امتحان کے وقت دینداروں کی قلت

خلاصہ: حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی ایک حدیث کی روشنی میں بیان کیا جارہا ہے کہ امتحان کے وقت انسان کی دینداری معلوم ہوجاتی ہے۔

امتحان کے وقت دینداروں کی قلت

      حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: اِنَّ النّاسَ عَبيدُ الدُّنْيا وَ الدِّينُ لَعِقٌ عَلى اَلْسِنَتِهِمْ يَحوطونَهُ ما دَرَّتْ مَعایِشُهُمْ فَاِذا مُحِّصوا بِالْبَلاءِ قَلَّ الدَّيّانونَ”، “یقیناً لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین ان کی زبانوں پر چھوٹا سا لقمہ ہے (ان کا دین صرف ان کی زبان کی باتیں ہیں)، وہ دین کی حفاظت کرتے ہیں جب تک ان کی زندگی (دین کے دارومدار پر) چلتی رہے، تو جب امتحان سے آزمائے جائیں تو دیندار کم ہوجاتے ہیں”۔ [بحارالانوار، ج۴۴، ص۳۸۳]
دینداری کے دعویدار بہت زیادہ ہیں، لیکن صرف تب تک اپنے دعوے پر باقی رہتے ہیں کہ دین کے ذریعے ان کی دنیا کو کوئی نقصان نہ ہو۔ اگر ایسی صورتحال بن جائے کہ دین کی حفاظت کرنے سے وہ اپنی دنیا دے بیٹھیں تو ایسے موقع پر دیندار کم ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو ووٹ دینے کی وجہ سے رشوت کھانا اور غلط فائدے اٹھانے کا راستہ بند ہوجائے تو دیندار کم ہوجاتے ہیں۔
جب تک اسلام اور اسلامی نظام اور حکومت کی حمایت کرنے سے ان کی نفسانی خواہشات پوری ہوتی رہیں اور عیاشی کرتے رہیں تو ان سب کے لئے اسلامی نظام کا دعویدار بننا آسان ہے، لیکن ایسے حالات بن جائیں کہ ان سب کاموں سے دستبردار ہونا پڑے، دین کی حفاظت کے لئے منصب اور سِمت کو نظرانداز کرنا پڑے، مالی فائدے کم ہوجائیں اور نفسانی خواہشات کی روک تھام کرنی پڑے تو کیا پھر بھی دیندار اور اسلامی نظام کے حامی رہیں گے؟

* ماخوذ از: در پرتو آذرخش، ص ۲۳، آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی، قم، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی رحمہ اللہ، ۱۳۸۱۔

تبصرے
Loading...