غریب لوگ مالی امداد کے حقدار

خلاصہ: ان معاشی نازک حالات میں جب غریب لوگ مدد کے حقدار ہیں تو ہر آدمی کو چاہیے کہ اپنی گنجائش کے مطابق امداد کرے۔

غریب لوگ مالی امداد کے حقدار

جو آدمی غریبوں کی مدد کرنے سے ڈرتا ہے کہ کہیں اس کا پیسہ ختم نہ ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے پیسے پر بھروسہ کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کا پیسہ ہے جو اس کی زندگی کو بحال رکھے ہوئے ہے، جبکہ ایسا نہیں، کتنے لوگوں کے پاس مال و دولت ہے، لیکن انہیں اپنی زندگی میں سکون، خوشی اور صحت مندی نصیب نہیں ہوتی۔ وہ جتنا بھی پیسہ خرچ کرتے ہیں تاکہ صحت یاب ہوکر پرسکون زندگی گزار سکیں تو پھر بھی مال و دولت کی کثرت کے باوجود بےسکون اور بیقرار ہیں۔
ان کا پیسہ ان کے لئے یہ سہولیات فراہم کیوں نہ کرسکا؟!
اس لیے کہ حقیقت میں پیسہ انسان کے لئے سہولت فراہم نہیں کرتا، بلکہ اللہ تعالیٰ انسان کو سکون، خوشی اور صحت عطا فرماتا ہے۔ لہذا مالدار طبقہ کو غریب طبقے کی طرف خاص توجہ کرنی چاہیے، کیونکہ غربت و ضرورت کے عالَم میں غریبوں کی ٹھنڈی سانسیں اور دردبھری آہیں، بےدرد اور لاپرواہ مالداروں کے سکون کو بےچینی میں بدل سکتی ہیں۔
کیسے انسان اپنے جیسے انسانوں کو بھوک کی شدت میں دیکھ کر خاموش بیٹھ سکتا ہے؟
کون سا پاک ضمیر اور نیک فطرت انسان، غریب بچوں کو روٹی ڈھونڈنے کی حالت میں دیکھ کر لاپرواہی کرسکتا ہے؟
کیا اتنی سخت اور جان لیوا بیماری کا دنیا بھر میں پھیلاؤ، اللہ کے عذاب سے ڈرنے کے لئے کافی نہیں ہے؟ ایسی خاموش بیماری جومالدار اور غریب کو نہیں دیکھتی، مالدار کا مال بھی اسے اس بیماری سے نجات نہیں دے سکتی۔
اسی لیے سب مالدار لوگوں کو غریبوں کی مدد کرنی چاہیے ورنہ آدمی کے بینک اکاؤنٹ چاہے جتنے کروڑوں روپے سے بھرے پڑے ہوں لیکن جب امرِ الٰہی آجائے تو “نہ دیکھے جانے والا وائرس” اس کی زندگی کو ختم کرسکتا ہے۔
سورہ نساء کی آیت ۳۷ میں ارشاد الٰہی ہے: الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَاباً مُّهِيناً”، “جو خود کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کرنے کا حکم (ترغیب) دیتے ہیں۔ اور جو کچھ اللہ نے ان کو اپنے فضل و کرم سے دیا ہے وہ اسے چھپاتے ہیں ہم نے ایسے ناشکروں کے لئے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے”۔

* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔

تبصرے
Loading...