ہم اور قرآن

 

فضلیت قرآن سے متعلق چند نکات

قرآن کریم ،اسلام کی سند اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندہ و جا وید معجزہ ہے  اور ایسی کتا ب ہے کہ ”لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ“ اور   یہ کتاب ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے ”انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحا فظون“۔

یہ کتا ب :نو ر، عبرت،واضح نشانی، تذکر ،بیان،ہدایت،دلیل،ذکر،فرقان اور مبا رک     (بر کت والی)ہے۔

 قیامت کے دن قرآن کی بنیاد پر درجات عطا کیے جائیں گے ۔ جیسا   کہ حدیث شریف میں ہے کہاقران ( قاری سے کہا جائے گا کہ تلاوت قرآن کرو اور ترقی کرتے جاﺅ ) 

یامبر جنگ احد میں ہر اس شہید پر پہلے نماز جنازہ پڑھتے تھے کہ جو قرآن کا زیادہ حافظ تھا ۔ اور جنگوں میں پیامبر جب دیکھتے تھے کہ ایک شخص قرآن سے زیادہ آشنا ہے تو پر چم اس کے ہاتھ میں تھما دےتے تھے ۔ 

قرآن واقعاََ نور ہے اور معاشرے کی تاریکیوں سے نور کی طرف جذب کرتا ہے ۔ قرآن ذکر ہے ، نحن نزلنا الذکر ( ہم نے ذکر ( قرآن ) کو نازل کیا ) اور وہ لوگ جو قرآن سے بے اعتنائی برتتے ہیں وہ سخت ترین زندگی میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ و من اعرض عن ذکری فان لہ معےشةََ فنکا ( سورہ طہ آیہ ۴۲ ) جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصےب ہو گی 

لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو قرآن کو پڑھنا نہیں جا نتے،یا اگر ان میں پڑھنے کی صلا حیت توہے لیکن غلط پڑھتے ہیں، اور اگر پڑھتے ہیں تواُس لا معنیٰ و مفہوم نہیں سمجھتے،اور جو اُس کا معنیٰ و مفہوم سمجھتے ہیں اُس میں غور و فکر نہیں کرتے اور جو غورو فکر کرتے ہیں وہ اُس سے عبرت نہیں لیتے!لیکن اِ ن سب کا اصلی ہدف جوقرآن میں تدبر کرنا ہے،ابھی تک ہما رے معاشرے میں رواج نہیں پا سکا ہے۔

 مختصر یہ کہ قرآن سے ہمارا تعلق اور واسطہ 

فقط مُردوں کیلئے تلاوت کرنے،قسمیں اٹھا نے،حق مہر کے طور پر دینے،تجوید پڑھنے پڑھا نے ، ترتیل و حفظ اور قرآنی مقابلوں میں شرکت کر نے کی حد تک محدود ہے۔

طوطے کی مثال:

اشعار : ( قرآن کی فریاد )

کلام : ماہرالقادری

طاقوں میں سجایا جاتا ہوں            آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں

تعویذ بنایا جاتا ہوں                       دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں

جز دان حریر و ریشم کے              اورپھول ستارے چاندی کے

پھر عطر کی بارش ہوتی ہے         خوشبو میں بسایا جاتا ہوں

جس طرح سے طوطا مینا کو               کچھ بول سکھائے جاتے ہیں

اس طرح پڑھایا جاتا ہوں                 اس طرح سکھایا جاتا ہوں

جب قول و قسم لینے کے لیے             تکرار کی نوبت آتی ہے

پھر میری ضرورت پڑتی ہے         ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں

دل سوز سے خالی رہتے ہیں             آنکھیں ہے کہ نم ہوتی ہی نہیں

کہنے کو میں اک اک جلسہ میں         پڑھ پڑھ کے سنایاجاتا ہوں

نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے                  سچھائی سے بڑھ کر دھوکا ہے

اک بار ہنسایا جاتا ہوں         سو بار رلایا جاتا ہوں

یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے                قانون پہ راضی غیروں کے

