کیا امام حسین ع کو شیعوں نے شہید کیا ؟ فرزند رسول ص کا قاتل کون ہے ؟

فرزند رسول صلی کا  قاتل کون ہے ؟

اس میں شک نہیں کہ اہل بیتؑ  پر ظلم و ستم اور ان کی حرمت کو پامال کرنے والے، بنو امیہ کے حکام اوران کے  کارندے ہی تھے  اور شیعوں کو امام کا قاتل کہنا  تاریخی حقیقتوں  کا مزاق اڑانا ہے ۔لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ابن زیاد  اور بنی امیہ کے کمانڈروں نے یہ سب کام کس کے اشارے  پر انجام دئے ،کیا اس زمانے  کے بنو امیہ کا  حکمران  یزید کا اس میں کوئی کردار نہیں  تھا ؟

اس سوال کے جواب میں یہی کافی ہے کہ ابن زیاد کو   یزید نے اپنے باپ کی وصیت کے پیش نظر کوفہ کے حالات اور امام حسینؑ  کے قیام کو کچلنے کی ذمہ داری دے کر خصوصی طور پر گورنری دی  تھی ۔ یزید   جانتا تھا   کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے۔   لہذا اصولی طور پر ابن زیاد کے تمام کاموں کا  ذمہ دار وہی ہے جس نے اسے اس کام پر مامور کیا تھا۔

جیساکہ یزید کے خصوصی گورنر نے ہی عمر سعد کو کربلا بھیجا اور عمر سعد اور اس کے ساتھی باقی فوجی کمانڈروں نے مل کر امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا ۔لہذا  صاف واضح ہے کہ امام کا قتل یزید کے ہی خصوصی گورنر اور اسے کے کمانڈر کے ہاتھوں ہوا ہے ۔اسی لئے خود بخود یزید اس قتل کا ذمہ دار ہے ۔

ہم  اس سلسلے میں مذید شواہد بیان کرینگے تاکہ ان  لوگوں کے لئے حقیقت عیان ہوسکے جو  غلط  پروپیگنڈوں  کی وجہ سے دھوکہ کھا  کر فرزند پیغمبر  ؑکے قاتلوں سے دفاع کرتے ہیں اور اظہار   برائت  نہیں کرتے ۔

یزید ہی  نے امامؑ  کے قتل کا حکم دیا  تھا اور وہ  خاندان پیغمبر ؑ پر کیے ان  مظالم  پر فخر کرتا تھا ، سلسلے میں چند شواہد :

1۔ ابن زیاد کے نام یزید کا خط:

 یزید نے ابن زیاد کو گورنری، امام حسینؑ   کے قیام کو کچلنے کے لئے ہی  دی تھی ،   یزید نے  ابن زیاد کے  نام  خط  میں  یہ دھمکی دی کہ اگر اس کام میں کامیاب نہ ہوا تو   اس کے حسب و نسب کو عیان کیا جاے گا۔ أن حسينا قد صار إلي الكوفة وقد ابتلي به زمانك من بين الأزمان وبلدك من بين البلدان وابتليت به أنت من بين العمال وعندها تعتق أو تعود عبدا كما يعتبد العبيد. فقتله ابن زياد وبعث برأسه إليه.

یزید نے ابن زیاد کو خط لکھا کہ حسین کوفہ کی طرف آرہے ہیں تمہیں سخت امتحان کا سامنا ہے اور کوفہ کو بھی سخت امتحان دینا ہے اور حکومتی کارکنوں میں سے خاص طور پر تجھے سخت امتحان دینا ہے ۔اب یا اس امتحان میں تجھے کامیاب ہونا ہے اور انعام حاصل کرنا ہے یا تجھے غلام بننا پے.

