مقابلہ کے مختلف مراحل

مقابلہ کے مختلف مراحل

 

اسلامی حکومتوں پر ایسے افراد نے بھی حکومت کی ہے جواسلام اور عالم اسلام کی نظر میں قابل اطمینان نہیں تھے انھوں نے اسلام اور مسلما نوں کو بہت نقصان پہنچایا اہل بیت علیہم السلام نے اپنے دورکی اس طرح کی حکومتوں کا مقابلہ کیا ۔

اموی اور عباسی، مضبوط حکومتوں سے ٹکراتے رہنے کی بنا پرشیعہ ادب اور ثقافت میں واضح آثار رونما ہوئے اور اسی وقت سے اہل بیت علیہم السلام کی اتباع کر نے والے شیعوں کو رافضہ کے نام سے پہچا نا جانے لگا چونکہ انھوں نے بنی امیہ اور بنی عباس کے خلفا کی ولایت کا انکار کیا تھا ۔

شیعی سیاسی فکر اور شیعی سیاسی ادب کواس وقت سے رفض کا رنگ دیا گیا جب معاویہ نے حضرت امام حسن علیہ السلام سے مختلف بہانوں اور مکاریوں سے حکومت لی اور یہ رنگ بنی عباس کی حکومت کے اختتام تک باقی رہا۔

اس سیاسی جنگ اور سیاسی معارضہ کی اہل بیت علیہم السلام سے وارد ہونے والی دعاؤں میں واضح طور پر عکاسی کی گئی ہے خاص طورسے امام امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں چو نکہ ان دونوں اماموں کا دور تاریخ اسلام میں مقابلہ اور ٹکراؤ کاسب سے سخت دور تھا ۔

اور شاید اسی سبب کو حضرت امیر المو منین علی بن ابی طالب علیہ السلام اور آپ کے فر زند ارجمند حضرت امام حسین علیہ السلام سے مروی زیارتوں میں کثرت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔

اور ان دونوں اماموں سے واردہونے والی زیارتوں کادوسرے تمام ائمہ سے وارد ہو نے والی زیارتوں سے مقدار اور کیفیت میں فرق ہے ۔

اس سیاسی قضیہ کاخلاصہ زیا رتوں میں بیان ہواہے جیسا کہ ہم نے اس کا شہادت اور مو قف کے عنوان میںتذکرہ کیا ہے جن میں پہلاشہادت کے بارے میں ہے اور دوسرا سیاست کے متعلق ہے۔

ہم موقف کو شہادت کے بعد بیان کریں گے ۔

بیشک سیاسی موقف ہر جنگ اور اختلاف کے مو قع پر قضاوت کے دا ئرہ کا خلاصہ ہوتا ہے قضاوت حق دو جھگڑاکرنے وا لو ں کے در میان قا طع حکم کانام ہے، اس وقت اس حکم کی رو شنی میں جس کو قضاوت معین کرتی ہے اس سے سیاسی موقف معین ہو تا ہے ۔

ایسے میں سب سے انصاف کرنے والاخود انسان کا ضمیر ہوتا ہے وہ انصاف جس کو خدا نے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے ۔

اسی طرح اس الٰہی محکمہ میں اہل بیت علیہم السلام کے زائرکو یہ گوا ہی دینی پڑے گی کہ حق اہل بیت علیہم السلام کاحصہ ہے اور انھیں کے ساتھ ہے ،اور اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کے خلاف  یہ گواہی دے کہ وہ حق سے منحرف اور باطل کی طرف رجحان رکھنے والے تھے ۔

پھر اس گوا ہی کے راستہ پر ولایت ، برائت ،رو گردانی و سلام و لعنت کا موقف معین ہوتا ہے

اب ہم ذیل میں شہا دت اور مو قف میں سے ہر ایک کے سلسلہ میں اہل بیت علیہم السلام سے منقولہ زیارات کی چند عبارتوں کاتذکرہ کرتے ہیں :

الف:شہادت

مقابلہ کے پہلے مرحلہ میں رسالت کی گواہی

جناب عمار کی زبانی جنگ کی دو قسمیں ہیں ،ایک جنگ جو تنزیل قرآن پر ہوئی جو بدر اور احد میں ہو ئی تھی اور دوسری جنگ تا ویل قرآن پر ہو ئی جو جمل،صفین اور کربلا میں ہو ئی تھی یہ دو نوں جنگیں آج تک قا ئم ہیں اور یہ آ خر تک قائم رہیں گی ۔ہم پہلی جنگ کے سلسلہ میں حضرت رسول خدا  (ص) کی زیارت میں پڑھتے ہیں :

”میں شہادت دیتاہوں اے خدا کے رسول تمام شاہدوں کے ساتھ اورتمام منکروں کے مقابلہ میں کہ آپ نے اپنے پرور دگار کے پیغامات کو پہنچا یا ،اپنی امت کو نصیحت کی، راہ خدا میں جہاد کیا، اس کی راہ میں ہر زحمت کو برداشت کیا ،لوگوں کو  راہ خدا کی دعوت دی حکمت اور مو عظہ حسنہ کے ساتھ اوروہ سب کچھ ادا کردیا جو آپ کے ذمہ تھا، آپ نے مو منین پر مہربانی کی اور کافروںپر سختی کی اور خلوص سے اللہ کی عبادت کی یہاں تک کہ زندگانی کا خاتمہ ہوگیا خدا آپ کو بزرگ بندوںکی عظیم ترین منزل تک پہونچائے اورآپ کو مقربین کے بلند ترین مرتبہ پرفائزکرے اور مرسلین کے عظیم ترین درجہ تک پہنچادے جہاں تک کو ئی پہونچنے والا نہ پہنچ سکے اور کو ئی اس سے بالاتر نہ جاسکے اور کو ئی اس سے آگے نہ نکل سکے اورکسی میں اس منزل کوحاصل کرنے کی طمع بھی نہ ہو سکے“

