1 ذیقعدہ سن 173 ھ ق ۔

ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے 35 اولاد تھے ، ان میں‌ سے سب سے فاضل آٹھویں امام حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام ہیں ۔(1) 

امام رضا (ع) قاسم (ع) اور فاطمہ معصومہ (س) ایک ہی ماں نجمہ خاتون معروف بہ ام البنین کے بطن سے تھے ۔(2)

حضرت فاطمہ معصومہ کی ولادت باسعادت پہلی ذیقعدہ سن 173 ھ ق کو مدینہ منورہ میں ہوئی ۔

ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھےکہ بچپنے ہی میں آپ اپنے شفیق باپ کی شفقت سے محروم ہوگئیں۔ آپ کے والد کی شہادت ، ہارون کے قید خانہ بغداد میں ہوئی ۔

باپ کی شہادت کے بعد آپ اپنے عزیز بھائی حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی آغوش تربیت میں آگئيں ۔

سن 200 ھ کوجب امام رضا مامون [ آٹھواں عباسی خلیفہ ] کی دعوت پر مدینہ منورہ سے خراسان کے شمال ” مرو” تشریف لایے لیکن اس سفر میں اپنے عزیزوں می سے کسی کو بھی اپنے ہمراہ نہ لیا۔ایران پہنچ کر مامون نے امام کو ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا جسے آخر کار امام نے قبول کیا ۔امام کی ہجرت کے ایک سال بعد بھائی کے دیدار شوق میں اور رسالت زینبی اور پیام ولات کی ادائیگی کے لۓ آپ نے بھی وطن کوالوداع کہا اور اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کی جماعت کے ہمرات خراساں روانہ ہوئيں ۔ایران کے ھر شہر اور ہر محلے میں آپ کا والہانہ استقبال ہو رہا تھا ، یہی وقت تھا جب آپ اپنی پھوپھی حضرت زینب (س) کی سیرت پر عمل کرکے مظلومیت کے پیغام اور اپنے بھائی کی غربت مؤمنین اور مسلمانوں تک پہنچا رہی تھی اور اپنی و اھلبیت کی مخالفت کا اظہار بنی عباس کی فریبی حکومت سے کررہی تھی ۔یہی وجہ تھی کہ جب آپ کاقافلہ شہر ساوہ پہنچا تو دشمنان اھلبیت (ع) جن کے سروں پر حکومت کاہاتھ تھا راستے میں حائل ہوگۓ اور حضرت معصومہ (س) کے کارواں سے ان بدکرداروں نے جنگ شروع کردی ۔نتیجتا کارواں کے تمام مردوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔ یہاں تک کہ ایک روایت کے مطابق حضرت معصومہ (س) کو بھی زہر دیا گیا ۔

حضرت معصومہ (س) اپنے عزیزوں کے قتل عام اور ایک روایت کے مطابق زہر کے وجہ سے بیمار ہوگئیں ۔ آنحضرت نے دریافت کیا کہ قم یہاں سے کتنا دور ہے ؟

جوابا دیا گیا: دس فرسخ ۔

آنحضرت نے فرمایا : شہر قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔اور خادم کو حکم دیا کہ کارواں کو قم کی طرف لے چلے ۔

قم میں یہ خبر پہلتے ہی خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئ ۔اور سب کے سب آپ کے استقبال میں دوڑ پڑے ۔ موسی بن خزرج بن سعد جو کہ آل سعد اشعری خاندان کے بزرگوں اور قم میں معروف شیعوں میں سے تھے انہوں نے آنحضرت کے مہار ناقہ کو آگے بڑھ کر تھام لیا۔اوربہت سے لوگ جو سوارہ اور پیادہ تھے پروانوں کی طرح اس کارواں کے ارد گرد چلنے لگے ۔23 ربیع الاول سن 201 ھ وہ عظیم الشان تاریخ تھی جب آنحضرت قم میں داخل ہوئیں اور شھرقم، قم المقدسہ بن گیا۔اس محلّے میں جسے آج کل میدان میر کے نام سے یاد کیاجاتاہے آنحضرت کی سواری موسی بن خزرج کے گھر کے سامنے بیٹھ گئ نتیجتا آپ کی میزبانی کا عظیم شرف موسی بن خزرج کو مل گیا، 