اس کے بعد نقل ہوا ہے  کہ اس فرمان کے بعد ابن زیاد نے امام حسین کو شہید کردیا اور آپ کا سر یزید کے پاس روانہ کیا[1] ۔

  اس خط کے بعض نقلوں کے مطابق یزید نے صاف طور پر امام کے قتل کاحکم دیا تھا [2] اور بعض نقلوں کے مضمون خود بتاتا ہے کہ یزید نے امام کے قتل کا حکم دیا تھا[3]۔ اسی  خط کے نتیجےمیں ہی ابن زیاد نے امام کے خون میں ہاتھ ڈالا،  ابن زیاد یزید کی زبان کو  سب سے بہتر جانتا تھا  اور  امام بھی کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے کہ حاکم کی اجازت کے بغیر وہ ایسا کام انجام دے۔ جیساکہ  ابن زیاد  اس تمام مدت میں یزید کے ساتھ رابطے میں تھا ، یہاں تک کی  جناب مسلم اور ہانی کے سر کو یزید کے لئے تحفے میں دمشق  روانہ کیا گیا[4]   ۔ 

2۔ مدینہ کے گورنر کو یزید نے جو خط لکھا اس کے بعض نقلوں میں بھی صریحا امام حسینؑ  کے قتل کا حکم موجود ہے[5] ۔لیکن بعض نقلوں میں موجود  لفظ’’ اخذا لیس فیه  رخصه یا اخذا شدیدا‘‘[6] خود بتاتا ہے کہ یزید کیا چاہتا تھا اور  اس کام  میں سستی کی وجہ سے ہی ولید کو مدینہ کی گورنر ی سے ہٹا  دیا ۔ 

3۔  خود امام  سے جب  سوال ہوا کہ  آپ حج کو چھوڑ کر جلدی کیوں جارہے ہیں تو آپ  نے فرمایا:   اگر میں جلدی نہ کروں تو مجھے پکڑ لینگے.[7]  بیت الله سے ایک بالش باہر قتل ہونا میرے لئے اس میں قتل ہونے سے بہتر ہے ، میں چونٹی کی بل میں بھی گھس جاوں پھر بھی  بنی امیہ  والے  مجھے قتل کریں گے [8].جناب ابن عباس نے بھی   یزید  سے   کہا  : کیا میں بھول سکتا ہوں کہ تو نے حسینؑ  کو خوف اور پریشانی کی حالت میں حرم الہی اور حرم رسول خدا ﷺ سے باہر نکالا  کیونکہ تم نے انہیں قتل کرنے لئے   لوگوں کو وہاں روانہ کیا تھا ۔[9]

4۔خود ا بن زیاد  اس کو یزید  کا حکم قرار دیتا تھا  ،  وہ کہتا تھا :مجھے دو امور میں سے ایک کو انتخاب کرنے کا  اختیار دیا گیا تھا : یا حسینؑ  کو قتل کروں یا خود قتل ہوجاؤں، میں نےحسینؑ  کو قتل کیا[10] وہ کہتا تھا  : یزید نے مجھے حسینؑ  کے قتل کا حکم دیا  لہذا اگر کوئی گناہ ہے تو یزید کے گردن  پر ہے[11] اسی طرح بعض نقلوں کے مطابق اس نے خود امام حسین ؑ کو خط میں لکھا: مجھے یزید نے لکھا ہے کہ  جب تک تجھے قتل نہ کروں یا تمہیں اپنا اور یزید کی اطاعت میں نہ لاوں اسے وقت تک سیر ہوکر نہ کھاوں [12] ۔ 

5۔ شہداء  کے سروں اور اہل بیتؑ  کے بچوں اور خواتین کو کوفہ سے شام لے جانا اور ان کے ساتھ گستاخی کرنا :  اس سلسلے میں چند نمونے  :

الف : یزید کا ایلچی ابن زیاد  کو حکم  دیتا ہے کہ شہداء  کے سروں اور اسیروں کو شام روانہ کیا جاے[13]  اس پر ابن زیاد نے  شہدا کے سروں اور اہل بیتؑ   اور دوسرے اسیروں کو  شام روانہ کیا [14]۔

ب : امام کے سر مبارک کے ساتھ گستاخی   اور صحابی پیامبر کا اعتراض :

یزید  خیزان کی چھڑی کے ذریعے امام کے لب مبارک کی گستاخی کررہا تھا  اتنے میں وہاں بیٹھے ہوئے ایک صحابی پیامبر کو  جلال آیا اور کہا :اے یزید :چھڑی کو ہٹا ،میں نے رسول اللہ ؐ کو  اسے چومتے ہوئے دیکھا ہے یزید غصہ میں آیا اور چلا گیا ۔[15]