احد کے شہیدوں کی قبروں کی زیارت کے سلسلہ میں پڑھتے ہیں :

”اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ حضرات نے راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کیا اور دین خدا اور رسول خدا سے دفاع کیا اور اپنی جان قربان کردی اور میں گو اہی دیتا ہوں کہ آپ لوگ رسول اللہ کے طریقہ پر دنیا سے گئے خدا آپ کو اپنے پیغمبر اور اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے بہترین جزادے اور ہمیں محل رضااور محل اکرام میں آپ کی زیارت نصیب کرے جہاں آپ انبیاء ،صدیقین ، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوں گے جوبہترین رفقاء ہیں “

مقابلہ کے دو سرے مر حلہ میں امام علیہ السلام کی گو اہی

اس گو اہی کو زائر تا ویل قرآن پر جنگ کر کے دا ئرئہ حدود میں ثبت کرتا ہے ہم ان فقروں کو امام امیر المو منین علیہ السلام کی زیارت کے سلسلہ میں اس طرح پڑھتے ہیں :

اللَّھُمَّ اِنِّیْ اَشْھَدُانّہُ قَدْبلَّغَ عن رسولک ماحمّل ورعیٰ مااستحفظ،وحفظ مااستودع،وحلل حلالک،وحرَّم حرامک،واقام احکامک،و جاھد الناکثین فی سبیلک،والقاسطین فی حکمک،والمارقین عن امرک،صابراً،محتسباًلاتاخذہ فیک لومة لائمٍ“۔

”خدایا میں گواہی دیتا ہوں کہ امیر المو منین نے تیرے رسول کی طرف سے دئے گئے بارکوپہونچا دیا اور اس کی رعایت کی جس کی حفاظت چا ہی گئی اور جو امانت رکھی گئی تھی اس کی حفاظت کی اور تیرے حلال کو حلال اور تیرے حرام کو حرام باقی رکھا اور تیرے احکام کو قائم کیا اورنا کثین( طلحہ اور زبیر)کے ساتھ تیری راہ میں جہاد کیااور قاسطین اور مارقین کے ساتھ تیرے حکم سے صبر اور تحمل کے ساتھ جہاد کیااور تیری راہ میں ملامت کرنے والوں کی ملامت کی کو ئی پرواہ نہیں کی “

رسول اسلام  (ص) کی بعثت کے دن سے مخصوص زیارت میں اس طرح پڑھتے ہیں :

کنت للمومنین ابارحیماً۔۔۔وعلیٰ الکافرین صباوغلظة وغیظاً،وللموٴمنین غیثاوخصباوعلما،لم تفلل حجّتک،ولم یزغ قلبک،ولم تضعف بصیرتک ولم تجبن نفسک کنت کالجبل،لاتحرّکہ العواصف،ولاتزیلہ القواصف،کنت کماقال رسول اللّٰہ قویافی بدنک،متواضعاًفی نفسک،عظیماًعند اللّٰہ،کبیراًفي الارض،جلیلاًفي السماء،لم یکن لاحد فیک مھمزولالخلق فیک مطمع ولا لاحد عنک ھوادہ،یوجد الضعیف الذلیل عندک قویاعزیزاًحتیّٰ تاخذلہ بحقہ والقوي العزیزعندک ضعیفاًحتیّٰ تاخذ منہ الحقّ “۔

”آپ مومنین کےلئے رحم دل باپ تھے ۔۔۔ آپ کافروں کے لئے سخت عذاب اور درد ناک سزا تھے اور مومنوں کےلئے باران رحمت ہریالی اور علم کی حیثیت سے تھے آپ کی حجت کند نہیں ہو ئی اور آپ کا دل کج نہیں ہوا آپ کی بصیرت کمزور نہیں ہوئی آپ کا نفس ڈرا نہیں آپ اس پہاڑ کے مانند تھے جس کو تیز ہوا ہلا نہیں سکتی اور آندھیاں اس کوہٹا نہیں سکتیں آپ ویسے قوی بدن تھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا اور اپنے نفس میں متواضع تھے اور خدا کے نزدیک عظیم تھے ،زمین میں کبیر تھے اور آسمان میں جلیل تھے آپ کے با رے میں کسی کے لئے نکتہ چینی کا مقام نہیں ہے اور نہ کسی کہنے والے کےلئے اشارہ ہے اور آپ کے با رے میں کسی مخلوق کو غلط طمع ہے اور نہ کسی کےلئے بیجا امید ہے اپ کے نزدیک ہر ضعیف و کمزور و ذلیل قوی اور عزیز رہتا ہے یہاں تک کہ آپ اس کےلئے اس کا حق لے لیں اور قوی عزت دار آپ کے نزدیک کمزور ہوتا ہے یہاں تک کہ اپ اس سے حق لے لیں ‘

دوسرے مر حلہ میں تاویل قرآن پر جنگ کرنے کی گواہی

اس کا پہلا حصہ تاویل کے دائرئہ میں جنگ صفین سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ کربلا سے متعلق ہے اور کربلا میں اس سلسلہ کی جنگ واضح وآشکار طور پر واقع ہوئی اس میں قلب سلیم رکھنے والے کےلئے کوئی شک وشبہ نہیں ہے اس کا ہروہ شخص گواہ ہے جس کے پاس دل ہے یا جو قوت سماعت کا مالک ہے ۔