یو بھی مجھے رسوا کرتے ہیں            ایسے بھی ستایا جاتا ہوں

کس بزم میں مجھ کو بار نہیں               کس عرس میں میری دھوم نہیں

پھر بھی اکیلا رہتا ہوں                     مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں

چند دوستانہ سوالات :

خدا وند عالم آپ سے، خصوصا نوجوانوں سے کس چیز کا مطا لبہ کرتا ہے؟ 

اور قرآن سے متعلق ہماری کیا ذمے داری ہے؟

 کیا ہم آج صرف تعلیمی اور ثقافتی امور انجام دینے کی بنا پر بری الذمہ ہو سکتے ہیں ؟

 اگر ہم سے یہ سوال کیاجائے کہ تم نے وحی اور قرآن کیلئے کیا کام انجام دیے ہیں تو کیاہم اپنی جان بچانے کیلئے اپنے مطالعہ ،تدریس اور اپنے حصول تعلیم کوبری الذمہ ہو نے کیلئے پیش کر سکتے ہیں؟

حقیقتاََ ہماری یو نیورسٹیوں ، دینی مدارس اور مسجدوں میں قرآن اور تفسیر قرآن کا کیا مقام ہے ؟ اور ہم اسے کتنی اہمےت دےتے ہیں ؟

کیا قرآن کریم کا ہم نے ایک بار مکمل ترجمے کے ساتھ مطالعہ کیا ہے ؟

واقعاََ کتنا اچھا ہوتا کہ پہلے دن سے ہی ہمیں قرآن سے آشنا کیا جاتا !

 اور یہ کتنا اچھا ہوتا کہ کچھ مقدار میں شہریہ اور انعامات قرآن کی تفسیر پڑھنے اور سیکھنے والوں کی ترغےب اور ان میں شوق پیدا کرنے کےلئے کچھ مقدار میں ماہانہ وظےفہ اور انعامات دیے جاتے ۔

وہ قرآنی مطالب کہ جو تمام طالب علموں ، نوجوان اور معاشرے کی ضرورت ہیں ؟ان کو ہفتے میں ایک دن قرآنی مطالب کے بارے میں غورو فکراور تدبر کرنے میں صرف کرتے؟

کیا آپ کسی ایسے بےٹے کو جانتے ہیں جو اپنے باپ کاخط نہ پڑھے اور اس کے مطابق عمل نہ کرے ؟ مخلوق کو بھی چاہیے کہ اپنے خالق کی کتاب کو پڑھے اور سمجھے ۔

یہ ٹھیک ہے کہ تعلیمی دنوں میں ہمیں بہت کام ہیں لیکن کیا قرآن سے ہمیں کو ئی کام نہیں ہے ؟ 

قرآن کے پروگراموں اور تفسیر کی کلاسوں کا باقی پروگراموں اور کلاسوں سے تھوڑا سا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ بعض علاقوں میں تو ایک فےصد بھی قرآن کے درس نہیں ہوتے۔

کیا ہم نے قرآن کے القابات ، کریم ، مجید ، عظیم اور نور کے مطابق اس کی تکریم ، تمجید اور اس کی تعظیم کی ہے ۔ ؟

قرآن میں ہم پڑھتے ہیں کہ جنوں کا ایک گروہ ، چند آےتیں سننے کے نتےجے میں اپنے معاشرے کو ( توحید ) کی طرف دعوت دےتا ہے ۔لیکن ہم میں سے بعض لوگ تفسیر قرآن کی کئی جلدیں رکھنے کے باوجود اپنے معاشرے کو قرآن کی طرف دعوت نہیں دےتے ۔ 

عیسائی انجےل کی تفسیر کو کیسٹوں کے ذرےعے ، ہر ممالک سے لوگوں کو بھےجتے ہیں ،لیکن ہم تفسیر قرآن کو ابھی تک اپنے گھروں سے مسجد تک نہیں لائے ہیں ۔