ج: اہل بیت پیغمبر کے بچوں اور خواتین کو نامحرموں کے درمیان لاکھڑا کرنا :  یزید نے شام کے  اہم شخصیات کو  دعوت دے کر  اہل بیتؑ  کی خواتین کو  دست بستہ حالت میں در بار میں بلایا[16]۔

د: شام میں  خوشی کی محفلوں کا اہتمام   کرانا  : جیساکہ خالد بن غفران تابعی نے لوگوں کی اس صورت حال کو دیکھ کر شعری زبان میں اس پر  اعتراض  کیا [17] ۔

ہ :  امام  کےسر کی  توہین  کرتے ہوئے  اس سے  نقل ہونے والے اشعار  اس بات پر دلیل ہیں  کہ وہ  اس فتح  کی وجہ  سے فخر کرتا اور  خوشی کا اظہار کرتا تھا [18]۔

 لہذا یزید اگر اس کام پر راضی نہ ہوتا تو نہ اہل بیتؑ  کو  کوفہ سے شام روانہ کرنے کا حکم دیتا   ، نہ امام حسینؑ  کے سر مبارک کے ساتھ گستاخی کرتا   اور نہ ہی   آل رسولؑ کی مخدرات کو  دربار میں  نامحرموں  کے درمیان  لے آکر  اس  پر فخر کرتا ۔

6۔ یزید کا  امام سجادؑ  اور جناب زینبؑ کے ساتھ گفتگو : ہم اس سلسلے کے چند نمونے یہاں نقل کرتے ہیں :

الف :  جب امام سجادؑ کو در بار میں اہل بیتؑ  کی خواتین اور بچوں کے ساتھ بلایا تو امام سے مخاطب ہو  کر کہا : آپ کے والد نے مجھ سے قطع رحمی کی اور میرے حق کو فراموش کیا اور میری سلطنت میں مجھ سے نزاع کیا ، تو خدا نے اس کے ساتھ کیا وہ آپ نے دیکھا،  امام سجاد ؑنے جواب میں  اس آیہ {مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ … [الحديد22] کی تلاوت کی، اس پر یزید نے  امام سجادؑ کو جواب دیتے ہوئے کہا : {وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ } [الشورى: 30] [19].

یہ گفتگو  خود بہترین دلیل ہے کہ یزید امام حسینؑ  کو قتل کا مستحق سمجھتا تھا ۔اس کو خود امام کے اپنے کاموں کا نتیجہ سمجھتا تھا  اور ابن زیاد کے اس کام  سے  دفاع کرتا تھا  اسی لئے جب  بعد میں اس نے کہا کہ اگر میں ہوتا تو انہیں قتل نہیں کرتا تو امام سجادؑ نے  اس کو وہی پر ہی  جھٹلایا ۔[20]   

ب: جب کسی شامی نے یزید سے امام  حسینؑ  کی بیٹی کو اپنے لئے کنیزی میں دینے کی پیشکش کی،  اس پر جناب زینب ؑنے فرمایا:   اللہ کی قسم   نہ  اس کا تجھے حق ہے نہ اس کو [یزید]۔ اس پر یزید غصہ میں آیا اور کہا  تم جھوٹ بولتی ہو، یہ میرا حق ہے  اگر میں چاہوں تو  ایسا کرسکتا ہوں ۔جناب زینبؑ نے جواب میں فرمایا : ہرگز نہیں، خدا نے تجھے  یہ اختیار نہیں دیا ہے  مگر یہ کہ تم ہماری دین و ملت سے نکل کر کوئی اور دین و ملت اختیارکر لے  ، یہ سن کر یزید  نے جواب دیا : دین سے تو تیرا باپ اور بھائی  نکل گئے ہیں[نعوذباللہ]  جناب زینبؑ نے کہا:  تم اس وقت حکومت  کی مستی میں کالیاں دے کر ہمیں  اذیت دے رہا ہے،اس پر  یزید شرمندہ ہوا.[21]

