۹؍ربیع الاول

کربلا میں گزرے ہوئے واقعات کو سن کر سنگدل آدمی بھی موم ہو جاتا ہے۔کوئی انسان ان واقعات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔اور ہونا بھی یہی چاہئے۔اس لئے کہ ہر غم کی اہمیت مغموم انسان کے مرتبہ اور ہر ظلم کی شدت مظلوم آدمی کی شخصیت کے مطابق ہوتی ہے۔اسی وجہ سے کسی چلتے پھرتے آدمی کا استہزا کرنے اور کسی ذی حیثیت انسان کی بے عزتی کرنے میں بڑا فرق ہواکرتا ہے۔کربلا میں جو ظلم و تشدد ہوا وہ ای

۹؍ربیع الاول

کربلا میں گزرے ہوئے واقعات کو سن کر سنگدل آدمی بھی موم ہو جاتا ہے۔کوئی انسان ان واقعات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔اور ہونا بھی یہی چاہئے۔اس لئے کہ ہر غم کی اہمیت مغموم انسان کے مرتبہ اور ہر ظلم کی شدت مظلوم آدمی کی شخصیت کے مطابق ہوتی ہے۔اسی وجہ سے کسی چلتے پھرتے آدمی کا استہزا کرنے اور کسی ذی حیثیت انسان کی بے عزتی کرنے میں بڑا فرق ہواکرتا ہے۔کربلا میں جو ظلم و تشدد ہوا وہ ایک عام انسان کے حق میں تو قبیح و مذموم ہے ہی لیکن یہی ظلم جب نبی ؐکے نواسے اور امام وقت پر ہو تو ہر انسان اس سے متاثر ہوتا ہے ا وردشمن بھی اسے سن کر رونے لگتے ہیں۔
کربلا کا غم چودہ صدیوں سے ہر سال منایا جاتا ہے اور ہر سال منا یا جاتا رہے گا بلکہ اسکے اندر زور و شور بڑھتا ہی رہیگا۔
 اگرچہ کل یوم عاشورا وکل ارض کربلا کانعرہ ہر آدمی کو قبول کرنا چاہئے
اور ہر دن کربلا کو نمونہ عمل اور رونے رلانے کاذریعہ قرار دینا چاہئے۔لیکن بہرحال کوئی بھی غم رسماً سال بھر نہیں منایا جاتا اس لئے ضرورت تھی کہ کوئی ایسا دن اور ایسا موقع ہو کہ رسما ًیہ غم اختتام پذیر ہو جائے اور امت مسلمہ دوسرے اہم کاموں کو بھی انجام دے سکے یعنی کل یوم عاشورا بھی سماج میں عملی ر ہے اور یہ غم رسمی طور سے سال بھر کے لئے ختم بھی ہو جائے۔ظاہر ہے کہ عاشورا کے دوسرے پیغامات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یہ بیحد ضروری تھا ،اس بنا پر علمائے اسلام اوردرد مندان قوم نے ایک ایسا دن تلاش کیا جو غم کربلا کے لئے حسن اختتام بھی ہو اور نئے ایام شروع کرنے کے لئے ایک روزخوشی بھی ۔
اس لئے ۹ ؍ربیع الاوّل کو اس روز کے عنوان سے عوام الناس تک پہونچانا جو کہ تاریخی اعتبارسے امام زمانہؑ کی امامت کا پہلا دن ہے۔ظاہر ہے کہ اس دن جتنے زور و شور کے ساتھ خوشی منائی جائے بہتر ہے کیونکہ یہ ہمارے زمانے کے امام ؑ کی امامت کا پہلادن ہے۔دوسرے ائمّہ علیہم السلام بھی ہمارے لئے امام ہیں لیکن جن کی امامت کا زمانہ ہماری زندگی سے مصادف اور مطابق ہے وہ امام زمانہ ہیں۔ اس لئے ہمیں اس خوشی کو ایک نئے انداز سے منانا ہی چاہئے۔
اسکے علاوہ مرگ عمر سعدلعنۃاللہ علیہ کی تاریخ بھی یہی بتائی جاتی ہے تو ہم اس اعتبار سے بھی اس تاریخ کو اختتام ایام عزا کے عنوان سے منا سکتے ہیں۔
