حکومت کے لئے ابوسفیان کی کوشش کا جاری رہنا

خلاصہ: ابوسفیان خلفاء کے زمانے میں حکومت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف رہا۔

حکومت کے لئے ابوسفیان کی کوشش کا جاری رہنا

ابوسفیان پہلے اور دوسرے خلفاء کی خلافت کے زمانے میں حکومت لینے کے لئے مسلسل موقع کی تلاش میں رہا۔ وہ کبھی اعتراض کرتا تھا اور کبھی ان سے چپقلش اور بحث کرتا تھا حتی بعض اوقات یہ بحثیں تلخ کلامی اور بری باتوں تک پہنچ جاتی تھیں، لیکن بہرحال کوئی مناسب موقع نہ پاسکا، اسی لیے اس نے دیکھا کہ حجاز سے دور کسی جگہ چلا جائے تاکہ اسلام کے نام پر حکومت بنانے کی کوشش کو جاری رکھے۔ اسی لیے اس نے مختلف چالوں کے ساتھ دوسرے خلیفہ کو راضی کرلیا کہ معاویہ کو شام کے والی کے طور پر بھیجے۔ دوسرے خلیفہ نے شام کی حکومت معاویہ کو دیدی تو ابوسفیان نے اسلامی ملک کے مستقبل میں تفرقہ ڈالنے کی امید رکھ لی۔

جب دوسرے خلیفہ کا انتقال ہوا تو پہلے سے تیار کردہ منصوبہ کے تحت جس میں بنی امیہ بھی حصہ دار تھے، لوگوں نے جناب عثمان کے ساتھ بیعت کی۔ اس کے بعد ابوسفیان نے دوبارہ حکومت کے لئے امید رکھ لی۔ ابوسفیان نے اپنے رشتہ داروں کو اکٹھا کیا اور ایک تقریر میں ان سے کہا: “یا بنی امیۃ تلقّفوھا تلقّف الکرۃ فوالذی یحلف بہ ابوسفیان ما من عذاب و لا حساب و لا جنۃ و لا نار و لا بعث و لا قیامۃ”، “خلافت کو گیند کی طرح ہوا میں پکڑو، قسم اس کی جس کی ابوسفیان قسم کھاتا ہے کہ نہ کوئی عذاب ہے اور نہ حساب اور نہ جنت اور نہ جہنم اور نہ دوبارہ اٹھایا جانا اور نہ قیامت”، ہمارا جھگڑا حکومت اور ریاست پر ہے، اب تک بنی ہاشم نے حکومت کی ہے، آج کے بعد بنی امیہ کی باری ہے، اب جو حکومت بنی امیہ کے پاس  ہے اسے طاقت سے پکڑ لو، حکومت کو میراث کے طور پر ہمارے گھرانے میں باقی رہنا چاہیے۔
ابوسفیان کی یہ باتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اس کا ابتدا ہی سے کوئی ایمان نہیں تھا۔

* ماخوذ از: در پرتو آذرخش، ص ۱۸، آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی، قم، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی رحمہ اللہ، ۱۳۸۱۔

 

تبصرے
Loading...