یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت مریم{س} کے لیے بہشت سے غذا اور میوے بھیجد یے جائیں؟ کیا اہل بہشت بھی دوبارہ دنیا میں آسکتے ہیں؟

۱۔ کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت مریم{س} کے لیے بہشت سے غذا اور میوے آتے تھے؟ ۲۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بہشت سے اس قسم کی چیزیں زمین پر آئیں؟ کیونکہ خداوندمتعال قرآن مجید میں بیان فرماتا ہے کہ بہشت کی چیزیں ابدی ہیں؟ اب اگر ہم قبول کریں، کہ بہشت کی چیزیں زمین پر آسکتی ہیں، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اہل بہشت بھی دنیا میں آنے کی طاقت رکھتے ہیں؟
ایک مختصر

آیات و روایات میں پائے جانے والے قرائن و شواہد کے پیش نظر، حضرت مریم{س} کی غذا کسی مادی وسیلہ کے بغیر براہ راست بہشت سے آتی تھی۔ جو کچھ اسلامی تعلیمات میں پایا جاتا ہے ، وہ بہشت میں انسانوں کی زندگی کا ابدی اور لافانی ہونا اور ان کا مسلسل نعمتوں اور لذتوں کا مالک ہونا ہے کہ وہاں کی نعمتیں قابل تجدید ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کا خاتمہ قابل تصور نہیں ہے۔

لیکن قدرتی بات ہے ہر نعمت سے استفادہ کرنا، اس کا ایک قسم کا خاتمہ شمار ہوتا ہے اور اسے ابدی نہیں جانا جا سکتا ہے، اگرچہ قابل تجدید بھی ہو۔

اس بنا پر ، اولاً: حضرت مریم{س} کا بہشتی غذا سے استفادہ کرنا، بہشت کی نعمتوں کے ابدی ہونے سے کوئی منافات نہیں رکھتا۔

ثانیاً: ممکن ہے کہ ان کی غذائیں برزخ کی بہشت سے آتی تھِیں اور جاننا چاہئیے کہ برزخ کی بہشت سے دنیا میں آنا ممکن نہیں ہے، لیکن دنیا کے خاتمہ اور انسانوں کی آخری حالت مشخص ہونے کے بعد دنیا کا وجود ہی نہیں ہوگا کہ اس میں واپس لوٹنا قابل تصور ہو۔
تفصیلی جوابات

اس سوال کی کئی حصوں میں تحقیق کی جا سکتی ہے:

اول: کیا جس غذا کا زکریا پیغمبر{ع} نے حضرت مریم{س} کے پاس مشاہدہ کیا ہے، وہ ان کے لیے بہشت سے لائی جاتی تھی؟

دوم: کیا بہشتی غذا ضروری ہے کہ ابدی ہو یا ممکن ہے کہ دنیا کی دوسری چیزوں کے مانند تغیر و تبدل کے قابل ہو؟

سوم: کیا انسان بہشت سے دوبارہ دنیا میں آسکتے ہیں؟

اب ہم ترتیب سے ان کا جواب دیتے ہیں:

۱۔ سوال کے پہلے حصہ کے بارے میں قابل ذکر ہے کہ: قرآن مجید میں حضرت مریم{س} کی غذا کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ: ” جب زکریا{ع} محراب عبادت میں داخل ہوتے تو مریم {س} کے پاس رزق دیکھتے اور پوچھتے کہ یہ کہاں سے آیا؟ اور مریم{س} جواب دیتیں یہ سب خدا کی طرف سے ہے، وہ جسے چاہتا ہے رزق بے حساب عطا کر دیتا ہے۔[1]”

لیکن یہ غذا، کس قسم کی غذا تھی اور حضرت مریم{س} کے لیے کہاں سے آئی تھی، اس کا آیہ شریفہ میں ذکر نہیں کیا گیا ہے، لیکن احادیث کی کتابوں میں درج کی گئی متعدد روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس الہٰی خاتون کو ملنے والی غذا خلاف موسم پھلوں پر مشتمل تھی، اور وہ پھل خدا کے حکم سے محراب کے پاس پیدا ہوتے تھے[2]۔ اس موضوع میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ خداوندمتعال اپنے پرہیزگار بندے کی اس طرح مہمان نوازی کرے، لیکن {المنار کے مولف کے مانند} بعض مفسرین کا اعتقاد ہے کہ “رزقا” سے مراد یہی دنیا کی عام غذا ہے، کیونکہ “ابن جریر” سے نقل کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل قحط سالی سے دوچار ہوئے اور حضرت زکریا حضرت مریم کو پالنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، اس موقع پر قرعہ اندازی کی گئی اور قرعہ ایک نجار کے نام نکلا اور وہ رضاکارانہ طور پر اپنی آمدنی سے حضرت مریم{س} کے لیے غذا مہیا کرتا تھا اور جب حضرت زکریا{ع} محراب کے پاس جاتے تو ان مشکل حالات میں اس غذا کو وہاں پر پاکر تعجب سے سوال کرتے تھے اور حضرت مریم{س} ان کے سوال کے جواب میں کہتی تھیں: کہ خداوندمتعال نے ان سخت حالات میں ایک باایمان شخص کو یہ خدمت انجام دینے پر مامور کیا ہے۔