اس جنگ میں امام حسین علیہ السلام اپنے ساتھ اپنے اہل بیت اور اصحاب میں سے بہتّرافرادنیز ایسی مو من جماعت کے ساتھ کھڑے ہوئے جو میدان کربلا میں کسی وجہ سے یا بلا وجہ غیر حاضر رہے ۔۔۔اور دوسری  طرف یزید آل امیہ اور ان کی شامی اور عراقی فوج نے قیام کیا ۔

اس جنگ میں کسی شک وشبہ کے بغیر دونوں طرف کے محاذ اچھی طرح واضح ہو جاتے ہیں چنانچہ امام حسین علیہ السلام نبوت کی ہدایت کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں اور یزید سر کشوں ،جباروں اور متکبروں کی بری شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے ۔

کربلا ان دونوں جنگوں کے مابین حد فاصل ہے واقعہٴ کربلا سے لیکر آج تک کسی پر اس جنگ کا امر ومقصد مخفی نہیں رہاہے اور وہ حق وباطل کی شناخت نہ کر سکا ہو مگر الله نے جس کی آنکھوں کا نور چھین لیا اس کے دلو ں اور آنکھوں پر مہر لگادی اور ان کی آنکھوں پر پر دے ڈالدئے ہیں ۔

اس جنگ کے دائرہ حدودمیں زائر حضرت امام حسین علیہ السلام فرزند رسول کےلئے نماز قائم  کر نے زکات ادا کرنے اور جھاد کر نے کی گواہی دیتا ہے اور اس کے بعد اس جنگ کے پس منظر کو بر قرار رکھتے ہوئے اس سلسلہ کو واقعہ کربلا کے بعد خدا کی طرف سے امامت ولایت اور قیادت سے متصل کر تاہے ہم اس گواہی کے سلسلہ میں بہت سے فقرے حضرت امام حسین السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں :

”اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آ پ نے اللہ کے اس پیغام کو پہنچایا جس کا اس نے آپ کو حکم دیاتھا اور آپ خدا کے علاوہ کسی سے خائف نہیں ہوئے اورآپ نے راہ خدا میں جہاد کیا اور اس کی خلوص کے ساتھ عبادت کی یہاں تک کہ آ پ کو موت آگئی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کلمہ ٴ  تقویٰ اور عروہ ٴ وثقیٰ اور اہل دنیا پر حجت ہیں اور میں گوا ہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے بندہ اور اس کے امین ہیں ، آ پ نے ناصحانہ انداز میں پیغام حق پہنچایا اور امانت کو ادا کیا آپ صدیق شہید کئے گئے ، اور یقین پر دنیا سے گئے ،ہدایت کے بارے میں کبھی گمراہی کو ترجیح نہیں دی اورکبھی حق سے باطل کی طرف مائل نہیں ہوئے میں گواہی دیتا ہوں کہ آ پ نے نماز قائم کی ،اور زکوٰة ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیابرائیوں سے روکااور رسول کا اتباع کیا اور قرآن کی تلا وت کی جوتلا وت کاحق تھا اورحکمت اور مو عظہ حسنہ کے ذریعہ اپنے رب کی راہ کی طرف بلایا،میں گواہی دیتا ہوںکہ آپ اپنے رب کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے اور جو آپ کو حکم دیا گیا تھاآپ نے اسی کو پہنچایا،اس کے حق کے ساتھ قیام کیاجس نے آپ کو قبول کیااس کی آپ نے اس طرح تصدیق کی کہ نہ اس کی کو ئی تو ہین ہواور نہ آپ کی تو ہین ہو ،میں گوا ہی دیتا ہوں کہ جہاد آپ کے ساتھ ہے اور حق آپ کی طرف ہے آپ ہی اس کے اہل اور اس کا معدن ہیں “

وارثت کی گواہی

یہی وہ امامت ہے جس کی ہم نے اس زیارت میں گواہی دی ہے اور وہ امامت حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد آپ کی نسل درنسل باقی رہے گی یہ امامت درمیان میں منقطع ہونے والی نہیں ہے یہ امامت ائمہٴ توحید کی امامت ہے جو تاریخ میں حضرت امام حسین علیہ السلام سے مستقر ہوئی ہے حضرت آدم حضرت نوح   اور حضرت ابراہیم سے رسول خدا  (ص) حضرت علی  اورامام حسن تک پہنچی ہے حضرت امام حسین علیہ السلام اس امامت کی تمام ارزشوں اور ذمہ داریوں کے وارث ہیں :

(۱)

”اللہ نے آدم ،نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو منتخب کرلیا ہے یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور اللہ سب کی سننے والا اور جا ننے والا ہے “

حضرت امام حسین علیہ السلام کر بلا میں اس وارثت کے عہدہ دارتھے :امام حسین علیہ السلام اس عظیم میراث کو کر بلا تک لے گئے تا کہ لوگ اس کے ذریعہ دلیل پیش کریں اس کا دفاع کریں اس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورئہ آلِ عمران آیت/۳۳۔۳۴ ۔

کی مخالفت کر نے والوں سے جنگ کریں یہ بلاغ المبین اسی رسالت کےلئے ہے جس میراث کو حضرت امام حسین علیہ السلام نے آل ابراہیم اور آل عمران سے پایا تھا ۔

اس معرکہ کے وسط میں زائر حضرت امام حسین علیہ السلام کےلئے گواہی دیتا ہے:

