ہمیں حق شناس حق محور اور حق کے معیار پر کھرا اترنا چاہیے

حوزہ علمیہ قم کے جلیل القدر استاد اور مر جع تقلید حضرت آيت اللہ العظمی جوادی آملی نے اپنے ہفتہ وار درس اخلاق کے جلسے میں کہ جو شہرستان دماوند کے ایک دیہات احمد آباد کی مسجد میں من

حوزہ علمیہ قم کے جلیل القدر استاد  اور مر جع تقلید حضرت آيت اللہ العظمی جوادی آملی نے اپنے ہفتہ وار درس اخلاق کے جلسے میں کہ جو شہرستان دماوند کے ایک دیہات احمد آباد کی مسجد میں منعقد ہوا امیر المومنین علی علیہ السلام کی ایک حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : حضرت نے ان خطوں میں کہ جو مالک اشتر کے لئے لکھے تھے ،لکھا ہے کہ شیطان کبھی بھی افراد کو گمراہ کرنے سے دست بردار نہیں ہوتا ،اور ہمیشہ حملے کے لیے تیار رہتا ہے ۔ ہر گناہ شیطان کا ایک تیر ہے ؛ لیکن کبھی شیطان پورے اعضا و جوارح کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے ! حضرت نے اس خط میں فرمایا جب کسی کی تعریف کرتے ہیں تو وہ اگر خدا نخواستہ خوش خیال ہو اور ان تعریفوں کو مان لے اور ان کے چکر میں آ جائے تو ایسا شخص شیطان کے حملے کی زد میں آ جاتا ہے ! میں امید کرتا ہوں کہ خدا ہم سب کو شیطان کے ان تیروں سے محفوظ رکھے ۔

انہوں نے آگے چل کر خدا کے حضور میں حاضر ہونے سے پہلے اعمال کا حساب کتاب کرنے کی اہمیت کے بارے میں کہا : ہم سے کہا گیا ہے کہ اس سے پہلے کہ عدالت الہی میں تمہاری حاضری ہو تم اپنا حساب خود کر لو ؛ «وَزِنُوا قَبْلَ أَنْ تُوزَنُوا» ؛ اب اگر انسان خود کو اپنے اخلاق کو اپنی روح و جان کو اور اپنے ایمان کو پرکھنا چاہے تو کس ترازو پر تولے ؟ قرآن کریم نے تو ترازو کا ذکر کیا ہے سورہ مبارکہ اعراف میں فرمایا ہے کہ ترازو اور وزن (باٹ) “حق” ہے  ہمارے اعمال و عقاید کو قیامت کے دن جس ترازو پر تولیں گے کہ جو جنت میں جانے کا معیار ہے اور جس تولنے کے باٹ کو ایک طرف رکھا جائے گا وہ حق ہے چنانچہ  ایک پلڑے پر حق کو رکھیں گے اور دوسرے پلڑے پر ہمارے عقاید ،اخلاق اور اعمال کو رکھ کر اس سے تولیں گے پس قرآن کریم کے بیان کی روشنی میں اعمال کو “حق” سے تولیں گے ۔

آیت اللہ جوادی آملی نے یاد دلایا : ہمیں حق شناس حق محور اور حق کے معیار پر کھرا اترنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ حق کیا ہے اور اس کے بعد اس کو ایک پلڑے میں رکھیں اس کے بعد اپنے اعمال ،عقاید اور اخلاق کو خدا کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے دوسرے پلڑے پر رکھیں اور دیکھیں کہ آیا فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان ؟ چنانچہ اگر انسان تولے اور وہ بھاری ہوں تو خدا کا شکر ادا کرے اور اگر خدا نہ کردہ وزنی نہ ہوں تو جان لے کہ “وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفین” اس کے دامنگیر ہو گا اس لیے کہ اس سے مراد صرف لباس ،گوشت اور روٹی کی کم فروشی  نہیں ہے بلکہ اس سے مراد عقیدے ، اخلاق اور اعمال و رفتار کی کم فروشی بھی ہے ۔

آپ نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں “خود شناسی” اور “خود سازی” کی وصیت کرتے ہوئے اعتراف کیا : ہماری ذمہ داری ہے کہ خود کو آراستہ کریں  اگر چہ یہ کام مشکل ہے ۔آئمہ معصومین علیھم السلام کے نورانی بیان کی روشنی میں کہ جس میں فرمایا ہے صراط مستقیم بال سے زیادہ باریک اورتلوار کی دھار سے زیادہ تیز  ہے ،معرفت کے سلسلے میں صراط مستقیم اس سے بھی زیادہ باریک ہے اور رفتار کے مد نظر تلوار کی دھار پر چلنے سے بھی زیادہ مشکل ہے ،لیکن اگر انسان کا خیال دوسری طرف ہو تو درد و رنج کا احساس نہیں کرے گا ۔

اس مرجع تقلید نے اظہار کیا : امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ نورانی بیان ہماری روشن ترین احادیث میں سے ہے ؛حضرت نے فرمایا : «مَا ضَعُفَ‌ بَدَنٌ‌ عَمَّا قَوِیَتْ عَلَیْهِ النِّیَّه» ۔جب ارادہ مضبوط ہو تو بدن کو بالکل بھی کمزوری کا احساس نہیں ہوتا ۔امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ شہدائے کربلا نے شمشیر اور نیزوں کے اتنے زخم کھائے تو ان کو  کتنا درد ہوتا تھا ؟ فرمایا ! بس اتنا ہی کہ جتنا دو انگلیوں کو ایک انگلی کا گوشت دبانے سے ہو تا ہے۔ چونکہ درد کا احساس روح کو ہوتا ہے ۔امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ نورانی بیان ہم سب کے لیے ایک اخلاقی اور علمی دستور ہے کہ جس میں آپ نے فرمایا کہ اصل یہ ہے کہ اگر ہم روح کی عظمت ، روح کے جلال ،روح کی منزلت ار روح کی توجہ کو درک کر لیں  تو دنیا کا راستہ ہمارے لیے بالکل آسان ہو جائے گا

تبصرے
Loading...