نماز کے اوقات میں دعا کی اہمیت- خطبہ شعبانیہ کی تشریح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خطبہ شعبانیہ ماہ رمضان المبارک کی شان و عظمت کے سلسلہ میں ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان سے پہلے، ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کو حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ ان سلسلہ مضامین میں اس خطبہ کے فقروں کی تشریح بیان کی جارہی ہے، جن میں سے یہ بارہواں مضمون ہے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ وَارفَعوا إلَيهِ أيدِيَكُم بِالدُّعاءِ في أوقاتِ صَلَواتِكُم؛ فَإِنَّها أفضَلُ السّاعاتِ، يَنظُرُ اللّه ُ عز و جل فيها بِالرَّحمَةِ إلى عِبادِهِ، يُجيبُهُم إذا ناجَوهُ، ويُلَبّيهِم إذا نادَوهُ ويَستَجيبُ لَهُم إذا دَعَوهُ”[1]، “اور اپنے ہاتھوں کو اللہ کی بارگاہ میں دعا کے لئے اپنی نمازوں کے اوقات میں اٹھاؤ، کیونکہ یہ اوقات بہترین گھڑیاں ہیں، اللہ عزّوجلّ ان گھڑیوں میں اپنے بندوں کو رحمت سے دیکھتا ہے، ان کو جواب دیتا ہے جب وہ اس سے رازونیاز کریں، اور انہیں لبیک کہتا ہے جب وہ اسے اونچی آواز سے پکاریں، اور ان کی استجابت کرتا ہے جب وہ اسے پکاریں”۔

تشریح:
مقدمہ:
خطبہ شعبانیہ کے ان فقروں میں اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنے اور پکارنے کا حکم دیا جارہا ہے اور  مستجاب ہونے اور جواب ملنے کے اوقات بھی بتائے گئے ہیں، یہ اوقات نمازوں کے اوقات ہیں، کیونکہ نماز کے اوقات، بہترین گھڑیاں ہیں، اللہ تعالی ان گھڑیوں میں اپنی رحمت کی نظر سے اپنے بندوں کو دیکھتا ہے۔ان گھڑیوں میں اللہ تعالی کی نظر رحمت کی خوشخبری اس باعظمت پیغمبرؐ نے دی ہے جو ارحم الراحمین ذات کا بھیجا ہوا رحمۃ اللعالمین نبیؐ ہے۔ آپؐ جو مالک کائنات کی رحمت کا واسطہ فیض ہیں، ان خاص اوقات کی ہمیں خبر دے رہے ہیں، لہذا نماز کے اوقات کو غنیمت سمجھ کر ان اوقات میں پروردگار سے دعا کرتے ہوئے، رحمت الہی سے بھرپور طور پر فیضیاب ہونا چاہیے۔

اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنا: دعا، اللہ تعالی سے رابطہ قائم کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو انسان کے اندرونی گہری تہوں سے شروع ہوتا ہے اور وجود کے بلندترین مقامات پر پہنچتا ہے، اسی لیے ہر انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔ الفاظ، معنی، انداز، گہرائی، وقت، جگہ، واسطہ اور کئی دیگر شرائط، دعا میں خاص کردار کے حامل ہیں۔
ابتدائی ترین محسوسات جسے انسان ہمیشہ اپنے ساتھ لیے رہتا ہے، عجز، محتاجی اور ناتوانی کی کیفیت ہے۔ انسان جب اس خاکی زمین میں قدم رکھتا ہے، پچپن سے لے کر بڑھاپے تک مسلسل اپنے آپ کو عاجز اور کسی کا محتاج سمجھتا ہے۔ اسی لیے کسی بڑی طاقت کی تلاش میں رہتا ہے جس کا سہارا لے کر سکون حاصل کرلے۔ انسان اگر کسی انسان سے کچھ مانگے تو اسے اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ وہ کیا اس کی مدد کرے گا یا نہیں اور اپنی عزت کے لحاظ سے بھی خائف رہتا ہے، لیکن جب انسان اللہ سے مانگنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے یہ دونوں خوف نہیں ہوتے اور اگر ہو بھی تو نہیں ہونے چاہئیں، کیونکہ ہمارے مانگنے کے ارادہ سے پہلے اس ذات نے اپنی لاریب کتاب میں یہ اعلان کررکھا ہے کہ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ”[2]، “اور تمہارا پروردگار کہتا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو۔ میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو لوگ میری (اس) عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے”۔[3] اس آیت کریمہ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ایک تو اللہ نے دعا کرنے کا حکم دیا ہے جس کی قبولیت کی بھی خبر دیدی ہے اور دوسرا یہ کہ اللہ سے نہ مانگنے میں ذلت و خواری ہے، نہ کہ مانگنے میں، اور نہ مانگنے کی وجہ سے، صرف ذلت و خواری نہیں، بلکہ ذلت و خواری کے ساتھ جہنم میں داخل ہونا ہے۔ اور نیز اس آیت میں اللہ نے دعا کو اپنی عبادت کہا ہے، اور اس عبادت یعنی دعا سے تکبر کرنے پر سخت سزا مقرر کی ہے جو ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہونا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دعا کی اس قدر اہمیت ہے کہ اگر انسان دعا کرے تو خدا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے تکبر کیا جائے تو سخت سزا ہے۔