برا نہیں ہے کہ اس پیغام ( حاسبو قبل ان تحاسبو ) اپنا محاسبہ کرو قبل اس سے کہ تم سے حساب لیا جائے) کے تحت خود سے سوال کریں کہ ” ہم نے اپنی عمر کا کتنا حصہ قرآن کریم میں غورو فکر کرنے پر خرچ کیا ہے “ ہمارے شہروں میں حقیقی معنوں میں تفسیر قرآن کے کتنے پروگرام ہوتے ہیں ؟ بہرحال کون ہے جو جرات کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ میں نے قرآن کی نسبت اپنا قرض ادا کر دیا ہے ؟

اور یہ بات بڑی جاذب ہے کہ ہمیں احادےث میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ( صل ّ صلوة مودع ) ہر نماز میں اس طرح فکر کرو کہ گویا تمہاری آخری نماز ہے تو کیا ہم یہ احتمال نہیں دےتے کہ ہو سکتا ہے یہ ہمارے لئے آخری موقع ہو اور لوگوں کو قرآن سے مانوس کرنے کی آخری فرصت ہو ۔

دوستو !

مہجوریت قرآن کریم :

شکوہ اور فریاد کے انداز اور طریقے کار

ہم یہ قرآن میں پڑھتے ہیں کہ خداوند اپنے پیا مبر کو راضی کرنے کے در پے ہے ۔ اس دنیا میں بھی فلنو لینک قبلةََ ترضھا ( پس ہم ضرور آپ کا قبلہ تبدےل کریں گے جس سے آپ راضی ہو جائیں گے ) اور آخرت میں بھی جیسا کہ فرمایا ” و لسوف ےعطیک ربک فترضیٰ ( عنقرےب تمہارا پروردگار تمہیں اتنا عطا کرے گا کہ تم راضی ہو جاﺅ گے) وہ پیامبر جس کو خدا راضی کرنا چاہتا ہے ، تو ہم کیوں نہ اسے راضی کریں ؟ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن جب سب محتاج ہوں گے وہ پیغمبر اس جملے کے ذرےعے ہم سے ناراضگی کا اظہار کرے کہ : ربِّ انَّ قومی اتخذو ھذا القرآن مھجورا ( سورہ فرقان آیہ ۰۳ )

ترجمہ : اے میرے پر وردگار میری قوم نے اس قرآن کو واقعی ترک کر دیا تھا 

چند بڑے علماءکے اقرار کی طرف توجہ کریں !

اپنی تفسیر سورہ واقعہ کے مقدمہ میں کچھ مطالب ارشاد فرماتے ہیں کہ جس کا خلاصہ یہ ہے ۔

” میں نے فلسفیوں کی بہت ساری کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ، یہاں تک کہ یہ سوچنے لگا کہ میں بھی کچھ ہوں لیکن جونہی میری چشم بصیرت کھلی تو میں نے دیکھا کہ میرا دامن حقیقی علوم سے خالی ہے ۔ پس عمر کے آخری حصے میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ قرآن اور رسول اور آل رسول کی احادےث میں غورو فکر کرنے کی طرف قدم بڑھایا جائے اور میں اس یقینی نتےجے پر پہنچا کہ اب تک میرا کام بے بنیا دتھا ۔ چونکہ میں ساری زندگی روشنی کی بجائے سایے میں کھڑا رہا ۔ اسے سوچ کر غصہ کی وجہ سے میرے دل میں آگ لگ گئی اور میرے دل سے شعلے بلند ہونے لگے ۔ یہاں تک کے خدا کی رحمت نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے قرآن کے رازوں سے آگاہ کر دیا ۔ اور قرآن کی تفسیر اور اس میں غورو فکر کاکام شروع کیا ، اور خانہ وحی کے دروازے پر دستک دی ۔ تو دروازہ کھل گیا اور پردے ہٹ گئے ، اور میں نے دیکھا کہ فرشتے مجھے سلام کہہ رہے ہیں ۔ 

سلام ’‘ علیکم طبتم فادخلوھا خالدین ( سورہ زمر آےة ۳۷ ) 