مگر حضرت فاطمہ معصومہ (س) سترہ دن اس شہر میں زندگی گزاری اور ان ایام میں آپ اپنے خدا سے راز و نیاز کی باتیں اور اس کی عبادت میں مشغول رہیں ۔ حضرت معصومہ (س) کی جاۓ عبادت اور قیام گاہ مدرسہ ستیہ جو آج کل ” بیت النور” کے نام سے مشہور ہے جو اب آنحضرت کے عقیدتمندوں کی زیارتگاہ بنی ہوئی ہے۔

آخر کار دس ربیع الثانی اور ایک اور قول کے مطابق بارہ ربیع الثانی سن 201 ھ قبل اس کے کہ آپ کی چشم مبارک برادر عزیز امام رضا (ع) کے چہرہ منورہ کی زیارت کرنے سے قاصر رہی اور غیرب الوطنی میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئ۔

موسی بن خزرج نے آنحضرت کو اپنے باغ میں دفنا کر ان کے مزار پر سایہ بان قرار دیاجہاں پر آج آنحضرت کاحرم مطہر ہے ۔(3)

حضرت فاطمہ معصومہ کے مرقد کی زیارت کرنے کی فضلیت بہت زیادہ بیان ہوئی ہے یہاں پر صرف تین معصوم اماموں علیہم السلام کے احادیث نقل کرتے ہیں :

1- عن الامام الصادق(ع)، قال: انّ اللہ حرماً و ھو مكہ، الا اِنّ لرسول اللہ(ص) حرماً و ھو المدينہ، الا و اِن لاميرالمومنين(ع) حرماً و ھو الكوفہ، الا و اِنّ قم الكوفہ الصغيرہ، الا اِنّ للجنہ ثمانيہ ابواب، ثلاثہ منہا اِلي قم. تقبض فيہا امراۃ من ولدي اسمہا فاطمہ بنت موسي(ع)، و تدخل بشفاعتہا شيعتي الجنہ باجمعہم.(4)

امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا وند عالم حرم رکھتا ہےاور اسکاحرم مکہ ہے ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ حرم رکھتے ہیں اور ان کا حرم مدینہ ہے ، امیر المؤ منین علیہ السلام حرم رکھتے ہیں اور ان کا حرم کوفہ ہے قم چھوٹا کوفہ ہے ، جنت کے آٹھ دروازے ہیں تین قم کی جانب کھلتے ہیں ، پھر امام (ع) نے فرمایا: میری اولاد میں سے ایک خاتون جس کی شہادت قم میں ہوگی اور اس کانام فاطمہ بنت موسی ہوگا اور اس کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔ 

2- عن سعد بن سعد، قال: سالت اباالحسن الرضا(ع) عن فاطمہ بنت موسي بن جعفر(ع)؛ فقال: من زارھا فلہ الجنہ.(5)

سعد امام رضا (ع) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایااے سعد جس نے حضرت معصومہ (س) کی زیارت کیاس پر جنت واجب ہے ۔

3- عن ابن الرضا(ع)، قال: من زار قبر عمّتي بقم فلہ الجنہ.(6) 

امام جواد علیہ السلام فرماتے ہیں جس نے میری پھوپھی (س) کی زیارت قم میں کی اس کے لۓ جنت ہے ۔

ترجمہ: عبدالحسین موسوی 

مدارک اور مآخذ:

1- بحار الانوار [علامہ مجلسي]، ج 101، ص 121 

2- وفيات الائمہ، ص 313 

3- مستدرك سفينہ البحار [علي نمازي]، ج8، ص 261 

4- مستدرك سفينہ البحار ، ص 262 

5- مستدرك سفينہ البحار ، ص 262

6- مستدرك سفينہ البحار ، ص 263

تبصرے
Loading...