورع کے ساتھ نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔“

عبادت کے ساتھ ورع کی ضرورت کے پیش نظر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید فرماتے ہیں:

”یا اباذر! فضل العلم خیر من فضل العبادة و اعلم انکم لو صلیتم حتی تکونوا کالحنایا و صمتم حتی تکونوا کالاوتار ما ینفعکم الا بورع“

————————————

۱۔ نہج البلاغہ ( فیض الاسلام) حکمت / ۳۶۳، ص/۱۲۶

۲۔ بحار الانوار ، ج ۷۰، ص ۲۹۷

۳۔ بحار الانوار ، ج ۷۰، ص ۲۹۷

۴۔ بحار الانوار، ج ۷۰، ص ۳۰۷

”اے ابوذر! علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور جان لو اگر اس قدر نماز پڑھوکہ کما ن کے مانند خم ہوجاؤ اور اس قدر روزہ رکھوکہ تیر کے مانند دبلے پتلے ہوجاؤ اگر ورع نہ ہو تو کوئی فائدہ نہیں ہے ۔“

مزید فرماتے ہیں:

”یا باذر؛ اہل الورع و الزہد فی الدنیا ہم اولیا اللّٰہ حقا“

”جو دنیا میں اہل ورع و زہد ہیں حقیقت میں وہ اولیائے الہی ہیں۔“

”زہد “ اور ”زھادہ“ لغت میں دنیا سے دلچسبی، میل و رغبت کے مقابلہ میں بی رغبتی کے معنی میں ہے ۔ یعنی انسان دنیا سے رغبت او رشغف نہ رکھے اور صرف سادہ زندگی پر قناعت کرے․

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسلام میں مطلوب زہد، یہ ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو بہتر صورت میں نبھانے کے لئے، سادگی او رتجمل گرائی سے پرہیز کو اپنا شیوہ قرار دے اور زرق وبرق والی ظاہری زندگی کی نسبت بے اعتنائی دکھائے ۔ بدیہی ہے کہ رفتار کایہ طریقہ دنیا اور اس کے مظاہر کو ناپاک جاننے ، دنیا و آخرت میں موجود تضاد اور اجتماعی ذمہ داریوں سے فرار کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اسلام میں زہد ذمہ داریوں کو بہتر صورت میںانجام دینے اور و افراطی میلانات کو زندگی کی ظاہری کششوں سے بچانے کے لئے ہے زہد انسان کی زیادہ خواہی کی ذہنیت کو کنٹرول کرتاہے اور دنیا کی زندگی کی ظاہری حالت کے مقابلہ میں خود فروشی کو ختم کردیتا ہے ۔ چنانچہ حافظ کہتے ہیں:

غلام ہمت آنم کہ زیر چرخ کبود

ز ہر چہ رنگ تعلق پذیرد آزاداست

میں اس شخص و ارادے کا کا غلام ہوں جو اس آسمان کے نیچے خدائے متعال کے علاوہ کسی کا محتاج نہیں ہے ۔

اس بنا پر اسلام میں زہد، مال و اقتدار سے منافات نہیں رکھتا ہے اور حقیقت میں زاہد وہ ہے جو زندگی کے مظاہر کو خدا اور حقسے زیادہ دوست نہیں رکھتا ہے اور الہی مقاصد کو دنیوی مقاصد پر قربان نہیں کر تا ہے او رآخرت کو بنیاد قرار دے کر دنیا کو فروع ، وسیلہ اور مقدمہ کے عنوان سے جانتا ہے ۔

مذکورہ مطالب کے پیش نظر زہد کا رہبانیت (جو عیسائیوں او ربدھ مذہب کے پیرؤں میں رائج ہے)سے فرق واضح ہوجاتاہے،کیونکہ رہبانیت ترک دنیا، ذمہ داریوں اور اجتماع سے فرار کے معنی میں ہے اور اس قسم کی فکر اسلام کی روح سے موافقت نہیں رکھتی ، اسلام کی نظر میں زندگی کے تمام مظاہر جیسے مال ، فرزند اور ریاست و غیرہ سب ترقی و تکامل کے وسائل ہیں اورخدائے متعال کی تمام نعمتیں اور ان کا صحیح استعمال اور استفادہ میں تعادل کی رعایت ، اس کے علاوہ انسان کی دنیا کے آباد ہونے کا سبب ہیں، آخرت کو آباد کرنے کا بھی سبب ہے ۔ صحیح استفادہ اس معنی میں ہے کہ انسان دنیا اور اس کے مظاہر کو بنیاد اور اصل قرار دینے کا قائل نہ ہو اور انھیں کمال اور سعادت اخروی تک پہنچنے کے لئے خدا کی نعمتوں کا درجہ دے، چنانچہ فرمایا گیا ہے:

”الدنیا مزرعة الآخرہ “ ۱

”دنیا آخرت کے کھیتی ہے ۔“

اور خدائے متعال فرماتاہے:

(قصص/۷۷)

”اور جو کچھ خدانے دیا ہے اس سے آخرت کے گھرکا انتظام کرو اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جاؤ․․․“

اسلام کی نظر میں ، جو کچھ دنیا میں موجود ہے وہ اچھا ہے، خدائے متعال نے کسی بری چیز کو خلق نہیں کیا ہے ۔ اس لئے نہ دنیا اور اس کے مظاہر برے ہیں نہ ان سے دلچسپی اور وابستگی کہ جو طبیعی میلانات کے مطابق انسان کے اندر قرار دی گئی ہے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:

”الزہادة فی الدنیا لیست بتحریم الحلال و لا اضاعة المال و لکن الزہادة فی الدنیا ان لا تکون بما فی یدیک اوثق منک بما فی ید اللّٰہ “ ۲

