یزید کادربار اور حضرت سکینہ بنت الحسین کاخواب

شہر شام میں پیش آنے والے عجیب اور غریب واقعات میں سے ایک شہزادی حضرت سکینہ کاوہ  خواب ہے  جو آپ نےیزید کے دربار میں بیان فرمایا جس کو علامہ مجلسی  ، ابن نما حلی  ، سیّد  ابن طاووس  ، بحرانی ،اور شیخ عباس قمّی  جیسے جیّد علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل فرمایاہے ۔

حضرت سکینہ نےدربار شام میں یزید سے فرمایا:میں نے ایک خواب دیکھا ہے اگر تو سنے! تو میں بیان کروں ، یزید سننے کے لئے تیار ہو گیا،آپ نے فرمایا : کل رات جیسے ہی میں نماز ، دعااور تعقیبات سے فارغ ہوئی اچانک مجھے بابا کی یاد ستانے لگی میں بہت روئی اور روتے روتے میری آنکھ لگ گئی ،میں نے خواب میں دیکھا :گویا آسمان کے تمام دروازے میرے لئے کھول دئے گئے ہیں اور میں ایک ایسے نور کے بقعہ میں ہوں  جس کا نور  آسمان سے زمین تک پھیلا ہوا ہے  

 اس کے بعد میں نے اپنے باپ کو جنت کے  ایک باغ  میں پایا  اور وہاں ایک خادم کودیکھاجو  اس باغ میں موجود تھاجیسے ہی میں باغ میں قدم زن  ہوئی  ایک عالی شان قصرمیرے سامنے  تھا جیسے ہی میں  نے داخل  ہونے کا قصد کیا  میرے ساتھ   پانچ افراداورداخل ہونے لگے میں نے  خادم سے پوچھا:یہ محل کس کاہے ؟ خادم نے جواب دیا: یہ تمہارے باباکا محل ہے جو اللہ نے انہیں ان کے عظیم اور پائدار صبر کےعوض عطا فرمایاہے ،

    میں نے اس سے دوسرا سوال کیا: یہ پانچ باجلالت و باعظمت افراد کون ہیں  جو میرے ہمراہ وارد قصر ہوناچاہتے ہیں  ؟ اس نے ہر ایک کی طرف اشارہ کرکے مجھے بتاناشروع کیا :یہ پہلے !ابو البشر حضرت آدم  ہیں ،یہ حضرت نوح ہیں ،یہ تیسرے حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں ،اور یہ چوتھے حضرت موسیٰ کلیم اللہ ہیں میں نے اس سے پوچھاکہ یہ بزرگ کون ہیں ؟کہ جو اپنی داڑھی پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور آثار حزن و ملال ان کے چہرے سے ہویدا ہے ،  اور مسلسل جن کی آنکھوں سے آنسو نکل کر رخساروںپر بہہ  رہے ہیں؟ اس نے جواب دیا: آقا زادی! ان بزرگ کو نہیں پہچانتی ؟ میں نے کہا :نہیں ، اس نے کہا :یہ تمہارے جد اللہ کے رسول حضرت محمّد مصطفی ﷺ ہیں جو حسین ؑ سے ملاقات کے لئے آئے ہیں ،

سکینہ کہتی ہیں:کہ  میں دوڑتی ہوئی اپنے جد کے قریب گئی اور ان کے سامنے یہ بین کرنے لگی ،”یاجدّاہ قتلت واللہ رجالنا و سفکت واللہ دماءنا وھتکت حریمنا و حملناعلی الاقطاب من غیر قطاع و نصاب الی یزید” اے نانا خدا کی قسم ہمارے مردوں کو مار ڈالا  گیا ، ہمارے خون کو بہایا گیا ، ہماری بے حرمتی کی گئی اور ہم کو برہنہ پشت  اونٹوں پر سوار کر کے شام تک لایا گیا، یہ سن کر  پیغمبر  نے مجھے اپنی آغوش میں لیااور آدم و نوح وابراہیم اور موسیٰ کی طرف رخ کر کے فرمایا :” اما ترون ماصنعت امتّی بولدی من بعدی “کیاتم نے نہیں دیکھامیری امّت نے میرے بعد میرے نور نظر کے ساتھ کیاسلوک کیا؟خادم نے کہا : سکینہ بی بی خاموش ہو جائو !تم نے اپنے نانا کو بہت غم زدہ اور محزون کر دیا 

 اس کے بعد اس نے میرا ہاتھ پکڑااور مجھے اس قصر کے ا ندر لےگیاجہاں میں نے ان  پانچ عورتوں کو دیکھا  جن کا وجود نور خداسے منّور تھا ان کےدرمیان ایک معظمہ کو دیکھا جو ہر اعتبار سے ممتاز  تھیں  بال پریشان،  سیاہ لباس میں ملبوس اور ایک خون  بھرا کرتا ہاتھوں میں لئے ہوئے تھیں، جب وہ اٹھتی تھیں تمام عورتیں ان کے احترام میں کھڑی ہو جاتی تھیں میں نے خادم سے سوال کیا یہ کون ہیں ؟ خادم نے مجھ سے ان سب کاتعرّف کرایا:یہ خاتون مریم ہیں ،یہ خدیجہ ،یہ ہاجرہ ،اور یہ سارہ ہیں اور یہ خاتون کہ جن کےہاتھوں میں خون بھراکرتا ہے یہ جنّت کی تمام عورتوں کی سردار  حضرت فاطمہ زہرا ہیں یہ  سن کر میں اپنی دادی کےپاس گئی اور کہا:”یاجدّتا،قتل و اللہ ابی و اتمت علی صغر سنّی “دادی جان  ! خداکی قسم، ظالموں نے میرے  باباکو قتل کر کے مجھے اس کم سنی میں ہی یتیم کر دیا،میری دادی نے میرے یہ بین سن کر مجھےاپنی   آغوش میں لے لیااور آہ و بکا کر نےلگیں اب کیاتھاوہ عورتیں بھی رونےلگیں اور بصد احترام عرض کی:  اے سیّدہ عالمیان! صبر کرو!خدا تمہارے اور یزید کے درمیان فیصلہ کرے گا۔

اسکے بعد صدّیقہ طاہرہ نے مجھ سے فرمایا:”کفّی صوتک یا سکینہ “میری لاڈلی سکینہ ! اب نہ رونا  “فقد قطعت نیّاط قلبی ھذا قمیص ابیک الحسین “تیری صدائے گریہ نے مجھے ہلاکر رکھ دیااور  دیکھ یہ تیرے بابا حسین کا خون بھر ا کرتا ہے “لایفارقنی  حتّی القی اللہ بہ “اسے اس وقت تک ہاتھوں سے نہ چھوڑوں گی  جب تک خدائے واحد سے ملاقات نہ کر لوں   

  1: بحارالانوار،ج۴۵ ص۱۴۰۔۱۴۱،باب ۳۹

  2:مثیر الاحزان،ابن نما الحلی،ص۱۰۴۔۱۰۵

  3:الملہوف علی قتلی الطفوف،ص۱۸۸۔۱۸۹

 4: العوالم،عبداللہ البحرانی،ص۴۴۰ 

 5: منتھی الآمال ،القمّی،ج۲ ص۱۰۰۴۔۱۰۰۶

تبصرے
Loading...