دعا کے لئے اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھانا: دعا کرنے کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا جائے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانے کا مطلب نعوذباللہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی آسمانوں میں ہے، کیونکہ اللہ زمان و مکان اور تمام جسمانی صفات سے پاک و منزہ ہے، تو پھر آسمان کی طرف کیوں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں؟ اس سوال کے کئی جوابات ہیں:
 ۱۔ احادیث کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ دعا کے لئے ہاتھوں کو اٹھانا، خود ایک طرح کی عبادت ہے اور اللہ کی بارگاہ میں یہ طریقہ اختیار کرنا، انسان کی خاکساری اور عبودیت کی علامت ہے۔
۲۔ دعا کے لئے ہاتھوں کو اٹھانا، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی سنّت ہے اور آپؐ نے اس کام کا حکم بھی دیا ہے جیسے خطبہ شعبانیہ کے مذکورہ بالا فقرہ میں۔
  ۳۔ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانا اس بات کی علامت ہے کہ مختلف رزق و روزیوں کا مقام، آسمان ہے۔

نماز کے اوقات میں دعا کرنا: جیسے مقدس مقامات میں دعا کے مستجاب ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے اسی طرح مقدس اوقات میں بھی جن کے بارے میں روایات میں بتایا گیا ہے، دعا کی استجابت ہوتی ہے۔ خطبہ شعبانیہ میں جیسے رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے نماز کے اوقات میں دعا کرنے کا حکم دیا ہے، اسی طرح اہل بیت (علیہم السلام) کی دیگر روایات میں بھی ایسا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: إنَّ اللّه َ عز و جل فَرَضَ عَلَيكُمُ الصَّلَواتِ الخَمسَ في أفضَلِ السّاعاتِ ؛ فَعَلَيكُم بِالدُّعاءِ في أدبارِ الصَّلَواتِ”[4]، “بیشک اللہ عزّوجلّ نے تم پر پانچ نمازوں کو بہترین گھڑیوں میں واجب کیا ہے، تو تم پر لازم ہے کہ نمازوں کے بعد دعا کرو”، دوسری روایت میں آپؑ فرماتے ہیں: “عَلَيكُم بِالدُّعاءِ في أدبارِ الصَّلاةِ ؛ فَإِنَّهُ مُستَجابٌ”[5]، “تم پر لازم ہے کہ نماز کے بعد دعا کرو، کیونکہ دعا مستجاب ہوتی ہے”۔

اللہ نظر رحمت سے دیکھتا ہے: اللہ تعالی کی دو طرح کی رحمت ہے، رحمت رحمانیہ جو عام اور ہمہ گیر ہے اور رحمت رحیمیہ جو خاص ہے۔ عام رحمت ہر کسی کو ملتی ہے چاہے کافر و مشرک ہو، لیکن خاص رحمت ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے نصیب ہوتی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: و اللّهُ اِله کُلُّ شَی‌ءٍ الرَّحمانُ بِجَمیعِ خَلْقه، الرَّحیمُ بِالمُؤمِنین خاصّةً”[6]، “اور اللہ ہر شے کا معبود ہے، اپنی ساری مخلوق پر رحمان ہے، خاص مومنین پر رحیم ہے”۔ نمازوں کی گھڑیوں میں اللہ اپنے بندوں کو رحمت کے ساتھ دیکھتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ نماز کے اوقات میں نماز کی پابندی رکھے تا کہ اللہ تعالی کی رحمت کو حاصل کرسکے۔

اللہ کو پکارا جائے وہ مستجاب کرتا ہے: خطبہ شعبانیہ میں نبی اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: يُجيبُهُم إذا ناجَوهُ، ويُلَبّيهِم إذا نادَوهُ ويَستَجيبُ لَهُم إذا دَعَوهُ”، “ (اللہ) ان کو جواب دیتا ہے جب وہ اس سے رازونیاز کریں، اور انہیں لبیک کہتا ہے جب وہ اسے اونچی آواز سے پکاریں، اور ان کی استجابت کرتا ہے جب وہ اسے پکاریں”۔ ماہ رمضان بہترین موقع ہے اللہ سے راز و نیاز کرنے، ندا کرنے اور پکارنے کے لئے۔ ان تینوں کاموں کا اللہ کی طرف سے ردّعمل اور جواب ملنے کی خوشخبری پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے دیدی ہے، لہذا بہترین مہینہ میں بہترین اوقات سے بہترین فائدے حاصل کرلینے چاہئیں۔

نتیجہ: ماہ رمضان روزوں کا مہینہ ہے اور نماز جو دین کا ستون ہے، اس کے بھی خاص اوقات مقرر ہیں، نماز کے اوقات بہترین گھڑیاں ہیں، جیسے ماہ رمضان سب مہینوں سے افضل مہینہ ہے، نماز کے اوقات کے ساتھ ساتھ دعا کے خاص اوقات بھی مقرر کردئیے گئے ہیں تو انسان کو ان اوقات میں متوجہ رہنا چاہیے کہ اب دعا کا وقت ہے تو ہاتھ اٹھا کر دعا مانگے اور انسان کا اس بات پر عقیدہ ہونا چاہیے کہ جب وہ اللہ تعالی کو پکارے گا تو اللہ تعالی اسے جواب دے گا اور اس کی حاجتوں کومستجاب کرے گا، کیونکہ اس نے خود حکم دیا ہے، لہذا اللہ سے حاجتیں مانگنے اور اللہ کو پکارنے میں کوتاہی نہ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] عيون أخبار الرضا (علیہ السلام)، شیخ صدوق، ج2، ص265.
[2] سورہ غافر، آیت 60۔
[3] ترجمہ مولانا شیخ محسن نجفی صاحب۔
[4] الخصال، ص278، ح23۔
[5] بحار الأنوار، ج83، ص26، ح2۔
[6] الکافی، مرحوم کلینی، ج1، ص114۔

تبصرے
Loading...