 

ترجمہ : تم پر سلام ہو ، تم بہت اچھے رہے ،اب ہمےشہ کےلئے اس ( جنت ) میں داخل ہو جاﺅ

جو میں نے قرآن کے رازوں کو اب لکھنا شروع کیا ہے ، اقرار کرتا ہوں کہ قرآن ایک عمیق سمندر ہے اور خداوند کے لطف و کرم کے بغیر اس میں داخل ہونے کا اس میں کوئی امکان نہیں ہے ۔ 

لیکن افسوس ! کہ میری عمر تمام ہو گئی ہے ، میرا جسم ضعےف اور لاغر ہو گیا ہے ، قلب کی قوت اور اس کا شوق ختم ہو چکا ہے ، میرے پاس سرمایہ کم ، کام کر نے کا وسےلہ ناقص اور میری روح چھوٹی ہے ۔“ 

رسالہ انصاف میں فرماتے ہیں کہ ” میں مدتوں سے علماءکرام کے درمیان موجود علمی مباحث میں مصروف مطالعہ رہا اور اس سلسلے میں بہت کوششیں کیں ، لیکن یہی مباحث میرے لئے جہالت کا سبب تھیں ، مدتوں فلسفہ کی راہ میں درس و تدریس میں مشغول رہا اور فلسفیوں کی باتوں میںاونچی پروازوں کو دیکھا مدتوں سے ادھر اُدھر کے کے مسائل میں مصروف رہا ، کتابیں اور رسالے لکھے ، کبھی فلسفیوں اور صوفیوں اور کلاھیوں کے درمیان جمع بندی کی کوشش کرتا رہا اور ان کی باتون کو آپس میں ملانے میں مصروف رہا لیکن ان علوم میں سے کسی ایک میں بھی میں نے اپنے درد کی دوا اور اپنی تشنگی کا سامان نہیں پایا ۔ میں خود سے خوف کھانے لگا چنانچہ میں نے خدا کی طرف اقرار کیا اور اس کے حضور میں توبہ کی یہاں تک ک خداوند کریم نے مجھے قرآن اور حدےث کی عمق تک جانے کی ہداےت عطا فرمائی ۔

کہ جنہیں ہم لو گ امام زمانہ  کا نائب مانتے ہیں اپنی کتاب صحےفہ¿ نور کی بیسویں جلد میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ” یہ بندہ ¿ حقیر رسمی جملوںکی بناءپر نہیں بلکہ پورے طور سے یہ کہہ رہا ہوں کہ اپنی عمر کے ضائع ہونے پر نہاےت افسوس ہے ۔ اے اسلام کے آبرو مند بےٹو ! تم حوزوں اور یونیورسٹیوں کو قرآن کے مختلف امور اور علمی جہات سے توجہ دو ۔ قرآن کی تدریس کو ہر علمی شعبہ میں مد نظر اور اصلی مقصد قرار دو ۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ عمر کے آخری حصے میںجب ضعےفی اور بڑھاپا تم پر غالب ہو جائے ، تو میری طرح اپنے کیے ہو ئے کاموں پر پشیمان ہو اور اپنی جوانی کے دنوں کے گزر جانے پر حسر ت و افسوس کرو “ 

آپ نے کسی مناسبت کے سلسلے میں مسجد اعظم ( حرم حضرت معصومہ (س) ) میں درس دےتے ہوئے فرمایا ! ” کیا ہم نے علم اصول ، فقہ اور کفایہ کی بحثوں میں زیادہ غورو فکر کیا ہے یا قرآن میں ؟ اسی طرح میں نے اور بہت سارے افراد دوسرے بڑے بڑے علماءسے بھی سنے ہیں لیکن ان سب کو بیان کرنے کی فرصت نہیں ہے ۔ بہرحال اس کام کے سلسلے میں ہمیں اقدام کرنا چاہیے اور بطور نمونہ کچھ کام ذکر کرہا ہوں :