یہ تفسیر آیت میں موجود قرائن کے مطابق ہے اور نہ اس سلسلہ میں نقل کی گئی روایتوں سے موافقت رکھتی ہے؛ تفسیر عیاشی میں اس سلسلہ میں امام باقر{ع} سے ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ: ” پیغمبراسلام{ص} ایک دن حضرت زہراء {س} کے گھر تشریف لائے، کئی دنوں سے حضرت زہراء{س} کے گھر میں کھانا موجود نہ تھا، آنحضرت{ص} نے اچانک حضرت زہراء{س} کے پاس ایک غذا دیکھی اور ان سے پوچھا: یہ غذا کہاں سے آئی ہے؟ فاطمہ {س} نے عرض کی: خدا کی طرف سے ہے ، وہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی عطا کرتا ہے۔ پیغمبراکرم{ص} نے فرمایا: یہ قضیہ حضرت زکریا{ع} کے قضیہ کے مانند ہے، کہ وہ حضرت مریم{س} کے پاس محراب میں آئے اور وہاں پر ایک مخصوص غذا کو دیکھ کر ان سے پوچھا : اے مریم؛ یہ غذا کہاں سے آئی ہے اور انہوں نے جواب میں کہا : خدا کی طرف سے ہے[3]۔

البتہ یہ موضوع کہ “رزقاً” سے مراد بہشتی غذا کا ہونا، اس آیہ شریفہ کے گوشہ و کنار میں پائے جانے والے قرائن سے معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اولاً: لفظ “رزقاً” کا نکرہ کی صورت میں استعمال ہونا اس کی علامت ہے کہ یہ غذا حضرت زکریا {ع} کے لیے ایک خاص اور غیر عادی غذا تھی، ثانیاً: حضرت مریم{س} کا جواب کہ ” یہ خدا کی طرف سے ہے” اس مطلب کی دوسری علامت ہے۔ ثالثاً: آیہ شریفہ کے بعد والے حصہ میں حضرت زکریا {ع} کا جذبات سے لبریز ہو کر پروردگار سے ایک اولاد کی درخواست کرنا، اس معنی کے لیے ایک اور قرینہ شمار ہوتا ہے[4]۔

دوسری جانب، علم کلام میں توحید افعال کے باب میں ثابت ہوا ہے کہ خداوندمتعال قدرت مطلقہ رکھتا ہے اور تخلیق، رزق، زندہ کرنا، موت دینا، غنی، فقر، عزت، ذلت، تندرستی اور بیماری وغیرہ اسی کی قدرت میں ہے، بالآخر کبھی عادی اسباب {انسان کے اختیاری وغیر اختیاری اسباب} سے استفادہ ہوتا ہے اور کبھی عام اسباب کے بغیر ، حضرت آدم{ع} و حوا وغیرہ کی تخلیق کے مانند اپنی قدرت سے استفادہ کرتا ہے۔ انبیائے الہٰی کے معجزات بھی اسی قسم کے اور غیر معمولی ہوتے ہیں۔ اسی طرح حضرت مریم{س} کی غذا بھی غیر معمولی صورت میں اور اسباب کے بغیر ظاہر ہوئی ہے۔[5]”

