یوم اللہ اور اسلامی انقلاب (3)

متن:

11 فروری 1979ء کو شہنشاہیت کا گہن زدہ سورج ایران کے افق سے ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا اور شہیدوں کے مقدس لہو میں تر بتر “اسلامی انقلاب” درخشندہ مہتاب کی طرح دمکنے لگا۔ ایران میں آنے والے اس اسلامی انقلاب سے بین الاقوامی برادری بڑے پیمانے پر متاثر ہوئی اور مجموعی طور پر دنیا میں اس انقلاب کے تین طرح کے ثمرات دیکھنے میں آئے۔

1۔ فوری طور پر حاصل ہونے والےثمرات

2۔ ایسے ثمرات جو ابھی تک مرتب ہو رہے ہیں اور ان کا سلسلہ چلتا رہے گا

3۔ ایسے ثمرات جو جلد یا بدیر ضرور سامنے آئیں گے۔

1۔ فوری طور پر مرتب ہونے والے ثمرات

۱لف۔ اسلام کے کھوئے ہوئے تشخص کی بحالی۔

ایک طویل مدّت تک بادشاہت و ملوکیّت کے زیر تسلط رہنے کے باعث اسلامی ممالک میں دیگر غیر اسلامی ممالک کی طرح فسق و فجور اور بے راہروی کا دور دورہ ہوچکا تھا، مسلمان سلاطین غیر مسلم بادشاہوں کی طرح عیاشیاں کرتے تھے اور دین کو اپنی حکومت کے استحکام کی خاطر ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے چلے آرہے تھے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی نے بادشاہت و ملوکیّت کو اسلام سے جدا کیا اور اسلامی حکومت کو سیرت النّبی (ص) کے احیاء اور اجراء کا ذریعہ بنا دیا، جس سے لوگوں کے سامنے اسلام کی حقیقی شکل ایک مرتبہ پھر نمودار ہوئی۔

ب۔ اسلامی وحدت اور استعمار شناسی کا شعور

اسلامی انقلاب سے پہلے اسلامی دنیا مختلف گروہوں اور بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی، علاقائی تعصبات کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت اور فرقہ واریّت عروج پر تھی۔ بادشاہ صاحبان اپنی مکروہات کو چھپانے کے لئے درباروں میں علمی مناظروں کے نام پر شیعہ، سنّی علماء کو اکٹھا کرکے فرقہ وارانہ مباحث کو از سر نو زندہ کرتے تھے اور پرانے اختلافات کو پھر سے بھڑکاتے تھے چنانچہ لوگ اپنے دینی جذبے کے باعث فرقہ وارانہ جھگڑوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور یوں یہ بغض و حسد نسل در نسل آگے چلتا رہتا، لوگ ایک دوسرے کو گریبان سے پکڑے رکھتے تھے اور حکمران رنگ رلیاں مناتے تھے۔ اسی طرح استعماری طاقتیں بھی اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہمفرے اور لارنس آف عریبیہ کی طرح کے اپنے جاسوسوں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتی تھیں۔ اس طرح کے جاسوس مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر فسادات اور فرقہ واریّت کو ہوا دیتے تھے۔

ایران کے اسلامی انقلاب نے شیعہ اور سنّی مسلمانوں کو صدر اسلام کی طرح بھائی بھائی بننے کا شعور عطا کیا۔ ایران کے شیعہ و سنّی علماء کے اتحاد اور اتفاق سے تمام دنیا کے مسلمانوں نے متفق اور متحد ہونے کا شعور لیا، ملت ایران نے عملی طور پر متحد ہو کر پورے عالم اسلام کو یہ باور کرایا ہے کہ مسلمانوں کی اصل طاقت اتحاد میں مضمر ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جو شخص بھی فرقہ وارانہ مسائل کو اچھالنے کی کوشش کرتا ہے، اسے شیعہ یا سنّی سمجھنے کے بجائے استعمار کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری آلہ کار اور امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ یوم القدس سے لے کر مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر اور عراق و افغانستان سمیت تمام تر اسلامی مسائل کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف تمام تر تعصبات سے بالاتر ہے۔ اسی طرح اسلامی انقلاب نے دنیائے اسلام کے معدنی وسائل اور آبی ذخائر کو لوٹتی ہوئی استعماری طاقتوں کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے اور بین الاقوامی اسلامی برادری کو مل کر استعماری سازشوں کا مقابلہ کرنے کا شعور بھی دیا ہے۔ جس کے بعد اسلامی منڈی، اسلامی بینک اور مشترکہ اسلامی آرمی جیسے کئی عظیم منصوبے آج بھی اسلامی دنیا میں زیر بحث ہیں۔