ہمیں فرصت کے لمحات سے فائدہ اٹھا نا چاہیے اور رمضان کا مہینہ قرآن کی بہار کا مہینہ ہے ۔ 

ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے :

ہمیں چا ہیے کہ قرآن کواپنے عقیدے،فکر،ارادوں ،فیصلوںاور عمل کا محور قرار دیں۔

ہمیں چا ہیے کہ قرآن کو بہت اہمیت دیں ،”خذالکتاب بقوة“ 

وگرنہ بات اچھی طرح جان لیں کہ ہم میں سے جو بھی قرآن کی معانی میں غورو فکر نہیں کر ے گاوہ خدا وند عالم کی طرف سے شدیدترین تنقید کا نشانہ بنے گا۔”افلا یتدبرون القرآن ام علیٰ قلوب اقفا لھا“ ۔ 

 محرم اور صفر اور اسی طرح موسم گرما کی تعطےلات میں بھی قرآن کریم کی تفسیر کو تروےج دینے اور وحی کے چرغوں کو دلوں میں روشن کےلئے مناسب اوقات ہیں ۔

ماہ رمضان کی عظمت ہر چیز سے زیادہ نزوک قرآن کے سبب ہے ۔” شھررمضان الذی انزل فیہ القرآن ( رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل کیا گیا ) ۔اسی طرح شب قدر کی عظمت کا ایک اہم حصہ ، اس رات میں قرآن کے نزول کی وجہ سے ہے ۔ انا انزلنا ہ فی لےلة القدر ( بے شک ہم نے اسے(قرآن کو) شب قدر میں نازل کیا ) 

جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ( وادی قدس میں )وحی وصول کرنے کے لئے اپنی جو تیاں اتارنی پڑتی ہیں ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ قرآن کو بیان کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیا ر کریں ۔ فرصت سے فائدہ نہ اٹھانا قیامت ( یوم الحسرة ) کے دن حسر ت و افسوس کا مقام ہے ۔

آج وہ زمانہ ہے کہ جدید نسل کے ہزاروں افراد قرآن کی تجوید اور ناظرہ (قرآن خوانی ) کی طرف متوجہ ہو ئے ہیں ، 

اگر علماءاس وقت قرآن کے معنی سے غافل ہو جائیں تو ہم جدید نسل کا کیا جواب دیں گے ؟

دعائیہ کلمات :

اس دن کی امید کے ساتھ کہ قرآن ہماری فکر و دل اور قبر و قیامت کے لئے نو رو روشنائی اور واقعی ثقل اکبر ہو جائے اور ہمارے تمام امور قرآن و اہل بیت  کے زیر سایہ ہوں ۔قرآن کے ساتھ انس رکھنے سے غورو فکر کی روش ، اخلاق ، استدلال کا طریقہ ، ارادہ اور دوسروں کے ساتھ سلوک کا طریقہ تبدےل ہو جاتا ہے ۔ اور انسان کے اندر موجود خلاءپر ہو جاتا ہے۔

ہم آج ایسی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ فتنوں نے تاریک رات کی طرح ہر جگہ کا احاطہ کیا ہوا ہے ۔ اس سورتحا ل میں سوائے قرآن اور اہل بےت  کے پاس پناہ لینے کے علاوہ کو ئی چارہ کار نہیں ہے ۔

یہ تحریر ایک فریاد بھی ہے اور ایک طرح کا لائحہ عمل اور آرزو بھی ہم ہر گز یہ دعوی نہیں کرتے لیکن امید ہے کہ خدا مدد کرے گا ۔ 

آپ نے جواس تحریر کو پڑھا ہے تو آپ نے کیا ارادہ کیا ہے ؟ آپ کیا منصوبہ اور لائحہ عمل رکھتے ہیں ؟ آئیں آج سے ہی شروع کریں !