”دنیا میں زہد اور دنیا کو اہمیت نہ دینا یہ نہیں ہے کہ حلال کو اپنے لئے حرام کروگے یا اپنے مال کو ضائع کروگے ۔ زہد، یعنی جو کچھ تمھارے ہاتھ میں ہے اسے اس سے زیادہ اعتقاد نہ رکھنا جو خدا کے پاس ہے ۔“

——————————————

۱۔ بحار الانوار، ج ۷۳، ص ۱۴۸

۲۔ نہج الفصاحة ،ص/ ۳۵۸حدیث /۱۷۱۲

نیز حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

”ایّہا الناس الزّہادة قصر الاٴمل و الشکر عند النعم و الورع عند المحارم․․․“

”اے لوگ! زھد ، اپنی آرزؤں کو کم کرنا، نعمتوں کی شکر گزاری اور حرام سے پرہیز ہے․“

مذکورہ بیانات کے علاوہ، قرآن مجید رہبانیت کی مذمت کرتاہے اور اسے ایک ایسی بدعت جانتا ہے ،جسے راہبوں نے دنیا و آخرت کے درمیان تضاد کی غلط فہمی کی بنیاد پر عیسائی مذہب میں رائج کیا ہے ۔قرآن مجید یہ فرمانے کے بعد کہ: ”ہم نے عیسی کو بھیجا اور انھیں انجیل عطا کی اور ان کی پیروی کرنے والوں کے دل میں مہربانی اور رحم قرار دیا“ فرماتاہے:

(حدید/۲۷)

”اور جس رہبانیت کو انھوں نے از خود ایجاد کیا تھا اور اس سے رضائے خدا کے طلبکار تھے ہم نے ان کے اوپر فرض نہیں کہا تھا اور انہوں نے خود بھی اس کی مکمل پاسداری نہیں کی۔“

ایک دن عثمان بن مظعونی کی بیوی شکوہ کرنے کے لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی : اے رسول اللہ عثمان بن مظعون دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو شب بیداری کرتا ہے (اپنی زندگی اور اہل و عیال کی فکر نہیں کرتاہے) پیغمبر اسلام یہ مطلب سننے کے بعد عثمان کے پاس تشریف لے گئے اور دیکھا کہ وہ نماز کی حالت میں ہے ۔ جب عثمان نے پیغمبر کو دیکھا تو اس نے نماز ختم کی ۔پیغمبر نے اس سے کہا:

”یا عثمان! لم یرسلنی اللہ بالرہبانیة ولکن بعثنی بالحنفیة السہلة السمحة اٴصوم و اٴصلی و اٴلمس اھلی ۔۔۔ ۱ “

” اے عثمان ! خداوند متعال نے ہمیں تصوف کے دین پر اور ترک دنیا کے لئے مبعوث نہیں کیا ہے بلکہ ایک معتدل اور آسان دین پر مبعوث کیا ہے ۔ میں روزہ رکھتا ہوں ، نماز بھی پڑھتا ہوں اور اپنی بیوی سے مباشرت بھی کرتا ہوں۔“

——————————————

۱۔بحار الانوار ، ج۲۲، ص۲۶۴

شہید مدرس قشمہ ای کے بارے میں نقل کیا گیاہے کہ : ایک دن قمشہ کاایک معروف زمیندار مدرس کے پاس آیا اور زمین کا ایک حصہ انھیں دینا چاہا۔ مدرس ، باوجود اس کے کہ انتہائی فقر و تنگدسی سے دوچار تھے، زمیندار سے کہا: کیا تمہارے خاندان میں کوئی فقیر و محتاج نہیں ہے؟اس شخص نے کہا: کیوں نہیں، ہیںلیکن میں زمین کے اس ٹکڑے کوآپ کو بخشناچاہتا ہوں ۔ مدرس نے فرمایا: بہتر ہے اس زمین کو اپنے کسی فقیر رشتہ دار کو بخش دو۔

اسی طرح نقل کیا گیا ہے: آیت اللہ مدرس، موسم گرما و سرمامیں ٹاٹ کا بُنا ہواایک ہی قسم کا لباس پہنتے تھے اور فرماتے تھے: ہاتھ، پاؤں اور باقی بدن کی کھال چہرے کی کھال سے نازک تر نہیں ہے ۔ بدن کی جس طرح عادت بناؤگے،بدن عادی ہوتا ہے! وہ اونی موزہ ، شلوار اور اونی کرتا، قبائے سرج اور عبائے نائینی نہیں پہنتے تھے اور فرماتے تھے: ان چیزوں کے لئے پیسا ہونا چاہئے اور پیسے غلامی لاتے ہیں اور مدرس غلام نہیں ہونا چاہتا ہے(شہادت کے وقت ان کی پوری ثروت چوبیس ۲۴ تومان تھے)

آیت اللہ شہید مدرس اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھ سے فرمایا: کہ دن رات میں صرف ایک وقت کے کھانے پر قناعت کرنے کی عادت ڈالو اور اپنے لباس کو صاف ستھرا رکھو تا کہ نئے کپڑے سلوانے کی فکر میں نہ رہو ، وہ ہمارے اجداد کو نمونہ عمل قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے: حلم و بردباری کو اپنے جد بزرگوار رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سےکھو، شہادت و قناعت کو اپنے جد پاک علی علیہ السلام سے اور ظلم و ستم کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے کو اپنے جد سیدالشہداء سلام اللہ علیہ سے سیکھ لینا۔ ؟ ۱

——————————————

۱۔ حسینی سید نعمت اللہ، مردان علم در میدان عمل،ص۱۲۷-۔۱۲۹

تبصرے
Loading...