۱۔اس مقام پر واضح طورپر یہ ثابت ہوجا تا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی یزید سے جنگ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نمرود سے مقابلہ اسی طرح حضرت موسیٰ کا فرعون سے ٹکراؤ اور  رسول خدا  (ص)کی ابو سفیان سے مخالفت نیز حضرت علی کی معاویہ سے جنگ میں کوئی فرق نہیں ہے۔

۲۔تمام مرحلوں میں اس جنگ کا محور، روح توحید ہے ۔

۳۔جو میراث حضرت امام حسین علیہ السلام کو آل ابراہیم اور آل عمران سے ورثہ میں ملی جس کےلئے آپ نے کربلا کے میدان میں قیام کیا وہ میراث آپ کے بعد آپ کی ذریت میں موجود رہی انصار جنھوں نے امام حسین علیہ السلام کا اتباع کیااسی طرح یہ میراث ان کے تابعین جو آل   ابرا ہیم اور آل عمران کی راہ سے ہدایت حاصل کرتے رہے ان میں باقی رہی۔

ہم صالحین کی وراثت کے سلسلہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کےلئے زیارت وارثہ کے جملے پڑھتے ہیں :

”سلام آپ پر اے آدم صفی اللہ کے وارث ،سلام آ پ پراے نوح نبی خدا کے وارث، سلام آپ پر اے ابراہیم خلیل خدا کے وارث،سلام آپ پراے مو سیٰ کلیم اللہ کے وارث ،سلام آپ پر اے عیسیٰ روح اللہ کے وارث ،سلام ہوآ پ پر اے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ حبیب خدامحمدمصطفےٰ کے وارث،سلام ہو آپ پر اے امیرالمو منین ولی اللہ کے وارث “

آل ابراہیم اور آل عمران کی اس وراثت کی اگر چہ قرآن کی آیت کے مطابق ایک نسل ذریت کی طرف نسبت دی گئی ہے :

(۱)

”یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے “

مگر یہ کہ یہ رسول خدا  (ص)اور مو لا ئے کائنات کی جانب فرزندی کی طرف ذریتی انتساب کے عنوان کے علاوہ ایک اور عنوان ہے کیونکہ یہ عنوان براہ راست اس شہادت کے بعد وارد ہوا ہے :

”السلام علیک یابن محمّد المصطفیٰ ،السلام علیک یابن علی المر تضیٰ السلام علیک یابن فاطمة الزھراء السلام یابن خدیجة الکبری “

”سلام آپ پر اے محمد مصطفے ٰ کے فرزند سلام آپ پر اے علی مر تضیٰ کے دلبند سلام آپ پر اے فاطمہ زہرا کے لخت جگر سلام آپ پر اے خدیجة الکبریٰ کے فرزند “

شاہد ومشہود 

زیارتوں میں گواہی سے متعلق روایات میں شاہد اور مشہود کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے ان گواہیوں میں زائر جس کی زیارت کر رہا ہے اس کی گواہی دیتا ہے :

”بیشک آپ نے نماز قائم کی زکوٰة ادا کی اورنیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور اللہ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورئہ آل عمران آیت/۳۴۔

راہ میں جہاد کیا جو جہاد کا حق تھا “

پس زائر شاہد اور جس کی زیارت کر رہا ہے وہ مشہودلہ ہے اور اس کا عکس بھی صحیح ہے

بیشک الله کے انبیاء علیہم السلام اس کے رسول اور ان کے اوصیاء امتوں پر شاہد ہیں اور رسول الله  (ص) ان کے اوصیاء اس امت کے شاہد ہیں۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے:(۱)

”اور قیامت کے دن ہم ہر گروہ کے خلاف انھیں میں کا ایک گواہ اٹھائیں گے اور پیغمبر آپ کو ان سب کا گواہ بنا کر لے آئیں گے ۔۔۔“

(۲)

”اے پیغمبر ہم نے آپ کو گواہ،بشارت دینے والا ،عذاب الٰہی سے ڈرانے والا“

(۳)

”اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے تا کہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمہا رے اعمال کے گواہ رہیں “

(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورئہ نحل آیت/۸۹۔

(۲)سورئہ احزاب آیت/۴۵۔

(۳)سورئہ بقرہ آیت/ ۱۴۳۔

(۴)سورئہ آل عمران آیت/۱۴۰۔

”تا کہ خدا صاحبان ایمان کو دیکھ لے اور تم میں سے بعض کو شہداء قرار دے اور وہ ظالمین کو دوست نہیں رکھتا ہے “

(۱)

”وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء ،صدیقین،شہداء اور صالحین “

پس زائر ین شاہد کی منزل سے مشہود کی منزل میں پہونچ جاتے ہیں اسی طرح مشہود لہ جن کے لئے ہم   نماز زکات، امر بالمعروف اور جہاد کی گو اہی دیتے ہیں وہ شاہد بن جاتے ہیں ۔

زیارتو ں میں واردہوا ہے :

اور حضرت امیرالمو منین علیہ السلام کی آٹھویں زیارت میں آیا ہے :

”اور جس مقصد پر آپ تھے اسی پر شہید ہوئے اور شاہد و مشہود ہوئے “

ب:الموقف

شہادت کے فیصلہ میں حکم کا تابع ہے ۔

اور حکم سیاست میں موقف کاتابع ہوتا ہے ۔

مو قف کو واضح و صاف شفاف اورقوی ہونا چاہئے نیز نفس کو قربانی اور فدا کاری کے لئے آمادہ ہو نا چاہئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورئہ نساء آیت/۶۹۔

اور مسلمانوں کی تاریخ صفین اور کربلا جیسے واقعات میں ان افراد سے مخصوص نہیں ہے جو اس حادثہ کے زمانہ میں مو جود تھے بلکہ یہ مو قف خوشنودی ،رضایت ،محبت اور دشمنی کا لحاظ ان افراد کے لئے بھی ہوگا جو اُس حادثہ کے زمانہ میں موجود نہیں تھے۔

