ہمارے زمانہ کی مثالی نمازیں

اے میرے جوان بھائیوں ،آج ہم منبر سے آیت اللہ کاشانی کی نماز آپ لوگوں سے نہیں چاہتے کہ جنھوں نے اپنی زندگی کے ساٹھ سالوں میں چاہے  گرمی ہو یا سردی ،اپنے کمرے میں ہوں یامدرسہ اصفہان میں، جب بھی آپ نمازپڑھنے کھڑے ہوتے تھے تو دنیا اور کار وبار دنیا سے بلکل دوری اور جدائی اختیار کر لیتے تھے ،اور جب نماز ختم ہوتی تو آپ کو اپنی کپڑے بدلنا پڑتے تھے جو شدّت گریہ کی وجہ سے بھیگ جایا کرتے تھے ۔

ایسا ہر نماز میں ہوتا چاہیں وہ نماز ظہر ہو یا نماز عصر ،چاہیں نماز مغرب ہو یا پھر نماز عشاء،مدرسہ صدرمیں جب آپ نماز شب میں نمازوتر کے بعد سجدہ میں سر رکھتے اور اس حال میں  جب آپ فرماتے “سبّوح قدّوس ربّ الملائکتہ و الرّوح ”  تو مدرسہ کے تمام در ودیوار، پیڑپودھے سب چیزیں آپ کے ساتھ کہتے “سبّوح قدّوس …”ایک شخص نے جب یہ ماجرا دیکھا تو تاب نہ لا سکا اور بیہوش ہو گیا ۔

ہم آپ سے آیت اللہ بروجردی کی نماز کا تذکرہ نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی طرف آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ ان کی طرح نماز پڑھیں کیوں  کہ یہ آپ کے لئے ممکن نہیں ہے،وہ نماز جو آپ نوّے سال کی عمر میں اور اپنی زندگی کی آخری رات تک جماعت میں ادا کرتے رہے ۔وہ جماعت میں اپنی تمام واجب نمازوں کے سجدوں اور رکوع کو طول دیتے تھے اور  اسی طرح ذکر رکوع کو بھی طول دیتے آپ “سبحان ربّ العظیم و بحمدہ”کو اور اسی طرح  “سبحان ربّ الأعلٰی وبحمدہ”کو بھی سات مرتبہ کہتے تھے۔قرآن کی اس آیۃ کے مطابق کہ”وما  جعل علیکم فی الدّین من حرج”   جب لوگ آپ سے یہ کہتےتھے کہ آپ اب اس کام کی طاقت نہیں رکھتے تو

آپ ایک نظر دیکھ کر فرماتے “وما جعل علیکم فی  الدّین من حرج”  اس آیت کا مصداق یہ مقام نہیں ہے ۔ان سے کہا گیا کہ آپ کے ماموم ان طویل سجدوں اور رکوع کی طاقت نہیں رکھتے ،اس وقت پانچ ہزار لوگ آپ کی  اقتدا کر رہے ہیں ،جن میں مسافر بھی ہیں اور بوڑھے بھی ،مریض بھی ہیں اور بیمار بھی ہیں جو نزلہ کھانسی سے پریشان ہیں اس کے علاوہ آپ کی نماز میں شرکت کرنے کے لئے  تہران سے بھی کچھ  لوگ آتے ہیں، آپ اپنی نماز کے ذکر سجود اور رکوع کو  کم کیجئے ۔لیکن وہ حضرت اپنی زندگی کی آخری رات میں بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے راضی  نہ تھے ۔

بلکل ایسے کہ جس طرح ماں ،باپ ،چچا ،ماموں کسی جوان شخص کےارد گرد  گھوم کر اس کی خوشامد کریں کہ دیکھو یہ لڑکی جو تم نے اپنے لئے پسند کی ہے ،یہ دین و دنیا کے  لحاظ سےتمہارےاور تمہارے گھر والوں کے  لایق نہیں ہے ۔لیکن وہ جوان ہے کہ ماننے کو تیّار ہی نہیں  ،جواب ملتا ہے ہونے دو مجھے تو اسی لڑکی سے شادی کرنی ہے ،اگر آپ لوگ راضی ہیں توٹھیک ہے  ورنہ میں   کسی اور لڑکی سے شادی نہیں کروں گا یاپھر  خود کشی کر لوں گا۔

