اللہ کی بارگاہ میں حاضری ۔ مناجات شعبانیہ کی تشریح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مناجات شعبانیہ جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل ہوئی ہے اور اس مناجات کو سب ائمہ اطہار (علیہم السلام) پڑھا کرتے تھے، اس سلسلہ میں چھٹا مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ ابوالائمہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) محمدؐ و آل محمدؐ پر صلوات بھیجتے ہوئے مناجات کو شروع کرتے ہیں، اس کے بعد بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: وَ اسْمَعْ دُعَائِی إِذَا دَعَوْتُك وَ اسْمَعْ نِدَائِی إِذَا نَادَیتُك وَ أَقْبِلْ عَلَی إِذَا نَاجَیتُك، فَقَدْ هَرَبْتُ إِلَیك وَ وَقَفْتُ بَینَ یدَیك، “اور میری دعا سن جب تجھے پکاروں اور میری آواز (نداء) سن جب تجھے آواز (نداء) دوں اور میری طرف توجہ فرما جب تجھ سے رازونیاز (مناجات) کروں، تو تیری طرف بھاگ آیا ہوں اور تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں”۔ اس مضمون میں وَ وَقَفْتُ بَینَ یدَیك کے فقرہ کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے۔

الفاظ کی تشریح
وَقَفْتُ: وقوف کے یہ معنی بتائے گئے ہیں: “الوُقُوف‏ خلاف الجُلوس‏”[1]، “وقوف یعنی بیٹھنے کے برعکس”، لہذا وقوف کے معنی ہیں کھڑے ہونا۔
“بَینَ یدَیك”: لغوی لحاظ سے اس کے معنی “دو ہاتھوں کے درمیان ہونا” ہے، لیکن اس سے مراد نزدیک ہونا ہے۔ راغب کا کہنا ہے کہ “هذا الشّى‏ء بَيْنَ‏ يَدَيْك‏” یعنی “یہ چیز تمہارے قریب ہے”۔ علامہ طبرسیؒ نے آیت الکرسی کی تفسیر کرتے ہوئے کہا ہے: “بَيْنَ‏ يَدَيْه‏” یعنی “اُس کے پاس ہے”۔[2] انسان کسی کے حضور میں چند طریقوں سے کھڑا ہوسکتا ہے: ۱۔ اس کی دائیں طرف۔ ۲۔ اس کی بائیں طرف۔ ۳۔ اس کے بالکل سامنے۔ صرف اسی تیسری صورت میں دوسرے شخص سے مکمل طور پر سامنا کیا جاسکتا ہے، اس طرح کے سامنا کرنے کو عربی میں “بَینَ یدَیْہ” کہا جاتا ہے۔ لہذا مناجات کے اس جملہ سے کنایۃً مراد یہ ہے کہ “تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں”۔
دیگر معصومین (علیہم السلام) کے کلام میں یہ جملہ: حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: “وَ قَدْ وَفَدْتُ إِلَيْكَ وَ وَقَفْتُ‏ بَيْنَ‏ يَدَيْكَ‏ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ الَّذِي شَرَّفْتَهُ رَجَاءً لِمَا عِنْدَك‏”۔[3]
نیز حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) اللہ تعالی سے طویل رازونیاز کرتے ہوئے یہ جملہ بھی اپنی مناجات میں عرض کرتے ہیں: “يَا سَيِّدِي مِنْكَ هَرَبْتُ إِلَيْكَ وَ وَقَفْتُ‏ بَيْنَ‏ يَدَيْكَ‏ مُتَضَرِّعاً إِلَيْكَ”[4]

مناجات کی تشریح
وَ وَقَفْتُ بَینَ یدَیك: جب زندگی کے بیابان میں مختلف طرح کے دشمنوں کے چنگل سے انسان نکلتا ہوا بھاگ کر باعظمت بارگاہ میں آجاتا ہے اور اس کی پناہ لے لیتا ہے تو اس بارگاہ کے مالک سے مکمل طور پر سامنا کرتا ہے تو کہتا ہے: “تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں”۔ اہل بیت  (علیہم السلام) دعا کے وقت اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر پاتے ہیں، اللہ سے رازونیاز کرتے ہیں، ان کی ساری توجہ اللہ کی طرف ہے، جیسا کہ حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: وَ أَقْبَلْتُ‏ بِكُلِّي‏ عَلَيْك‏[5]، “اور اپنے پورے وجود کے ساتھ تیری طرف متوجہ ہوا ہوں”۔ البتہ انسان ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں ہوتا ہے اور اولیاء اللہ ہمیشہ اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں پاتے ہیں، لیکن عبادت کی حالت میں خاص صفات پائی جاتی ہیں، اگرچہ سب لوگ اللہ کی بارگاہ میں ہی ہیں مگر بعض لوگوں کی زبان پر تو دعا ہوتی ہے، لیکن دل ساری دنیا میں گھوم رہا ہوتا ہے، اور بعض افراد جیسے اہل بیت (علیہم السلام) ایسے ہوتے ہیں جو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اور اپنے تمام وجود کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں اور اپنے آپ کو پروردگار کی بارگاہ میں پاتے ہیں، چاہے نماز اور دیگر عبادات کے وقت یا کھانے پینے اور زندگی کے دیگر کاموں کے وقت۔
اللہ کے حضور کا ادراک: عام طور پر لوگ عادی حالات میں اپنے اپنے کاموں اور خواہشات میں مصروف رہتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالی کو کم یاد کرتے ہیں، لیکن جب حالات بدل جائیں اور اضطرار اور مجبوری کی کیفیت طاری ہوجائے تو لوگ پروردگار کو زیادہ پکارنے لگتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ عادی حالات میں جن اسباب و وسائل کا لوگوں نے سہارا لیا ہوا تھا، اب وہ کٹ گئے اور لوگوں کو وہ اسباب فراہم نہیں ہیں کہ اب اپنی ضروریات کو پورا کرسکیں، لہذا اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔ یہاں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کو اکثر لوگ تب پکارتے ہیں جب ظاہری اسباب سے ناامید ہوجائیں، ایسی صورتحال میں دل کی اتھاہ گہرائی سے اللہ تعالی کو پکارتے ہیں، تو انہیں ایسی حالت میں اللہ کی بارگاہ میں حاضری دینا محسوس ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح اگر انسان عام حالات میں اور اسباب کی فراہمی کے باوجود اپنے آپ کو اللہ کا مضطر اور محتاج سمجھے تو کمال ہے، ورنہ اضطرار اور مجبوری کے موقع پر تو فرعون جیسے متکبر بھی اللہ کو پکارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اہل بیت (علیہم السلام) اور ان کے حقیقی پیروکار عام حالات میں بھی اپنے آپ کو اللہ کے محتاج اور مضطر سمجھتے ہیں، اسی لیے عادی حالات میں بھی اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر پاتے ہیں۔
اللہ کی بارگاہ میں حاضری کا ادراک نماز میں: اللہ کی بارگاہ میں حاضری کے ادراک کا ایک بہترین موقع، نماز میں ہے۔ جب انسان کسی شخص سے کھڑے ہوکر بات کررہا ہو تو اگر اپنا چہرہ اس سے پھیر لے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس شخص کی بات کو اہمیت نہیں دی۔ نماز میں انسان اپنے پروردگار سے گفتگو کرتا ہے، اگر نماز پڑھتے اپنا رُخ اللہ سے پھیر لے تو اس نے اللہ سے گفتگو کو اہمیت نہیں دی اور لاپرواہی کی ہے۔ البتہ اللہ تو جسم نہیں ہے کہ اس سے رخ موڑ لیا جائے، بلکہ اللہ سے تعلق اور رابطہ دل کے ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ اللہ ہر چیز پر احاطہ کیے ہوئے ہے اور صرف دل کے ذریعہ اس سے سامنا کیا جاسکتا ہے۔ اگر نماز میں دل کی توجہ کو اللہ سے ہٹا دیا جائے تو انسان نے نماز اور اللہ سے گفتگو کی اہمیت نہیں سمجھی۔ اگر کوئی شخص اللہ کا معتقد نہیں ہے تو یقیناً اللہ کی پرواہ نہیں کرے گا اور اپنے آپ کو اللہ کے حضور میں نہیں سمجھے گا، لیکن جو شخص اللہ کا معتقد ہے اور اللہ کی بارگاہ میں کھڑا ہے، اس کا لاپروہی کرنا نازیبا ہے۔