تاریخ میں یہ ایام فرقان کی خصوصیات میںسے ہے جن میں لوگ دو ممتازمحاذوں میں تقسیم ہوجا تے ہیں اور ان میں سے ہر ایک سے اختلاف بر طرف ہوجاتا ہے جس کی بناء پر حق اور باطل کسی شخص پر مخفی نہیں رہ جاتامگر یہ کہ الله نے اس کے دل،کان اور آنکھ پر مہر لگا دی ہو ۔

یہ ایام لوگوںکو دو حصوں میںتقسیم کرتے رہے ہیں اور اُن کو تاریخ میںخو شنودگی ناراضگی، محبت اور دو ستی کی بنا پردو حصوں میں تقسیم کرتے رہے ہیں اور تیسرے فریق کو میدان میں چھوڑتے رہے ہیں صفین اور کربلا انھیں میں سے ہے۔

جو شخص بھی دونوںبر سر پیکار فریقوں کو درک کرکے بدر ،صفین اور کربلا کے واقعہ کاجا ئزہ لے وہ یا تو اِس فریق کی طرفدار ی کرے گا اوراس محاذمیں داخل ہو جا ئیگا یا دوسرے فریق کی طرفداری کرے گااور دوسرے محاذ میں داخل ہو جائیگا اس کو ان دونوں میں سے کسی ایک سے مفر نہیں ہے اور یہی مو قف ہے ۔

خداوندعالم سید حمیری پر رحم کرے جنھوں نے اس تاریخی پہلو کو حق اور باطل کے درمیان  ہو نے والی جنگ کو اشعار میں بیان کیا ہے :

انی ادین بما دان الوصی بہ                یوم الربیضة من قتل المحلینا

وبالذی دان یوم النھر دنت لہ          وصافحت کفہ کفی بصفینا

تلک الدماء جمیعاربّ فی عُنُقی     ومثلہ معہ آمین آمینا

”میں جنگ جمل کے دن اسی مو قف کا حامل ہوں جس کو مو لائے کائنات نے اختیار کیا تھایعنی مخالفین کو قتل کرنا “

”اور نہروان کے دن بھی ایسے ہی مو قف کا حامل ہوں اورمیرا یہی حال صفین کے سلسلہ میں ہے “

”پروردگار وہ سارے خون میری گردن پر ہیں اور مو لائے کائنات کے ساتھ ایسے وقائع میں ہمراہی کےلئے میں ہمیشہ آمین کہتا رہتا ہوں “

جو کچھ صفین اور کربلا کی جنگ میں رونما ہوا وہ حقیقی اور آمنے سامنے کی جنگ تھی جو مصاحف کے اٹھ جانے اور حکمین کے صفین میں حکم کرنے اور کر بلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے شہید ہوجانے سے منقطع نہیں ہوئی بلکہ صفین اور کر بلا کو مخصوص طور پر یاد کیا جانے لگا اس لئے کہ یہ ہمارے نظر یہ کے مطابق تاریخ اسلام میں حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کر نے والی جنگیں تین ہیں جنگ بدر ،صفین اور کر بلا تاریخ اسلام میں ان ہی تینوں کو ایام فرقان کہا جاتا ہے ۔

یہ جنگ آج بھی فریقین کے درمیان اسی طرح باقی وساری ہے ۔۔۔یہ تاریخ ہے۔ اگرچہ تاریخ موجود ہ امت کےلئے یہی سیاسی اور متمدن تاریخ کی ترکیب شدہ شکل ہے اور ماضی (گزرے  ہو ئے زما نہ) اور موجود ہ زمانہ میں فاصلہ ڈالنا نہ ممکن ہے اور نہ ہی صحیح ہے ۔چونکہ فرزند اپنے آباء و اجداد سے ”مواقع“ اور” مواقف “میں میراث پاتے ہیں ۔موقف سے ہماری مراد تاریخ میں حادث ہونے والے واقعات ہیں اور واقعہ حادث ہونے کے وقت انسان پر اپنے رفتار وگفتار سے عکس العمل دکھا نا واجب ہے اس کو موقف کہا جاتاہے۔تو جب یہ جنگ ثقافتی جنگ تھی اور سمندر کے کسی جزیرہ یا زمین کے کسی ٹکڑے سے مخصوص نہیں تھی تو یہ جنگ یقینا ایک نسل سے دو سری نسل کی طرف منتقل ہوگی  ما ضی کو پارہ کر کے حال سے متصل ہو جا ئیگی اور اس کو اولاد اپنے آباء و اجداد سے میراث میں پائیگی ایسی صورت میں مو قف کو موقع سے جدا کرنا ممکن نہ ہوگا جس کی بنا ء پر یہ مواقع مو جودہ نسل کی طرف دونوں بر سر پیکار فریقوں میں سے ہر ایک کے مو قف کی حمایت کی بناء پرمنتقل ہو جا ئیں گے ۔

یہ میراث ایک فریق سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جس طرح مو اقع و مو اقف سے صالحین کو صالحین کی میراث ملتی ہے اسی طرح مستکبرین اور ان کی اتباع کرنے والے مستکبرین کے مو اقع اور مواقف کی میراث پاتے ہیں ۔ہم اہل بیت علیہم السلام سے مروی روایات میں واضح طور پر مواقف کی میراث کا مختلف صورتوں میں زیارتوں میں مشا ہدہ کرتے ہیں ہم ذیل میں ان کے کچھ نمونے پیش کرتے ہیں :