ج۔ دینی و ملّی استقلال و خود مختاری

اسلامی انقلاب نے ایرانی عوام کو یہ شعور دیا کہ انہوں نے اپنی گردنوں سے استعمار کی غلامی کا طوق اتار پھینکا اور اپنے گلی کوچوں سے غیر ملکی ایجنٹوں کو مار بھگایا۔ جس کے بعد ایرانی سائنسدان، انجینئر، پروفیسر، ڈاکٹر اور علماء ۔۔۔ سب نے ایرانیوں سے احساس کمتری کو ختم کرنے اور ملت ایران کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔ آج کے ایران میں اور ماضی کے ایران میں یہی فرق ہے کہ آج کا ایرانی احساس کمتری سے نکلا ہوا ہے، آج ایران کے اعلٰی حکام کے نزدیک ان کی اپنی زبان “فارسی” میں گفتگو کرنا ان کے لئے فخر کا باعث ہے، انہیں اپنا تعارف کرانے کے لئے انگریزی اصطلاحات کی بیساکھیوں کا سہارا نہیں لینا پڑتا، آج ان کی یونیورسٹیوں میں انگریزی کو ترقّی کا معیار نہیں سمجھا جاتا اور ان کے

پالیسی ساز اداروں میں غیر ملکی قرضوں اور بیرونی امداد پر تکیہ نہیں کیا جاتا۔

جب تک اسلامی انقلاب کا خورشید ایرانی افق نہیں چمکا تھا، ایرانی احساس کمتری کے باعث سر جھکا کر جی رہے تھے اور جب اسلامی انقلاب نے ایرانی معاشرے کو اپنی آغوش میں لے لیا تو پھر انہوں نے وہ سربلندی حاصل کی کہ قیامت تک پورا عالم بشریّت ان پر فخر کرتا رہے گا۔ اسلامی انقلاب نے سب سے پہلے ایرانی قوم کو استقلال اور خود مختاری کا شعور دیا اور پھر ملت ایران سے اقوام عالم نے یہ درس لیا، جس کے باعث پوری دنیا میں استعماری طاقتوں کے مفادات کو خطرہ پڑ گیا اور انہوں نے اسلامی انقلاب کےثمرات کو محدود کرنے کے لئے دنیا پھر میں اپنے جاسوسوں اور ایجنٹوں کو پروپیگنڈے کے لئے فعال کیا، جنہوں نے کبھی اس انقلاب کو “مُلّا انقلاب” کبھی “شیعہ انقلاب” اور کبھی ایرانی انقلاب کہہ کر اس کے خلاف مزاحمت شروع کی لیکن استعمار اور استعماری ایجنٹوں کو جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ علم و شعور اور معرفت و بیداری کو جھوٹ اور پروپیگنڈے کے ذریعے نہیں روکا جاسکتا۔

چنانچہ ایک طرف تو صدام کو اسلامی انقلاب کے خلاف استعمال کیا گیا، جس کے باعث ۸ سال تک صدامی فوجی، اسلامی انقلابیوں کے خون میں ہاتھ رنگتے رہے اور دوسری طرف دنیا بھر میں اسلامی انقلاب کے پیغام اور ثمرات کو منتقل کرنے والے مفکرین اور دانشمندوں کو شہید اور اغواء کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ان شہید کئے جانے والوں میں عراق سے باقرالصدر، لبنان سے موسٰی صدر اور پاکستان سے ڈاکٹر محمد علی نقوی اور علامہ عارف حسین الحسینی کے نام سرِفہرست ہیں اور اسی طرح حج کے موقعہ پر سینکڑوں حاجیوں کو گولی ماری گئی۔ تاہم آج یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ فوری طور پر ایران میں اسلامی انقلاب کے ثمرات کو محدود کرنے کیلئے استعمار نے جو خون ناحق بہایا تھا وہی خون، اسلامی انقلاب کی ترویج و اشاعت کا بہتریں وسیلہ بنا اور دینی و ملّی استقلال و خود مختاری کی جس لہر کو استعمار ایران کے اندر ہی دبا دینا چاہتا تھا، آج پوری دنیا میں اس کے جھٹکے محسوس کئے جا رہے ہیں۔

 

 

تبصرے
Loading...