یوم اللہ اور اسلامی انقلاب (2)

ہاں۔۔۔ مگر چشم فلک نے برسوں تک وہ مناظر بھی دیکھے ہیں، جب اسلام کی انقلابی تعلیمات کو درہم و دینار اور طاقت و تلوار کے ذریعے دبا دیا گیا تھا۔ وہی ظالم اور جابر حکمران جن کے ظلم و جبر سے اسلام نے اقوام عالم کو نجات دلائی تھی، اب دنیائے اسلام پر حکومت کر رہے تھے۔ اموی شہنشاہ، عباسی حکمران اور مغل و لودھی بادشاہ بیت المال سے شراب بھی پیتے تھے، رنگ رلیاں بھی مناتے تھے اور امیرالمومنین بھی کہلاتے تھے۔ یہ بادشاہ خود تو محلّات میں رہتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ جھونپڑیوں میں زندگی گزارو کہ یہ اسلام کی تعلیم ہے، یہ خود تو عیاشیاں کرتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ تم بکریاں چراتے رہو کہ یہ انبیاء کا پیشہ ہے۔ عرصہ دراز تک دنیائے اسلام بادشاہت و ملوکیّت کے بوجھ تلے دبی رہی۔ تقریباً تیرہ سو برس تک دین اسلام بادشاہت و ملوکیّت کے پنجوں میں سسکتا رہا، تیرہ سو سال کے بعد سرزمین ایران سے بادشاہت و ملوکیّت کے خلاف ایک ایسے شخص نے قیام کیا، جس کی رگوں میں پیغمبر اسلام (ص) کا خون تھا اور جس کے ہاتھوں میں پیغمبر اسلام (ص) کی کتاب قرآن تھی۔ اس مرد مجاہد نے ایک ایسے دور میں قیام کیا، جب پوری دنیا میں ملت اسلامیہ غلامی کی عادی ہوچکی تھی اور ایران کا یہ حال تھا کہ ایران مسلسل تیل بیچ رہا تھا اور زرہ پوش گاڑیاں، ٹرک، اینٹی کرافٹ توپیں اور بھاری اسلحہ خرید رہا تھا، یہاں تک کہ 1976ء سے 1977ء کے دوران امریکہ سے اسلحے کی خریداری کا بل چار ارب ڈالر سے بڑھ کر بارہ ارب سے بھی زیادہ ہوگیا تھا۔

دوسری طرف ملک میں ہر روز نت نئے جشن اور میلے منعقد کئے جاتے تھے۔ مثلاً 26 اکتوبر کو شاہ کی سالگرہ، 26 جنوری کو سفید انقلاب کی سالگرہ، 6 دسمبر کو آزادی خواتین کی سالگرہ۔ اس کے علاوہ جشن تاجپوشی، شہنشاہیت کا 25 سوسالہ جشن وغیرہ وغیرہ۔۔۔ صرف شہنشاہیت کے 25 سوسالہ جشن کے اخراجات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اسے دنیا کی عظیم ترین نمائش کہا گیا تھا۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود “شاہ” کے لئے امریکی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری تھا کہ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے اختیارات میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ کرتا چلا جائے، ایجنسیوں اور فوج کے کارندے اپنے وسیع اختیارات کے باعث کسی کو سر اٹھانے کی مہلت نہیں دیتے تھے، جو کوئی بھی شاہ پر یا شاہ کی پالیسیوں پر تنقید کرتا تھا، اسے ملک دشمن، غدار اور خائن قرار دے دیا جاتا تھا۔ جیلیں قیدیوں سے چھلک رہی تھیں، ٹارچر سیل خون اور ہڈیوں سے لتھڑ گئے تھے، لوگوں کی ایک بڑی تعداد خفیہ ایجنسیوں نے اغواء کر رکھی تھی۔

1978ء تک ملکی معیشت کا یہ حال ہوگیا تھا کہ شاہ اور اس کی بیوروکریسی پرائیویٹ بنکوں کے 50 فیصد حصص کی مالک تھی، ایران کی غیر ملکی تجارت صرف 60 افراد کے ہاتھ میں آگئی تھی، کمپنیوں کے زیادہ تر شئیرز صرف 50 خاندانوں کے پاس تھے۔ ہر روز شاہی خاندان کے افراد، شاہی محل کے ملازمین اور کارندوں کے لئے جنیوا میں سویس بینک کے اکاونٹ نمبر ۲۱۴۸۹۵-۲۰ میں پہلوی فاونڈیشن کے اکاونٹ میں کئی ملین ڈالر ڈالے جاتے تھے۔ ایرانی یونیورسٹیاں دن بدن بے روزگاروں کو جنم دے رہی تھیں، ملک کے طول و عرض میں غیر ملکی سرمایہ کاری خصوصاً امریکی سرمایہ کاری کا جال بچھا ہوا تھا جبکہ ایرانی نوجوان اپنے ہی ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں ٹھوکریں کھاتے پھر رہے تھے، ایران کی یہ نام نہاد ترقی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ ایران جو کبھی گہیوں برآمد کرتا تھا، اس نے گہیوں بھی درآمد کرنی شروع کر دی تھی۔