یہاں یزید کا یہ کہنا کہ وہ  امام حسینؑ  کی بیٹی کو کسی کی کنیزی میں دینے کا حق رکھتا ہے۔اسی طرح  امام  علیؑ  اور امام حسینؑ  کا دین سے خارج ہونے  کی بات کرنا ،امام حسین ؑ کے قتل پر  یزید   کی رضایت پر  روشن دلیل ہے۔

 ۷۔ صحابی پیامبر ابن عباس یزید کو ہی قاتل جانتا تھا۔  جب یزید کے مقابلے میں حجاز میں ابن زبیر نے خلافت کا دعوا کیا، تو  ابن عباس کے نام ایک خط میں  یزید نے ابن عباس کا ابن زبیر کی بیعت نہ کرنے کو  سراہا،  ابن عباس نے یزید کی اس چاپلوسی کا جواب دیتے ہوئے   لکھا : اے یزید:  کیا میں بھول سکتا ہوں کہ تو نے حسینؑ  کو جو ہدایت کے چراع تھے انہیں اور عبدالمطلب کی اولاد کو قتل کر دیا .[22]

اب  سوال یہ ہے کہ  اصحاب کا  نام لے کر  خود کو اصحاب کا سب سے زیادہ  حامی کہنے والے  کیوں اس مسئلے میں اصحاب کے ساتھ ہمعقیدہ ہو کر  یزید کو ہی امام حسینؑ کا قاتل نہیں  کہتے ؟ کیوں صحابی پیغمبر کی باتوں کو جھٹلا کر   یزید سے دفاع کرتے ہیں ؟ 

8۔ یزید کے بیٹے کی تقریر :

جب یزید مرگیا تو معاویہ کی  سنت پر عمل کرتے ہوئے لوگوں نے اس کے بیٹے کو خلیفہ بنایا ۔لیکن یزید کے بیٹے نے اس خلافت کو ٹھکراتے ہویے کہا  : میرے باب یزید  خلافت کی اہلیت نہیں  رکھتا تھا  اس نے نواسہ رسول سے دشمنی مولی اور اولاد پیامبر کو قتل کیا، شراب کو حلال ، خانہ خدا کو مسمار کیا ۔[23]

9 : اہل سنت کے بعض نامور علماء کا اعتراف :

یزید کو امام حسینؑ  کا قاتل کہنا صرف شیعوں کا عقیدہ نہیں ہے بلکہ  بہت سے اہل  سنت کے علماء  کا بھی یہی عقیدہ ہے ۔ہم اختصار کی خاطر  بعض نامور علماء کی باتیں یہاں نقل کرتے ہیں۔

1: امام احمد بن حنبل:  یزید پر لعنت کرنے  کے جواز  پر دلیل پیش کرتےہوئے امام احمد بن حنبل نےاس آیت کی تلاوت کی ’’پھر تم سے یہ بھی توقع ہے اگرتم ملک کے حاکم ہو جاؤ تو ملک میں فساد مچانے اور قطع رحمی کرنے لگو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر الله نے لعنت کی ہے‘‘پھر امام احمد نے کہا کہ کیا اس (یعنی قتل ِحسینؑ ) سے زیادہ بھی کوئی بڑا فساد اور قطع رحمی ہوسکتا ہے؟[24]

2: اہل سنت کے مشہور مفسر قرآن جناب الوسی کہتا ہے :وہ عظیم مصیبت جس سے یزید  نے اہل بیتؑ ؑ کو دوچار کیا ،وہ حسینؑ  کے قتل پر راضی تھا ، اور ایک دوسرے کو قتل حسینؑ  کی بشارت دی اور اہل بیتؑ  کو مورد اہانت قرار دیا یہ تمام امور ایسے مسائل ہیں جو معنوی تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچے ہیں  گرچہ اس کی تفاصیل خبر واحد ہے[25] ۔  

3: اہل سنت کے مشہور عالم  سعد الدين تفتازاني لکھتا ہے کہ :