جس پروردگار نے اپنے لطف و کرم سے انسان کو اپنے حضور میں کھڑے ہونے کی اجازت دی ہے تا کہ انسان اس سے گفتگو اور رازونیاز کرے تو انسان اس فرصت کو غنیمت سمجھنے اور اس عظیم نعمت کا شکر ادا کرنے کے بجائے، اللہ سے غافل ہوجائے تو یہ عدم معرفت، حضور پروردگار کا ادراک نہ کرنے  اور ناشکری کی علامت ہے۔ جبکہ بڑی شخصیات کسی آدمی کو آسانی کے ساتھ ملاقات کی اجازت نہیں دیتیں، لیکن پروردگار عالم نے مخلوق سے محبت کی وجہ سے اپنے گھر کا دروازہ سب کے لئے کھول رکھا ہے، لہذا ہمیں نماز جیسی فرصت کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اپنے پورے وجود کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور توجہ صرف اللہ کی طرف رہنی چاہیے۔
بارگاہ الہی میں حضور کی علامت: ہوسکتا ہے کہ ہم اس بات کا دعوی کریں کہ ہم اللہ کی بارگاہ اور حضور میں ہیں چاہے نماز میں یا دوسرے اوقات میں، لیکن کیا یہ بات ہم نے صرف زبان سے کی ہے یا دل میں یقین رکھتے ہوئے کی ہے؟ جب انسان کمرہ میں اکیلا ہو تو اس سے کوئی حرکت سرزد ہو اور وہ جان لے کہ مجھے کوئی شخص دیکھ رہا ہے تو فوراً اس کی حرکات بدل جائیں گی۔ اسی طرح جب انسان اس بات کا ادراک کرلے کہ وہ ہر وقت اور ہر لمحہ، اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہے تو وہ فضول کاموں، فضول باتوں اور فضول سوچوں سے دستبردار ہوجائے گا اور جتنا ان چیزوں سے پرہیز کرنے کی مشق کرے گا اتنا زیادہ اللہ کے حضور کا ادراک کرے گا اور اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں پائے گا۔ جس انسان کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ اسے ہمیشہ دیکھ رہا ہے تو اس شخص کے لئے کیا فرق کرتا ہے کہ وہ شخص خلوت میں ہے یا لوگوں میں، کہ لوگوں کے سامنے گناہ کرنے سے پرہیز کرے اور خلوت میں گناہ کرلے، جب وہ جانتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے تو نہ لوگوں کے سامنے گناہ کرے گا اور نہ خلوت میں، اگر واجب و حرام کے لحاظ سے لوگوں میں اور خلوت میں اس کے کردار کا فرق ہو تو یہ فرق اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کو اپنے اعمال پر حاضر و ناظر نہیں سمجھتا، بلکہ لوگوں کو ناظر سمجھتا ہے، جبکہ اللہ تعالی نے سورہ اقراء میں ارشاد فرمایا ہے: “أَلَمْ يَعْلَم بِأَنَّ اللَّهَ يَرَىٰ”[6]، ” کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ (سب کچھ) دیکھ رہا ہے؟ “۔
نتیجہ: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) مناجات شعبانیہ میں بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: “تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں”۔ اہل بیت (علیہم السلام) اللہ کی معرفت کے اس معراج پر فائز ہیں کہ ہمیشہ اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر پاتے ہیں۔ اس میں ہمارے لیے یہ بات درس آموز ہے کہ ہمیں چاہیے ہمیشہ اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں پاتے ہوئے، گناہ کے ارتکاب سے پرہیز کریں کیونکہ پروردگار دیکھ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] لسان العرب، ج9، ص359۔
[2] قاموس قرآن، علی اکبر قرشی، ج1، ص256 سے ماخوذ۔
[3] إقبال الأعمال، ابن طاووس، ج‏1، ص: 363۔
[4] جمال الأسبوع بكمال العمل المشروع، ابن طاووس، ص289۔
[5] صحیفہ سجادیہ، دعا 28۔
[6] سورہ علق، آیت 14۔

تبصرے
Loading...