1960ء میں جب ایران کی حکومت نے اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کرلیا تو اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے ٹریننگ اور تربیّت حاصل کرنے کے لئے ایرانی فوج اور ایرانی خفیہ ایجنسی ساواک کے کئی اہم عہدیداران اسرائیل گئے اور اسی طرح موساد کے سینکڑوں اسرائیلی عہدیدار ایران آکر بھی ایرانی فوج اور خفیہ اداروں کو ٹریننگ دینے میں مصروف رہے۔ اس ٹریننگ کے نتیجے میں ساواک نے اپنے ہم وطنوں پر ایسا شکنجہ کسا کہ یونیورسٹیوں سے میمنے، بکریاں اور طوطیاں نکلنے لگیں، کسی میں دم نہ تھا کہ وہ ساواک، فوج اور شاہ یا اس کی پالیسیوں کے خلاف زبان کھولے، پورے ملک میں اسرائیلی اور امریکی مفادات کے تحفظ اور فروغ کا عمل زوروشور سے جاری تھا۔ ملک میں حکومتی وحشت و برریت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اسی دور میں حکومت نے مچھلیوں کا شکار بھی غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کر دیا اور غیر ملکی کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے جاسوسی انتظامات کے ساتھ ساحل پر ایک ساحلی گارڈ بنائی جس کا نام “گارد ساحلی شیلات” تھا۔ اس ساحلی گارڈ کو یہ اجازت تھی کہ وہ غیر ملکی کمپنیوں کے علاوہ شکار کے لئے آنے والوں کو گولی کا نشانہ بنادے۔ چنانچہ ایران کے ساحلوں پہ سینکڑوں غریب ایرانی اپنے ہی ملک میں اپنی ہی گارڈ کے ہاتھوں، مچھلی شکار کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے تھے۔

یاد رہے کہ یہ اس دور کی بات ہے جب ایک طرف تو ایرانیوں کی غربت کا یہ حال تھا کہ وہ اپنی جان لڑا کر مچھلی شکار کرنے کی کوشش کرتے تھے جبکہ دوسری طرف ایران اور اسرائیل کے درمیان تجارتی لین دین چالیس کروڑ ڈالر سے بھی تجاوز کرچکا تھا۔ کچھ عرصے بعد ہی طاقت کے نشے میں دھت ایرانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے اپنے اختیارات کی وسعت کے باعث تعلیمی اداروں خصوصاً دینی مدارس کا رخ کر لیا۔ انہوں نےمارچ 1963ء میں قم کے مدرسہ فیضیہ اور تبریز کے مدرسہ طالبیہ پر چڑھائی کی اور سینکڑوں نہتّے طالبعلوں پر گولی چلا کر انہیں خاک و خون میں غلطاں کر دیا۔ فوج کا تخمینہ اور خفیہ ایجنسیوں کا گمان یہ تھا کہ انہوں نے عوام کو میمنے اور طوطیاں بنا رکھا ہے، لہذا دوسرے بہت سارے واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی چھپ جائے گا، لیکن ان کا یہ گمان اس وقت غلط ثابت ہوگیا جب ایرانی قوم اس خون کو علم بنا کر کوچہ و بازار میں نکل آئی، مظاہروں نے زور پکڑا

اور ساواک کے مظالم کی داستانیں ایرانی بارڈرز کو پھلانگ گئیں اور پھر 10 جولائی 1963ء کو “مصر” کی الازہر یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمود شلتوت نے اس ظلم کے خلاف پمفلٹ چھاپا۔

جامعۃ الازہر کے بعد روزنامہ “الاہرام” نے 6 اور 7 جون 1963ء کے شمارے میں اس پر تبصرہ چھاپا، ہفتہ وار جریدے “ابزرواتورعرب” نے 17جون 1963ء کے شمارے میں “حیلہ عظیم” کے عنوان سے اس حادثے کے بارے میں مقالہ چھاپا اور پھر مسلسل “جامعہ اسلامی لبنان” نے، کویتی جوانوں نے، جرمن میں مقیم ایرانی جوانوں اور کئی دوسری تنظیموں نے پمفلٹ، مقالے اور کالم چھاپنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی شخصیتوں کو ٹیلیگرام بھیجے اور یہ تحریک اس جوش اور ولولے کے ساتھ آگے بڑھی کہ ایرانیوں کے خون کو چوسنے والی فوجی جونکیں اور ان کی لاشوں پر رقص کرنے والےخفیہ اداروں کے بھیڑیئے ایک ساتھ تاریخ کے قبرستان میں دفن ہوگئے۔ ۔۔۔ اور ۔۔۔پھر وہ دن بھی آپہنچا کہ جب ایک جرمن روزنامے “اشپی گل” کے خبرنگار نے تہران ائیر ہورٹ پر ملک چھوڑ کر بھاگتی ہوئی ملکہ فرح سے یہ سوال کیا کہ کیا آپ کو یہ امید تھی کہ آپ سے عوام اس قدر متنفر ہوجائے گی۔؟۔۔۔

 

 

 

تبصرے
Loading...