آرزوئیں :

(و لو انھم اقامو القورٰة والانجےل و ما انزل الےھم )( سورہ مائدہ آیہ ۶۲ )

ترجمہ : اور اگر یہ اہل کتاب تورےت اور انجےل اور ان کی طرف نازل ہو نے والی تعلیمات کو قائم کرتے 

یہ نہ سو چیں کہ یہ امید رکھنا محال ہے ۔ کیا ہم امام خمینی  کے پیرو نہیں ہیں کہ جنہوں نے شہنشاہی حکومت کو تبدےل کردیا ؟ کیا ہماری ورزشگاہوں میں یا حسین  کی صدا بلند نہیں ہوئی ؟ 

کیا سکولوں اور کالجوں میں دسیوں نماز باجماعت قائم نہیں ہو ئیں ؟

کیا امام حسین کے عزاداروں نے نو محرم اور عاشوراءکو سڑکوں پر نماز با جماعت قائم نہیں کیں ؟

کیا محاذ جنگ اور انتخابات ، دشمن کی تحقیر اور مختلف مقابلوں میں قرآن کی بدولت کامیاب نہیں ہو ئے ؟

اسی طرح قرآن کی مہجوریت اور تنہائی کو ختم کرنے میں بھی کامیاب ہو نگے البتہ دو شرائط کے ساتھ۔

اے میرے عزیز بھائیو ! میں ایک عالم دین جانتا ہوں کہ جب وہ مسجدالنبی میں گئے اور پیامبر اکرم سے توسل کرنے کے بعد ان سے اُ ن کی رضاےت اور عدم رضاےت کو جانیں اور اسی نیت سے قرآن کو کھولا تو ان کی نگاہ اس آےت پر پڑھی 

” و قال الرسول ربِّ ان قومی اتخذو ا ھذا القرآن مھجورا“ََ ( سورہ فرقان آیہ ۰۳ )

اور رسول کہے گا ! میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو واقعی ترک کر دیا تھا 

اس عالم کو اس آیت نے بہت زیادہ متاثر کیا

استاد طالب علموں کو تفسیر کا مطالعہ کرنے اور تفسیر کی کلاسوں کو معاشرے کو مختلف طبقات میں برقرار کرنے پر آمادہ کریں ۔

وہ علماءفضلاءجو قم میں مقیم ہیں یا مہاجر یا مقرر ہیں ، ان سے درخواست ہے کہ اپنی تقریر کا اہم حصہ قرآن سے قرار دیں۔

اور اگر کوئی نکتہ بیان کریں تو وہ بھی آیات سے ہی بیان کریں ۔ 

چند نکات جو قرآن کی تفسیر میں مد نظر رکھنا ضروری ہیں :

گھرےلو مسائل پر مشتمل آیات۔

۹ :۔ وہ علاقے جہاں لوگ قرآن کی تفسیر سے آشنا نہیں ہیں وہاں قرآن کی استانوں یا چھوٹے چھوٹے سوروں یا ان آیات کی تفسیر سے شروع کیا جائے جن سے ان کا ذہن آشنا ہے ۔ 

چند مشورے :