سوال کے دوسرے حصہ کے بارے میں قابل ذکر ہے کہ : اس وقت مادی دنیا میں یہ قاعدہ قبول کیا گیا ہے کہ مادہ اور انرجی کبھی نابود نہیں ہوتے ہیں، بلکہ ایک دوسرے مِن تبدیل ہو کر مختلف صورتوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ، اس دنیا مِں استعمال ہونے والی عام غذا کا ایک حصہ بدن کے اندر انرجی اور مادہ میں تبدیل ہوتا ہے اور باقی بچی غذا فضلہ کی صورت میں انسان کے بدن سے خارج ہوتی ہے، لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ سسٹم ، مواد کی تبدیلی کی تنہا راہ ہو اور کم از کم عقل کے لحاظ سے یہ ناممکن نہیں ہے کہ کوئی اور طریقہ درکار ہو جس میں فضلہ کی صورت میں خارج ہونے والے مواد میں موجود بدبو برطرف کی جائے یا تمام استعمال شدہ مواد انرجی میں تبدیل کیا جائے۔

عالم آخرت کے بارے میں جاننا چاہئیے کہ آیات و روایات میں انسان کی بہشتی زندگی کے ابدی اور جاودانی ہونے اور بہشتی نعمتوں اور لذتوں کے دائمی ہونے کے اشارے ملتے ہیں، اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو غذائیں بہشتیوں کو ملتی ہیں وہ بھی دائمی اور لافانی ہیں، بلکہ ایسے دلائل پاتے ہیں جو اس کے خلاف ثابت کرتے ہیں۔

زید بن ارقم نقل کرتے ہیں کہ اہل کتاب میں سے ایک شخص پیغمبراسلام {ص} کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپ{ص} کا اعتقاد ہے کہ بہشتی کھاتے اور پیتے ہیں؟ پیغمبراکرم{ص} نے جواب میں فرمایا: جی ہاں۔ ۔ سوال کرنے والے نے دوبارہ پوچھا کہ جو کھاتے اور پیتے ہیں ، وہ کیسے حاجت بشری انجام دیتے ہیں؟ پیغمبراکرم{ص} نے فرمایا: ان کے بدن سے یہ مواد خوشبو پسینہ کی صورت میں مشک آہو کے مانند خارج ہوتا ہے۔ ۔ ۔ [6]”

بہ الفاظ دیگر، بہشتی نعمتیں ختم ہونے والی نہیں ہیں، بلکہ ان میں تغیر و تبدل ممکن ہے۔

مذکورہ توجہ کے پیش نظر اور پروردگار عالم کی قدرت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دنیا کے منتخب افراد کے لیے بہشتی غذا عطا ہونے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔

سوال کے تیسرے حصہ کے بارے میں یعنی بہشیتوں کے دنیا میں لوٹنے کے بارے میں قابل توجہ ہے کہ: اسلامی کتابوں میں بہشت و جہنم کے بارے میں دو معنی ملتے ہیں:

اول: وہ بہشت جو انسان کے مرنے کے بعد برزخ میں شروع ہوتی ہے۔ ایک روایت مِن آیا ہے کہ ہر انسان کی قبر اس کے لیے بہشت کا ایک باغ یا جہنم کا ایک گڑھا ہوگی[7]۔ قرآن مجید میں مردوں کو زندہ کرنے کے جو واقعات پائے جاتے ہیں[8]، ان کے مطابق ایسے انسانوں کا اس قسم کی بہشت سے دنیا میں آنا ممکن ہے۔

دوم: جس بہشت اور جہنم میں انسان صور پھونکے جانے اور اعمال کے محاسبہ کے بعد داخل ہوں گے، قرآن مجید کی صراحت کے مطابق اس سے خارج ہونا ممکن نہیں ہے[9]، اور درحقیقت اس وقت اس دنیا کا وجود ہی نہیں ہوگا کہ انسان اس میں واپس آئے۔

اس موضوع کے بارے میں ہماری اسی سائٹ کے مندرجہ ذیل موضوعات کا بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے:

1. وجود بهشت و جهنم در حال حاضر، 15136 (سایٹ: 14937).

2.حقیقت بهشت و جهنم، 1945 (سایٹ: 1948).

3.ملال آور نبودن نعمتهای بهشتی، 4711 (سایٹ: 4999).

 

[1]. آل عمران، 37

[2] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 14، ص 195، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ه.

[3]. عروسی حویزی، عبد علی بن جمعه، نورالثقلین، ج1، ص333، انتشارات اسماعیلیان، طبع چهارم، قم، 1415.

[4]. تفسیر نمونه، ج 2، ص530؛ تفسیر المیزان، ج3، ص273 و 274.

[5]. تفسیر نمونه، ج 2، ص530.

[6]بحار الانوار، ج 8، ص 149، ح 82.

[7]بحار الانوار، ج 6، ص 214.

[8]آل عمران، 49.

[9] حجر، 48.

 

تبصرے
Loading...