حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا عباس اور ابوسفیان کو جواب

خلاصہ: اس مضمون میں نہج البلاغہ کا پانچواں خطبہ بیان کیا جارہا ہے جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے اپنے چچا عباس اور ابوسفیان کی بات کے جواب میں ارشاد فرمایا۔

حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا عباس اور ابوسفیان کو جواب

رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی رحلت کے بعد عباس آنحضرتؐ کا چچا اور ابوسفیان حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ سے بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا:

“أَيُّها النَّاسُ، شُقُّوا أَمْوَاجَ الْفِتَنِ بِسُفُنِ النَّجَاةِ، وَعَرِّجُوا عَنْ طَرِيقِ الْمُنَافَرَةِ، وَضَعُوا تِيْجَانَ الْمُفَاخَرَةِ. أَفْلَحَ مَنْ نَهَضَ بِجَنَاح، أَوِ اسْتَسْلَمَ فَأَراحَ. هذَا مَاءٌ آجِنٌ، وَلُقْمَةٌ يَغَصُّ بِهَا آكِلُهَا.وَمُجْتَنِى الَّثمَرَةِ لِغَيْرِ وَقْتِ إِينَاعِهَا كَالزَّارِعِ بِغَيرِ أَرْضِهِ“۔
“اے لوگو! فتنوں کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیر دو، اور منافرت کے راستوں سے الگ رہو، اور باہمی فخر کے تاج اتار ڈالو، کامیاب وہ ہے جو پروبال (مددگاروں) کے ساتھ اٹھے یا (اقتدار کی کرسی کو دوسروں کے) حوالے کرکے (لوگوں کو) راحت میں رکھے۔ (اِس وقت مددگاروں کے بغیر خلافت طلب کرنے کے لئے کھڑا ہونا) یہ ایک گندلا پانی اور ایسا لقمہ ہے جو کھانے والے کے گلوگیر ہوجائے گا۔ پھل کو پکنے کے وقت سے پہلے چننے والا، دوسروں کی زمین میں کاشت کرنے والے کی طرح ہے، تو اگر (خلافت اور اپنی صلاحیتوں کے بارے میں) بات کروں تو کہتے ہیں کہ حکومت کی لالچ رکھتے ہیں اور اگر چپ رہتا ہوں تو کہتے ہیں کہ موت سے ڈر گئے ہیں۔ افسوس اب یہ بات جب میں ہر طرح کے نشیب و فراز دیکھ چکا ہوں (اتنے غزووں میں حصہ لیا تو کیسے موت سے ڈر ہو)، اللہ کی قسم ابوطالبؑ کا بیٹا موت سے اس سے زیادہ مانوس ہے جتنا بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے مانوس ہوتا ہے۔ بلکہ (میں جو چپ ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے) سینہ کی تہوں میں ایک ایسا پوشیدہ علم ہے کہ اگر اسے ظاہر کردوں تو تم اسی طرح لرزنے لگوگے جیسے گہرے کنویں میں رسی لرزتی ہے۔ [نہج البلاغہ، خطبہ ۵]

* نہج البلاغہ، سید رضی علیہ الرحمہ، خطبہ ۵۔

تبصرے
Loading...