ولایت و برائت

اس کا آشکار نمونہ او لیاء الله سے دو ستی اور خدا کے دشمنوں سے دشمنی کرنا ہے اس دو ستی اور دشمنی کا مطلب ان جنگوں اور ٹکراؤ سے خالی ہو نا نہیں ہے بلکہ یہ تو اس کا ایسا جزء ہے جو اِن جنگوں میںسیاسی مو قف سے جدا نہیں ہو سکتا جس کو اسلام نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ہم دو ستی کے سلسلہ میں زیارت جا معہ معروفہ میں پڑھتے ہیں :

”میں خدا کو اور آپ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں آپ پراور ہر اس چیزپر ایمان رکھتا ہوں  جس پر آپ کاایمان ہے ،آپ کے دشمن کا اور جس کا آپ انکار کردیں سب کا منکر ہوں آپ کی شان کو اور آپ کے دشمن کی گمرا ہی کو جانتا ہوں ۔آپ کا اور آپ کے اولیاء کا دوست ہوں اور آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں اور ان سے عداوت رکھتا ہوں اس سے میری صلح ہے جس سے آپ نے صلح کی ہے اور جس سے آپ کی جنگ ہے اس سے میری جنگ ہے جسے آپ حق کہیں وہ میری نظرمیں بھی حق

ہے اور جس کو آپ باطل کہیں وہ میری نظرمیں بھی باطل ہے “

زیارت حضرت امام حسین علیہ السلام میں پڑھتے ہیں :

”خدا یا!اس قوم پر لعنت کرے جس نے آپ کے اہل بیت پرظلم وجورکئے اور اس قوم پرلعنت کرے جس نے آپ کو آپ کے مقام سے ہٹادیا اور اس جگہ سے گرادیا جس منزل پر خدا نے آپ کورکھا تھا “

اور

”خدایا !اس پہلے ظالم پر لعنت کر جس نے محمد وآل محمد پر ظلم کیا ہے اور اس کا اتباع کرنے والے ہیں ۔خدایا !اس گروہ پر لعنت کر جس نے حسین  سے جنگ کی اورجس نے جنگ پراس سے اتفاق کر لیا اورقتل حسین پرظالموں کی بیعت کرلی “

زیارت عاشوراء غیر معروفہ میں آیا ہے :

”خدایا ! یہ وہ دن ہے جب تیرا غضب تازہ ہوتاہے اور تیری طرف سے لعنت کا نزول ہوتا ہے یزید، آل زیاد، عمر بن سعد اور شمر پر۔خدایا ان سب پر لعنت کر اور ان کے قول و فعل پر راضی ہوجانے والوں پر بھی لعنت کر چاہے اولین میں ہوںیا آخرین میں سے کثیر لعنت فرما اور انھیں آتش جہنم میں جلادے اور دوزخ میں ساکن کردے جو بدترین ٹھکانا ہے اور ان کے لئے اور ان کے تمام اتباع اور پیروی کرنے والوں اور ان کے فعل سے راضی ہوجانے والوں کے لئے ان لعنتوںکے دروازے کوکھول دے جوتو نے کسی ظالم ،غاصب ،کافر، مشرک اور شیطان رجیم یا جبار و سرکش پرنازل کی ہے۔ خدا لعنت کرے یزید و آل یزید اور بنی مروان پر خدایا اپنے غضب اپنی ناراضگی اوراپنے عذاب و عقاب کومزید کردے ا س پہلے ظالم پرجس نے اہل بیت پیغمبر پر ظلم کیاہے اورپھر ان کے تمام ظالموں پر لعنت کر اور ان سے انتقام لے کہ تو مجرمین سے انتقام لینے والا ہے “

رضا اور غضب

دو ستی اور دشمنی میں رضا اور غضب بھی داخل ہے :رضا یعنی جس سے او لیا ء اللہ راضی ہو تے ہیں غضب جن سے اولیاء الله غضب ناک ہوتے ہیں ۔

خوشی اور غضب ،محبت اور عداوت ایمان کی واضح نشانیاں ہیں اور ان کے ستون میں سے ہیں یہ سیاسی موقف کےلئے عمیق فکر ہے ان دونوں (رضااور غضب) کے بغیر سیاسی موقف مضمحل اور پائیدار نہیں ہے ۔

یہ وہ رابطہ اور ذاتی ایمان ہے جو سیاسی موقف کو عمق ،مقاومت اور استحکام عطا کرتا ہے رضا اور غضب کے سلسلہ میں زیارت صدیقہ فاطمة الزہرا علیہا السلام میں آیا ہے :

”میں اللہ، رسول اور ملا ئکہ کو گواہ بناکرکہتا ہوں کہ میں اس شخص سے راضی ہوں جس سے آپ راضی ہیں اورہر اس شخص سے ناراض ہوں جس سے آپ ناراض ہیں ہراس شخص سے بیزارہوں جس سے آپ بیزار ہیں آپ کے چاہنے والوں کا چاہنے والا آپ کے دشمنوںکا دشمن، آپ سے بغض رکھنے والوں کادشمن اورآپ سے محبت کرنے والوںکادوست ہوں “

اور زیارت کے دوسرے فقر ے میں آیاہے :

”میں آپ کے دوستوں کا دوست ہوں اور آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں جو آپ سے جنگ کرنے والے ہیں اس سے ہماری جنگ ہے “

سلم اور تسلیم

موقف کی خصوصیات میں سے سلم اور تسلیم ہے تسلیم کا سلم وصلح سے بلند مر تبہ ہے لہٰذا موقف میں سب سے پہلے مسالحت صلح ہونی چاہئے اور سلم میں اللہ ،رسول اور اولیاء اللہ اور اس کے صالحین بندوں کی اتباع کی جا ئے :