یعنی ایک طرف وہ واصل جہنم ہوا جو سیدالشہداعلیہ اسلام کے خلاف صف آرائی میں آگے آگے تھا اور دوسری طرف اسکی امامت کی ابتدا ہوئی جو کربلا کے ظالمین سے خون حسین علیہ السلام کا انتقام لے گا۔اورجسکے لئے ہم اکثر کہتے ہیں این الطالب بدم المقتول بکربلا ایسی کم نظیرخوشی جب بے نظیر غم کے بعد حاصل ہو تو یقیناحق ہے کہ اسے اچھی طرح اچھے انداز اور اچھے رنگ ڈھنگ سے منایا جائے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ہم خوشی کس طرح سے منائیں اسلئے کہ ہمارے سامنے بہت سی مثالیں ہیں۔ ایک طرف شہادت حسین علیہالسلام کے بعدکربلا میں بھی خوشی منائی گئی جنگ احدمیں جناب حمزہؑ کی شہادت کے بعد بھی خوشی منائی گئی تھی اور آج بھی کہیں مطرب اور تیز موسیقی کے ساتھ خوشی منائی جاتی ہے۔ کہیں تاج اور رقص کے ساتھ خوشی منائی جاتی ہے کہیں گانے اور غنا کے ساتھ خوشی منائی جاتی ہے۔
دوسری طرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں فتح ظفر کے بعد خصو صاً فتح مکّہ کے موقع پر خوشی منائی گئی۔
ابن زیاد لعنۃاللہ علیہ کی ہلاکت کی خبرسنکر امام سیّد سجاد ؑ نے بھی خوشی کا اظہار کیا تھا۔
اور پھر ۹؍ربیع الاول ہمارے زمانے کی ایجاد تو ہے نہیں ظاہرہے کہ امام زمانہ ؑکی امامت کی ابتدا سے ابتک سیکڑوں ۹؍ربیع الاوّل آچکی ہیں۔ تو فقہاو علما،نے اس خوشی کو کیسے منایا؟ظاہر ہے کہ ہرشخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،سیّد سجّاد ؑاور علما و فقہا کی طرح خوشی منانا چاہے گا۔تو ہمیں بھی انہی کے خوشی منانے کے انداز کو اپنانا چاہئے۔
سیرت و سنّت کی وضاحت کے لئے سب سے بڑا ذریعہ ہمارے سامنے قرآن ہو سکتا ہے اس لئے کہ احادیث وروایات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و ائمہ علیہم السلام میں تعریف کی جا سکتی ہے لیکن قرآن تحریف سے بالاتر ہے۔ تو آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن نے کیسے خوشی منانے کو کہا ہے:
جو آدمی اللہ کی طرف سے پیغام لیکر آیا ہو اور خدا نے اسے نبی بنا کر بھیجا ہو اس کی سب سے بڑی خوشی یہ ہو سکتی ہے کہ وہ خدا کے پیغام کو پہنچانے میں کامیاب ہو جائے۔اور قدم قدم پر خدا اسکا ساتھ دیتا رھے اور ہر موقع پر فتح وظفر اسکے قدم چومے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے نصرت بھی ملی اور تمام جنگوں میں آپ کو فتح ظفر سے بھی نوازا گیا ۔اسکے علاوہ دنیا میں اتنی کم مدّت کے اندر اتنے زیادہ لوگ اسلام کے پرچم تلے جمع ہو گئے کہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اتنی جلدی پورا عرب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھنے لگے گا۔
ظاہر ہے کہ رسول اکرم کیلئے اس موقع سے زیادہ خوشی اورکس موقع پر ہو سکتی ہے؟تو آئیے دیکھتے ہیں کہ خدا نے اس موقع پر کیا کہا ہے!قرآن کا ارشاد ہے :
اذا جاء نصراللہ والفتح ورایت الناس ید خلون فی دین اللہ افواجًا فسبح بحمد ربّک واستغفرہ انہ کان توّابًاآخر میں خدا وندعالم سے دعا ہے کہ ہم کو سیرت رسولؐ و ائمہ علیہالسلام پر گامزن ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین!

تبصرے
Loading...