پر بٹھائیں اور کچھ وقت قرآن کی آیات کی تفسیر بیان کریں ۔

والسلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ ۱ :۔ ملا صدر : ۲ : ۔ فیض کاشانی : ۳ : امام خمینی ؒ : ۴: آےة اللہ وحید خراسانی : ۱ : اس دن کی آرزو ہے کہ نئی نسل کےلئے مناسب تفسیر لکھی جائیں کہ جو ان کی مخصوص ضروریات کو پورا کر سکیں ۔ ۲: اس دن کی امیدکے ساتھ کہ ہر علاقے میں ایک استاد ہمارے بچوں اور بڑوں کےلئے قرآن کے قصوں کی وضاحت کرے ۔ ۳: اس دن کے انتظار میں کہ ایک سادہ لیکن پر معنی تفسیر اسکولوں اور کالجوں کے تعلیمی نصاب میں قرار دی جائے۔ ۴: اس دن کی امید کے ساتھ کہ ہمارے منبربے قیمت مطالب کو بیان کرنے کی بجائے تفسیر قرآن سے منور کریں ۵: اس دن کی امید کے ساتھ کہ ہم تفسیر کو بھی ایک علم جانیں اور قرآن کے رازوں کو کشف کرتے ہوئے دوسروں کے دلوں کو جذب کریں ۔ ۶ : اس دن کی امید کے ساتھ کہ جب ہر طالب علم سے پو چھا جائے کہ کیا پڑھتے ہو تو وہ جواب میں یہ کہے کہ تفسیر اور مکاسب ، تفسیر اور مکاسب لمعہ ۷ : اس دن کی امید کے ساتھ کہ ہم آسمانی کتاب کو قائم کریں کیونکہ وہ اس قابل ہے کہ اسے قائم کیا جائے ، ۸ : اس دن کی امید میں کہ مدرسوں کا بجٹ ، توانایوں اور حوزوی درسوں ، مفسرین پر خرچ ہو ۱: خداوند عالم سے مدد طلب کرنا اور اس کے اولیاءسے توسل کرنا ۲: اور قصد قربت اور پاک دل سے کام کرنا ۔ ۱ :۔ لوگوں کی ضرورت کی طرف توجہ کرنا۔ ۲:۔ ان آیات کو زیادہ بیان کرنا جن پر قرآن اصرار کرتا ہے جیسے مبدااورمعادسے متعلق آیات ، قیامت کے ماحول کو بیان کرنے والی آیات اور اخلاقی ، اجتماعی ، سیاسی اور ۳:۔ ادبی اور علمی نکات جو خواص کی محفلوں سے متعلق ہیں ان کو بیان کرنے سے پر ہیز کیا جائے ۔ ۴:۔ آیات کے پیام کی طرف توجہ کی جائے ۔ ۵:۔ کلاس زیادہ طولانی نہ ہونے پائے ( زیادہ سے زیادہ بیس منٹ ) ۶:۔ تفسیر کی کلاسیں دوستانہ ماحول میں منعقد ہوں اور ہر قسم کے تکلف سے پر ہیز کیا جائے ۔ ۷ :۔ کلاس کے آخر میں پیغام اس طرح بطور خلاصہ بیان کیے جائیں کہ ان کو لکھا جا سکے اور ان سے امتحان لیا جاسکے ۔ ۸:۔ مخاطبین میں سے نئی نسل کی طرف بطور خاص توجہ دی جائے ۔ ۰۱ :۔ ابتداءمیں کلاسیں تبلیغی روش پر انجام پائیں اور ہر کلاس کے آخر میں مخاطنین کی آراءکو سنا جائے ۔ ۱: قرآن کی عزت و احترام کے لئے بزرگ علماءکو چاہیے کہ محنت کریں اور ہر ہفتہ میں ایک دن تفسیر کی تدریس اور نکات کو بیان کرنے کےلئے مخصوص کریں ۲:۔ حوزہ علمیہ کے اور منتظم حضرات ، مدیر چھٹیوں کے ایام کےلئے منصوبہ بندی کریں کہ طالب علم اور نوجوان قرآن کی تفسیر کا کچھ مطالعہ کریں اور آخر میں ایک امتحان لیا جائے اور ان میں رغبت بڑھانے کے لئے انعامات تقسیم کیے جائیں۔ ۳ :۔ ہر علاقے میں اچھا بیان رکھنے والے علماءقیام کریں اور نئی نسل کو دعوت دے کر قرآن کے پر نعمت دستر خوان ۴ :۔ انشاءاللہ تفسیر جواب حوزہ علمیہ میں شروع ہو چکا ہے اس میں رونق پیدا کرنے کےلئے حوزہ علمیہ میں لائحہ عمل اور منصوبہ مرتب کیے جائیں ۔ ۵ :۔ وہ فضلاءجو تحصےل علم کے دنوں میں درس کے نوٹ ( تقریرات ) لکھتے ہیں چھٹیوں کے دنوں میں قرآنی رسالے اور مضامین لکھیں تاکہ نقد و تحقیق کے بعد منتشر کیے جائیں اور دوسرے لوگ ان سے فائدہ اٹھائیں۔

 

 

تبصرے
Loading...