یزید  کی طرف  سے اہل بیتؑ  کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور ظلم و ستم واضح اور روز روشن کی طرح عیان تھے اور نزدیک تھا کہ زمین اور سنگریزے اس کی گواہی دیتے  اور زمین و آسمانوں میں موجود تمام آشیاء ان مظالم پر گریہ کرے ۔ پس خدا کی لعنت ہو  اس پر جو  اس کام کے مرتکب ہوا اس کا ساتھ دیا اس پر راضی ہوا  ان پر آخرت کی  سخت عذاب ہو وہ ہمیشہ جہنم میں رہے۔[26]

4: اہل سنت کا ایک بڑا عالم ،ذہبی یزید کے بارے میں کہتا ہے :

یزید نے  جب اہل مدینہ کے ساتھ جو کچھ کیا[ اصحاب اور  ان کے اولاد کا قتل عام اور  اصحاب کے ناموس کی بے حرمتی]  اور امام حسینؑ   اور انکے بھائیوں اور اولاد کو قتل کیا۔۔  تو  بہت سے لوگوں نے اس کے خلاف قیام کیا۔[27]

5: ابن جوزی حنبلی  اپنی کتاب ’’الرد علی المعتصب العنید  المانع  من ذم  یزید‘‘ میں یہ ثابت کرتا ہے کہ یزید ہی امام  حسینؑ   کے قتل کا ذمہ دار تھا ۔

6:-اہل سنت کے مشہور مورخ ابن كثيردمشقی لکھتا ہے۔

یزید بہت سی سخت غلطی کا مرتکب ہوا ,اس نے مدینہ پر حملہ کا حکم دے کر مسلم بن عقبہ سے کہا کہ مدینہ کو تین دن تک لشکر والوں پر  حلال کر دیا  …  جیسے اصحاب اور ان کے اولاد  کا قتل ،اسی طرح حسین اور ان کے اصحاب کو عبید اللہ بن زیاد کے ہاتھوں قتل  کرانا.[28].

7  :  محدث دھلوی لکھتا ہے :  امام حسین علیہ السلام کی شہادت یزید  کے حکم سے  شام اور عراق کے شقی اور بدبخت لوگوں کے ہاتھوں ہوئی [29]۔

 

کیا یزید  اس کام پر پشیمان ہوا تھا :

بعض لوگ  بعض تاریخی نقلوں کی بنا پر یہ کہتے ہیں کہ یزید اس کام پر  راضی نہیں تھا یا  وہ  پشیمان ہوا تھا [30]۔ہماری سابقہ گفتگو  سے  واضح ہوا کہ یزید  سے دفاع  کرنے  والوں کے اس قسم کی  باتیں  تاریخی حقائق پر  پردہ ڈالنے کی ایک ناکام کوشش ہے  جس میں یہ لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ 

جیساکہ بیان ہوا :شام بنو امیہ کے افکار کا مرکز تھا جس طرح سے معاویہ اور یزید  اہل بیتؑ  کے دشمن تھے شام کے لوگوں کو بھی  اسی فکر کی تعلیم دی گی تھی لہذا علی مرتضی ؑ پر سب و شتم کو شام والے دینی فریضہ سمجھتے تھے [31] ، یزید امام حسین ؑ اور ان کے گھر والوں کو اسی علی ؑؑ کی اولاد قرار دے کر  اپنے باپ  کے مشن کو آگے بڑھانا  چاہتا تھا لہذا  یزید پہلے مرحلےمیں اس پر انتہائی خوش تھا کہ اس نے اپنے سب سے بڑے دشمن پر فتح حاصل کی ہے۔[32]   یہاں تک کی وہ  ابن زیاد کی  سرزنش کرنے والوں کی سرزنش کرتا تھا  [33]۔

