گناہوں کی کثرت عذابِ الٰہی کا باعث

خلاصہ: کرونا وائرس جو دنیابھر میں پھیلتا جارہا ہے، اس سے بچنے کے لئے اہل بیت (علیہم السلام) کا اللہ تعالیٰ کو واسطہ دے کراللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنی چاہیے۔

 گناہوں کی کثرت عذابِ الٰہی کا باعث

جیسے وقت گزرتا جارہا ہے دنیابھر میں گناہ بڑھتے جارہے ہیں اور جگہ جگہ پر تشدد، ظلم و ستم، قتل و غارت، بے حیائی، بے غیرتی، بدمعاشی، عیاشی، حرام خوری، اسراف اور فضول خرچی، حقوق کی پامالی اور کئی دیگر گناہ اور برائیاں پھیلتی جارہی ہیں۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے، لوگ معروف اور نیکی نہ کرنے والے کو نیکی کرنے کا حکم نہیں دیتے اور منکر اور برائی کو دیکھتے، سمجھتے اور جانتے ہوئے منع کیے بغیر خاموشی سے گزر جاتے ہیں۔ اتنے بڑے دو فریضے نظرانداز ہوتے رہتے ہیں۔
دنیابھر کے مختلف معاشروں میں گناہوں کا سرعام ارتکاب، ان کو ہلکا سمجھے جانے کا باعث بن رہا ہے،گناہوں کی کثرت اور کھلم کھلا ارتکاب کے ذریعے ان کی قباحت کو ختم کیا جارہا ہے، مقدسات کی بےحرمتی کی جارہی ہے۔
بے دین، منافق، فسادی اور جاہل افراد کو دین کی باگ ڈور دی جارہی ہے، ان کو لوگوں کا دینی راہنما بنایا جارہا ہے اور دین کی بنیادیں گرانے والے خودغرض کو عالم سمجھا جارہا ہے۔
عدل و اصلاح  کے نام پر لوگوں کا مال لوٹتے ہوئے ان پر مالی اور جانی ظلم و ستم کیا جارہا ہے۔
کرونا وائرس کا دنیا بھر میں پھیلاؤ، ایک لحاظ سے اللہ کا عذاب ہوسکتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: الذُّنُوبُ الَّتِی تُغَیِّرُ النِّعَمَ الْبَغْیُ‏، وَ الذُّنُوبُ الَّتِی تُورِثُ النَّدَمَ الْقَتْلُ، وَ الَّتِی تُنْزِلُ النِّقَمَ الظُّلْمُ، وَ الَّتِی تَهْتِكُ السِّتْرَ شُرْبُ الْخَمْرِ، وَ الَّتِی تَحْبِسُ الرِّزْقَ الزِّنَا، وَ الَّتِی تُعَجِّلُ الْفَنَاءَ قَطِیعَةُ الرَّحِمِ، وَ الَّتِی تَرُدُّ الدُّعَاءَ وَ تُظْلِمُ الْهَوَاءَ عُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ”، “جو گناہ نعمتوں کو تبدیل کردیتے ہیں (دوسروں کے حقوق پر) زیادتی ہے، اور جو گناہ پشیمانی کا باعث ہیں، قتل ہے، اور جو مصیبت کو نازل کرتے ہیں، ظلم ہے، اور جو پردے کو پامال (بھید کو فاش کرتے اور ذلیل و خوار) کرتے ہیں شراب خواری ہے، اور جو رزق کو روک دیتے ہیں، زنا ہے، اور جو فنا (موت) کو جلدی لاتے ہیں قطع رحمی کرنا ہے، اور جو دعا کو پلٹا دیتے ہیں اور فضا کو اندھیرا کردیتے ہیں عاقِ والدین ہے”۔ [الکافی، ج۲، ص۴۴۷]

* الکافی، شیخ کلینی، ج۲، ص۴۴۷۔

تبصرے
Loading...