ماہ رمضان میں گناہوں سے توبہ – خطبہ شعبانیہ کی تشریح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خطبہ شعبانیہ ماہ رمضان المبارک کی شان و عظمت کے سلسلہ میں ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان سے پہلے، ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کو حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ ان سلسلہ مضامین میں اس خطبہ کے فقروں کی تشریح بیان کی جارہی ہے، جن میں سے یہ گیارہواں مضمون ہے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہوتوبوا إلَى اللّهِ مِن ذُنوبِكُم”[1]، “اور اپنے گناہوں سے اللہ کی طرف توبہ کرو”۔

تشریح:
توبہ:
“توبہ”، “توب” سے ہے اور اس کے معنی رجوع اور پلٹنا ہے۔[2] توبہ بندہ کی طرف سے معصیت اور خطا سے پلٹنا اور اس سے پشیمان ہونا ہے اور توبہ اللہ کی طرف سے، بندہ کی توبہ کو قبول کرنا ہے۔[3]
ذنوب:  ذنوب ذنب کی جمع ہے۔ ذنب اس عمل کو کہا جاتا ہے جس کے پیچھے نقصان یا فائدہ اور مصلحت کا ضائع ہوجانا ہو۔ ذنْب، در اصل ذَنَب سے لیا گیا ہے جو حیوان کی دُم کے معنی میں ہے اور گناہوں کو بھی ذنب کہا گیا ہے، کیونکہ گناہ اور دوسروں پر ظلم کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کی سزا اور انتقام ہوتا ہے۔[4]
توبہ کا لفظ قرآن کریم میں بعض آیات میں انسان کے لئے استعمال ہوا ہے اور بعض آیات میں اللہ تعالی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ استعمال کا فرق حرفِ اضافہ کے ذریعہ ہے۔ جب انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے تو حرف اضافہ “اِلی” کے ساتھ ہوتا ہے جیسے: وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّـهِ مَتَابًا”[5]، “اور جو کوئی توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو وہ اللہ کی طرف اس طرح رجوع کرتا ہے جو رجوع کرنے کا حق ہے”، اور جب لفظ توبہ، اللہ کے لئے استعمال ہوتا ہے تو حرفِ اضافہ “عَلی” کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ بندہ کو توبہ کی توفیق دیتا ہے اور اسے معاف کردیتا ہے، جیسا کہ ارشاد الہی ہے: فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّـهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ”[6]، “پھر جو شخص توبہ کرلے اپنے ظلم سے اور (اپنی) اصلاح کر لے، تو یقینا اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے”۔

توبہ کی اہمیت اور ضرورت: توبہ کا اسلام میں بلند مقام اور خاص اہمیت ہے۔ قرآن کریم کی نظر میں اللہ، توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، ارشاد پروردگار ہے: إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ”[7]، “بے شک اللہ دوست رکھتا ہے توبہ کرنے والوں کو اور طہارت کرنے والوں کو”۔
توبہ کے شرائط و ارکان: توبہ کی حقیقت اللہ کی نافرمانی سے فرمانبرداری کی طرف پلٹنا ہے، جو سابقہ اعمال کے بارے میں ندامت و پشیمانی کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس پشیمانی کے لئے ضروری ہے کہ انسان آئندہ ان گناہوں کو چھوڑ دینے کا پختہ ارادہ کرلے اور نیز گذشتہ کی تلافی بھی کرے یعنی جہاں تک اس کے لئے ممکن ہے، سابقہ گناہوں کے برے اثرات کو اپنے وجود کے اندر اور باہر سے ختم کرے، جواس کی قضا عبادات ہیں، ان کی قضا کرے  اور اگر دوسروں کا حق اس کے ذمہ ہے اور قابلِ تلافی بھی ہے تو ان کی تلافی کرے اور اصلاح کرے۔ ذات باریتعالی کا ارشاد ہے: إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَـٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ”[8]، “مگر وہ جنہوں نے (حق پر پردہ ڈالنے سے) توبہ کی اور اپنی اصلاح کر لی۔ اور (حق بات کو) ظاہر کر دیا یہ وہ ہیں جن کی میں توبہ قبول کروں گا (انہیں معاف کر دوں گا) اور میں بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا (مہربان) ہوں”۔ کئی دیگر آیات میں بھی توبہ کے ساتھ اصلاح کا حکم دیا گیا ہے، جیسے: سورہ نساء، آیت 146۔ سورہ نور، آیت 5۔ سورہ نحل، آیت 119۔ سورہ طہ، آیت82۔ سورہ انعام، آیت 54۔
واضح رہے کہ جس شخص نے لوگوں کو اللہ کے دین سے گمراہ کیا ہو، اس کی توبہ کے شرائط کا کچھ فرق ہے اس کے لئے احادیث اور تفصیلی کتب و مضامین کی طرف مراجعہ کیا جائے۔

گناہوں کے اثرات:
دل کی سختی اور معرفت پروردگار سے رکاوٹ:
گناہ، معرفت الہی حاصل کرنے سے رکاوٹ بنتے ہیں، کیونکہ گناہ عقل اور فطرت کو داغدار کرکے انسان کے دل کو سخت کردیتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: إذا أذنَبَ الرجُلُ خَرَجَ في قَلبِهِ نُكْتَةٌ سَوْداءُ ، فإن تابَ انمَحَتْ ، و إن زادَ زادَتْ حتّى تَغلِبَ على قَلبِهِ فلا يُفلِحُ بَعدَها أبداً”[9]، “جب آدمی گناہ کرے تو اس کے دل میں سیاہ نقطہ پیدا ہوجاتا ہے، تو اگر اس نے توبہ کرلی تو وہ نقطہ مٹ جاتا ہے، اور اگر گناہ دوبارہ کیا تو وہ نقطہ بڑھ جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے دل کو گھیر لیتا ہے، تو اس کے بعد ہرگز فلاح نہیں پائے گا”۔
دعا کا مستجاب نہ ہونا: گناہ باعث بنتا ہے کہ انسان کا اللہ سے رابطہ کٹ جائے اور انسان کی دعا مستجاب نہ ہو۔ جیسا کہ دعائے کمیل میں ہے: “اللهم اغفرلی الذنوب التی تحبس الدعا”، “بارالہا! میرے سب وہ گناہ معاف کردے جو دعائیں قبول نہیں ہونے دیتے” ۔ نیز حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: المَعصِيَةُ تَمنَعُ الإِجابَةَ[10]، “گناہ، استجابت کو روک لیتا ہے”۔ گناہ کے اس کے علاوہ کئی دیگر نقصانات بھی ہیں جیسے مصیبتوں کا آنا، امید کا کٹ جانا، نعمتوں کا آفت میں بدل جانا…۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] عيون أخبار الرضا (علیہ السلام)، شیخ صدوق، ج2، ص265.
[2]  معجم مقاییس اللغه، ابن فارس، ج۱، ص۳۵۷، «توب»
[3] لسان العرب، ابن منظور،‌ ج۱، ص۲۳۳، «توب»۔
[4] ماخوذ از: مجمع البیان، علامہ طبرسی، ج 2، ص 713۔
[5] سورہ فرقان، آیت 71۔
[6] سورہ مائدہ، آیت 39۔
[7] سورہ بقرہ، آیت 222۔
[8] سورہ بقرہ، آیت 160۔
[9] میزان الحکمہ، محمدی ری شہری، ج4، ص284۔
[10] غرر الحكم، آمدی، ح 792۔

تبصرے
Loading...