لیکن  اسیران کربلا خاص کر امام سجادؑ ، جناب زینب  ؑاور       ام کلثومؑ کی  تقریروں نے دشمن اہل بیتؑ  کے  اس  مرکز  میں ایسا انقلاب برپاکیا کہ لوگ سمجھ گئے  کہ جن کو خلیفہ کا دشمن کہہ کر ان کے سروں کو نیزوں پر اور ان کے بچوں کو اسیر بنا کر شہر میں پھرایا گیا اور اس پر خوشی منائی گئی  وہ  در واقع پیغمبر اسلامؐ کے  خاندان والے اور ان کی اولا  ہیں ۔یہاں تک  کہ  یزید  کے  گھر والے بھی اس کام پر اس کی شماتت کرنے لگے [34] اور  اس نے جب دیکھا کہ خاندان پیغمبر کے اسیروں نے  بنو امیہ کے   سارے پروپیگنڈے خاک میں  ملا دیے ہیں    اور اپنے باپ کی ساری زحمتیں برباد ہورہی ہیں تو اس نے یہ احساس کیا کہ اگر اسی طریقے سے  اہل بیتؑ  کے ساتھ رفتار جاری رکھا جائے تو  سب لوگ اسی کو قصوروار ٹھہرا ینگے، اسی لئے وقتی طور پر مصلحت اسی میں دیکھی کہ  امام کے قتل  کا ذمہ دار ابن زیاد کو ٹھہرا کر خود کو اس سے بری ذمہ قرار دے[35]،  تاکہ اس طریقے سے لوگوں کے غیظ و غضب سے محفوظ رہ سکے۔  اسی لئے اس نے اہل بیتؑ  کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی کوشش کی،یہ  مصلحت  اندیشی اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے ایک چال تھی۔

 اگر  یزید  سے دفاع کرنے والوں  کے  ان  باتوں میں  ذرا بھی حقیقت ہوتی تو  فرزند رسول اور اہل پیت پیغمبر ؑ کا مقام اتنا کم نہیں تھا کہ  یزید  اپنے  اس خود سر گورنر کو معزول کر کے امت اسلامی سے معذرت کی خاطر اسکو سزا دیتا ۔لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ نہ صرف اسے معزول کر کے سزا نہیں دی گئی بلکہ اسے بدستور کوفہ کی گورنری پر باقی رکھا اور اس کی عزت بڑی اور انعام سے نوازا گیا [36]،  مکہ اور مدینہ پر  حملہ کے لئے کمانڈری کی پیشکش  بھی کی گئی۔ 

بعض  کی یزید سے بھی آگے نکلنے کی کوشش  ۔

یہاں عجیب بات یہ ہے کہ یزید   اپنے  باوفا گورنر کو بدنام کرنے کے ذریعے اپنے دامن کو پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا یزید کے لئے یہ آسان نہیں تھا کہ اپنے اس قابل اعتماد گورنر کو بدنام کرنے کے بجائے اس کام کو شیعوں کی گردن پر ڈال دیتا ؟ جیساکہ یزید سے دفاع کرنے والے ایسا کرتے ہیں۔

  جی ہاں اس کو شیعوں کی طرف نسبت دینا اتنا  جاہلانہ ،  بذدلانہ  اور بے وقوفانہ حرکت تھی  کہ یزید بھی اس چیز کی جرات نہ کرسکا لیکن آج بعض  یزید کے دوستوں میں اپنا نام لکھنے کے لئے اس کام کا مرتکب ہورہے ہیں   ۔ [واقعاعجیب ہے ]

حقیقت یہ ہے کہ یزید  نہ اس کام سے پشیمان ہوا تھا  نہ اس نے توبہ کیا تھا ۔لہذا بہتر  یہ ہے  کہ یزید سے دفاع کرنے والے خود ہی اپنے  اس کام پر توبہ کر کے اہل بیتؑ    سے   دشمنی  کی مہم سے ہاتھ اٹھالے اور  اگر ان سب حقیقتوں کے باوجود   یزید کو بے گناہ ثابت کرتے ہوئے ، اہل بیتؑ  پر کیے ظلم میں اسکا  شریک بننا چاہتا ہے وہ خود قیامت کے  دن  رسول پاک ﷺکے حضور میں جواب دہ ہے، ہم   خدا  و ند متعال  سے دعا کرتے ہیں کہ  اگر یہ لوگ ہدایت  کے قابل نہیں ہیں تو  خدا   انہیں یزید اور بنو امیہ کے حاکموں کے ساتھ ہی محشور فرما ۔      آمین یا رب العالمین۔