(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورئہ بقرةآیت /۲۰۸۔

”ایمان والو تم سب مکمل طریقہ سے اسلام میں داخل ہو جاؤ “

اس سے چیلنج کو شامل نہ کیا گیا ہو:

(۱)

”کیا یہ نہیں جانتے ہیں کہ جو خداو رسول سے مخالفت کرے گا اس کیلئے آتش جہنم ہے اور اسی میں ہمیشہ رہنا ہے “

نہ اللہ کے سامنے سرکشی اور استکبار کیا جا ئے :

(۲)

”اور اس میں سرکشی اور زیادتی نہ کرو کہ تم پر میرا غضب نازل ہو جائے “

مخالفت نہ ہو :

(۳)

”اور ظالمین یقینابہت دور رس نا فر مانی میں پڑے ہوئے ہیں “

دو سرے مر حلہ میں اس مو قف کو رسول اور مسلمین کے امور کے سر پرستوں سے تسلیم کی اطاعت پر قائم ہو نا چا ہئے صلح اور تسلیم میں سے ہر ایک کو انسان کی نیت ،قلب ،عمل اور رفتار میں ایک ہی وقت میں رچ بس جانا چا ہئے صلح ،تسلیم اور پیروی دل سے ہو نی چا ہئے اور جب ایسی صورت حال ہواور سیاسی مو قف ،نیت ،عمل اور با طن و ظا ہر میں صلح و تسلیم سے متصف ہو تو لو گ اکٹھا ہو کر اس مو قف کو اختیار کریں اور اس مو قف کے لوگ اس کے خلاف موقف والوں کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ۔ایسی صورت میں مو من انسان اکیلا ہی ایک امت شمار ہوگا جو امت کا پیغام لیکر قیام کرتا ہے اور وہ امت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورئہ توبةآیت/ ۶۳۔

(۲)سورئہ طہ آیت /۸۱ ۔

(۳)سورئہ حج آیت ۵۳۔

طرح پائیدار اور مضبوط ہو گاجیسا کہ ہمارے باپ ابوالانبیاء جناب ابراہیم علیہ السلام اکیلے ہی قرآن کی نص کے مطابق ایک امت تھے :

(۱)

”بیشک ابراہیم ایک مستقل امت اور اللہ کے اطاعت گذار اور باطل سے کتراکر چلنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے “

اور صلح و سلا متی کے بغیر تاریخ میں کو ئی مو قف رونما نہیں ہو تا اور اگر ہم مو قف کو صلح و سلا متی سے خالی کردیں تو مو قف کالعدم ہو جائیگا صلح تسلیم خدا و رسول اور مسلمانوں کے پیشواؤں کی ہر بیعت کی جان ہے کیونکہ بیعت کا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کی عطا کردہ ہر چیز منجملہ محبت، نفرت ، جان ،مال اور اولاد کو یکبارگی خداوند عالم کے ہاتھوں فروخت کردے اوروہ دل خداوند عالم کیلئے ہر چیز سے خالی ہو جا ئے ،پھر اس کے بعد اپنے معا ملہ پر نہ حسرت کرے اور ہی اپنے کام میں شک کرے  کیو نکہ وہ اب ہر چیز خداوند عالم کے ہاتھوں بیچ چکا ہے اور اس کی قیمت لے چکا ہے لہٰذا نہ معا ملہ فسخ کرسکتا ہے اورنہ فسخ کرنے کامطالبہ کرسکتاہے اوریہ سودمندمعاملہ ہے یہ امور مسلمین کے سرپرستوں اور  مو منین کے پیشواؤں کے مو قف کی جان ہے جنھوں نے اس سلسلہ میں اہل بیت علیہم السلام ج(و مسلمانوں کے امام ہیں) کی زیارت میں انے والی عبارتوں پر غور کریں ۔

رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی زیارت میں آیاہے :

” میرا دل آپ کے سامنے سراپاتسلیم ہے اور میری نصرت آ پ کےلئے حاضر ہے یہاں تک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورئہ نحل آیت /۱۲۰۔

کہ پروردگاراپنے دین کا فیصلہ کردے تو میں اپ کے ساتھ ہوں آپ کے دشمنوں کے ساتھ نہیں “

حضرت امام حسن علیہ السلام کی زیارت میں واردہوا ہے :

”میں نے خداوند عالم کی دعوت پر لبیک کہی اے اللہ کی طرف بلانے والے اگر چہ میرے جسم نے آپ کے استغاثہ کے وقت لبیک نہیں کہی اور میری زبان نے آپ کے طلب نصرت کے وقت جواب نہیں دیا لیکن میرے دل ،کان اور آنکھ نے لبیک کہی “

زیارت حضرت ابو الفضل العباس :

”میرا دل آپ کے سامنے جھکا ہے اور تابع فرمان ہے اور میں آپ کا تابع ہوں اور میری مدد آپ کے لئے تیار ہے یہاں تک کہ خدا فیصلہ کردے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے “

زیارت حضرت امام حسین علیہ السلام روز اربعین :

”اور میرا دل آپ کے سامنے سراپا تسلیم ہے اور میرا امر آپ کے امر کے تابع ہے اور میری مدد آپ کے لئے تیار ہے یہاں تک کہ اللہ آپ کو اجا زت دے تو ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کے دشمنوں کے ساتھ نہیں ہیں “

یہ معیت جس کو زائر اپنے موقف اور ائمہ مسلمین سے دوستی کے ذریعہ آمادہ وتیار کرتا ہے یہ موقف اور دوستی کی روح ہے ۔ان کی خوشی وغم، صلح وجنگ آسانی عافیت اور سختی ومشکل میں ساتھ رہنا دنیا میں ان کے ساتھ رہنا انشاء الله آخرت میں ان کے ساتھ رہنا ہے ۔

انتقام کےلئے مدد کی دعا

موقف کے مطالبوں میں سے ایک مطالبہ مدد کےلئے دعا مانگنا ہے ۔جب مو قف کا سر چشمہ سچا دل ہوگا تو انسان اللهسے مسلمانوں کے امام اور مسلمانوں کی مددکےلئے ہر وسیلہ سے دعا مانگے گا دعاکے ان وسائل میں سے ایک وسیلہ الله کی بارگاہ میں حاضر ہوکر دعا مانگتا ہے اور دعا ان وسائل میں سے سب سے افضل اور بہترین وسیلہ ہے مگر دعا عمل ،عطا اور قربانی دینے سے مستغنی نہیں ہے ۔

سیاسی موقف کے ستون کے لئے اس مضمون کی دعا اہلبیت علیہم السلام سے وارد ہونے والی دعا ؤں میں ہے اور ہم ذیل میں اس دعا کے چند نمونے پیش کرتے ہیں :

ہم آل محمد علیہم السلام سے مہدی منتظر عجل الله فرجہ الشریف کی زیارت میں پڑھتے ہیں :

”خدا یا! اپنے ولی کی نصرت فرما اور ان کے ذریعہ دین کی مددفرما اپنے اولیاء اور ان کے اولیاء  کی مدد فرما ۔۔۔اور ان کے ذریعہ عدل کو ظاہر فرما نااور اپنی نصرت سے ان کی تائید فرمانا ان کے ناصروں کی مدد کرنا اور ان کو رسوا کرنے والوں کو ذلیل کر اور دشمنوں کی کمر توڑدے تمام جابر کافروں کی کمر توڑ دے تمام کفار و منافقین اور تمام ملحدین کوفنا کردے ۔۔۔اور ان کے ذریعہ زمین کو عدل سے بھردے اور ان کے ذریعہ اپنے نبی کے دین کو غالب فرما“

حضرت امام مہدی عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کےلئے دعاؤں کے چند نمونے :

”بار الٰہا! تو نے اپنے دین کی، ہر زمانہ میں ایسے امام کے ذریعہ نصرت کی ہے جس کو تو نے اپنے بندوں کےلئے منصوب فر مایا اپنی مملکت میں منارئہ ہدایت قرار دیا اس کے بعد جبکہ تو نے اس کو اپنی رضا تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا با ر الٰہا لہٰذا اپنے ولی کو اپنے اوپر نا زل ہو نے والی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کی تو فیق عطا فرما اور اس سلسلہ میں ہم کو بھی شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اپنی جانب سے اس امام کو کامیاب حکو مت عطا فرما آسانی کے ساتھ فتح و نصرت عطا فرما اپنے مضبوط ارکان کے ذریعہ اس کی مدد فرما اس کو ہمت دے ،اس کو قوی کر ، اس کی نگرانی کر ،اپنے ملائکہ کے ذریعہ اس کی مددکر، اپنے فاتح لشکر کے ذریعہ ظفریاب کر ،اس کے ذریعہ اپنی کتاب ،حدود شریعت اور اپنے رسول کی سنتوں کو قائم کر ،اس کے ذریعہ اپنے دین کی ان نشانیوں کو زندہ کر جن کو ظالمین نے مردہ کر دیا ہے، اس کے ذریعہ اپنی راہ سے انحراف کی جِلا بخش ،اس کے ذریعہ اپنی تاریک راہ کو رو شن کر ،اس کے ذریعہ اپنی راہ سے دو ری اختیار کرنے والو ں کو نا بود کر ،اس کے ذریعہ تیرا بیجا طور پر قصد کرنے والوں کو فنا کردے ،اس کو اپنے دو ست داروں کےلئے خوش اخلاق کردے اس کو اپنے دشمنوں پر مسلّط کردے اس کی محبت سے ہم کو بہرہ مند فرما ،ہم کو اس کا اطاعت گذار قرار دے اس کی رضا کے سلسلہ میں کو شش کرنے والا قرار دے اس کی مدد اور دفاع کرنے کے سلسلہ میں آمادہ کردے “

نیز زیارت امام صاحب الزمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی زیارت میں پڑھتے ہے :

وآمن بہ البلادواھدبہ العباد،اللّھم املاٴبہ الارض عدلاًوقسطاًکماملئت ظلماًوجوراً>

”خدایا!جس کا تونے وعدہ کیا ہے اسے اپنے نبی کیلئے پورا کردے خدایا! اس کے کلمہ کو ظاہر  کر دے اور اس کی دعوت کی آواز کو بلند کر اور اس کے اور اپنے دشمن کے مقابلہ میں اس کی مدد فرما۔۔۔خدایا !اس کی غلبہ عطا کرنے والی مدد سے مدد کر اور اس کو آسانی سے مکمل فتح عطا کر خدایا! اس کے ذریعہ سے گمنامی کے بعد دین کو غلبہ عطا کر اور اس کے ذریعہ حق کو ڈوبنے کے بعد طالع کر اور اس کے ذریعہ سے ظلمت کو نورانیت عطا کر اور اس کے ذریعہ مشکلات کو دور فرمااور خدایا اس کے ذریعہ شہروں کوامن عطا کر اور بندوں کی ہدایت کر خدایا اس کے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے بھردے جبکہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو “

تبصرے
Loading...