 تحریر ۔۔غ ۔م ملکوتی

 

 


[1] سير أعلام النبلاء، ج 3، ص 305 / تاريخ مدينة دمشق، ج 14، ص 214/  بغية الطلب في تاريخ حلب، ج 6، ص 2614

[2]۔ تاريخ مدينة دمشق (14/ 213)تاريخ الخلفاء (ص: 182)  

[3] ۔المعجم الكبير [3 /11/البداية والنهاية [8 /178

[4].الكامل في التاريخ (2/ 160،/  المنتظم (2/ 193،)

[5] . تاريخ اليعقوبي [ص 205]

[6] ۔ الكامل في التاريخ [2 /151]البداية والنهاية [8 /147]

[7]                   .  تاريخ الطبري [3 /296] البداية والنهاية [8 /167]

[8] الكامل في التاريخ [2 /161] تاريخ الطبري [4 /289]

[9]۔ أنساب الأشراف [2 /185] مجمع الزوائد [7 /500] المعجم الكبير [10 /241] ]  

[10] ۔الكامل في التاريخ [3 /474]

[11].الأخبار الطوال [ص 284]

. البداية والنهاية [8 /243]

[12]۔الفتوح ابن اعصم ،ج 5 س ، 150 / مقتل خوارزمی ،ج 1 ص 19

[13]– الرد علی المتعصب العنید- ص 65/ الكامل في التاريخ (2/ 180 )

[14]. سير أعلام النبلاء [3 /305] أنساب الأشراف [1 /411/المعجم الكبير [3 /115]  

[15]. سير أعلام النبلاء [3 /309] معرفة الصحابة [6 /3154]

[16] . السيرة لابن حبان [ص 555]تاريخ الطبري [3 /339]

 المعجم الكبير (3/ 104) مجمع الزوائد(9/ 309) تاريخ دمشق (70/ 15)

[17]۔تاريخ مدينة دمشق [16 /181] البداية والنهاية [8 /198]

[18] –  ليت أشياخي ببدر شهدوا ** جزع الخزرج من وقع الأسل ) لعبت هاشم بالملك بلا ** ملك جاء ولا وحى نزل. / البداية والنهاية [8 /192] البدء والتاريخ [ص 331]

[19].البداية والنهاية [8 /194] المنتظم [2 /200] تاريخ الطبري [3 /339]

[20]. تاريخ الإسلام للذهبي [2 /60] تاريخ مدينة دمشق [34 /316]

[21]                  تاريخ دمشق [69 /177]البداية والنهاية [8 /194]   تاريخ الطبري [3 /339]

[22]                  .  أنساب الأشراف [2 /185]مجمع الزوائد [7 /500] المعجم الكبير [10 /241]المعرفة والتاريخ [1 /532]

[23]                  الصواعق المحرقة [2 /641] ينابيع المودة[3 /29] النجوم الزاهرة  [1 /65]

[24]                                    ۔  روح المعاني  ، ج‏13، ص: 228

[25]                    ۔ روح المعاني  ، ج‏13، ص: 228

 [26]                     . شرح المقاصد/ ج‏ 5ص312  

. [27] تاريخ الاسلام ، وفيات 61 – 80 ، ص 30

[28].لبداية والنهاية (8/ 222)

[29]  كان استشهاد الامام حسين علي اشقياء الشام والعراق بامر يزيد الخبيث.۔۔۔ تحفة اثنا عشرية، ص14و 54

 

[30]. رأس الحسين (ص: 207)

[31] ۔ سير أعلام النبلاء  [5 /123]مجموع الفتاوى (4/ 436)

[32] . تاريخ الطبري (3/ 365)تاريخ الخلفاء [ص 182]

[33]. الكامل في التاريخ (2/ 182، تاريخ الطبري (3/ 339)

[34].الكامل في التاريخ [2 /180] تاريخ الطبري [3 /339]

[35].الكامل في التاريخ (2/ 181)

[36]. تاريخ الطبري (3/ 365) البداية والنهاية (8/ 254)

 

تبصرے
Loading...