بس آیت اللہ بروجردی کی مثال بھی کچھ ایسی ہی تھی۔انکا کہنا یہ تھا کہ جب میں رکوع میں جاتا ہوں تو گویا اپنے محبوب کے حضور میں ہوتا ہوں اور اسکا لطف حاصل کرتا ہوں ۔تم کہتے ہو کہ میں اس محضر میں کمی اختیار کرلوں؟میں ایسا نہیں کرسکتا۔

جب کبھی  آپ نماز کے لئے مسجد اعظم میں نہیں آپاتے تھے۔میں نےان کے خادم کو دیکھا ہے (ویسے میں نے خود ان حضرت کو بھی دیکھا ہے اور ان کی نماز میں بھی شامل ہوا ہوں )وہ کہتا ہے:   کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ  اگر ظہر کا وقت ہو گیا اور آیۃ اللہ بروجردی  مصروفیات کی وجہ سے مسجد نہیں پہنچ سکتےتو وضو کرنے کے بعد اپنے کمرے میں جاتے اوراندر سے تالا لگا لیتے چونکہ  کمرے  کی چابی آپ کی جیب ہی میں ہوتی  تھی اور  آپ نماز ظہر وعصر کو  جو کہ آٹھ رکعت ہے اور جس کو پانچ منٹ میں پڑھا جا سکتا ہے ،ایک گھنٹے سے زیادہ میں ادا کرتےتھے  ،میں (خادم)کھانا لئے کمرے کے دروازہ پر کھڑاانتظار  کرتا رہتا کہ کب آپ کی نماز کے دوسرے اور آخری سلام کی آوازسنوں ۔اس کے علاوہ نماز کے دوران زیادہ گریا کرنے کی وجہ سے آپ کے کپڑے بھیگ جاتے تھےاور بدلنے کے لیئے دوسرے کپڑے دینے ہوتے تھے ۔

اے جوانوں،میں ایسی نماز اداکرنے کو نہیں کہتا جو خود ہم سے بھی ادا نہ ہو ،کیا واقعا ادا ہوسکتی ہے؟لیکن وہ ایسی ہی   نماز پڑھتے تھےجو اپنے آپ میں  کامل ہوتی تھی، جیسی نماز انبیاء(ع) اورائمہ نے پڑھی ہے۔اگر ہم ویسی   نماز ادا   نہیں کر سکتے تو کم از کم ایسی نماز تو ادا کریں کہ جوشاخ ودم نہ رکھتی ہواور اس کی شکل و صورت بگڑی ہوئی نہ ہو کم از کم ایسی نماز تو ہوجس طرح بزرگان دین نماز ادا کرتے تھے، یہ جو ماجرہ میں نے بیان کیا میں نے کسی سے سنا نہیں ہے بلکہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے  ان چند نمازوں کا شاہد رہا ہوں اوران کا مزہ ابھی تک باقی ہے۔میں نے کبھی خود ایسی نماز ادا نہیں کی ہے لیکن ایسی نماز وں کو دیکھا ہے۔بلکل ایسے ہی جیسے کہا جاتا ہے:شادی تو نہیں کی ہے لیکن باراتیں دیکھی ہیں۔

اسلام شہر میں جس کا پرانا نام شاہ پسند تھا ،ایسی ہی حقیقی اور کامل نمازکی جھلک ایک حمّال میں دیکھنے کو ملی جسے کبھی بھلا نہیں سکتا، میں نے اسکی نماز کوحس کیا ہے ،جب وہ شخص نمازکے سلام کو ادا کرنے لگاتو میں نے دیکھا اس کی عجیب حالت تھی وہ روتا جاتا اور سلام پڑھتا جاتا  اس نے دنیا سے قطع تعلق کر رکھا تھا خدا کی قسم ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ  پیغمبر کو دیکھ کر ان پر سلام بھیج رہا ہو کیونکہ” السّلام علیک”میں خطاب ظاہری شخص سے ہے کیونکہ “علیک”میں جو کاف ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ  گویا نماز پڑھنے والا

 پیغمبر کو دیکھ کر ان پر سلام بھیج رہا ہے،اس جملہ میں سلام خطابی صورت رکھتا ہےتو پھر السلام علیک کہہ کر  جو  سلام کیا جا رہا ہے یہ اس شخص  کے لئے ہے جو حاضر ہےاور نماز پڑھنے والا اس کو دیکھ رہا ہے۔

ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ شخص پیغمبر کو دیکھ کر سلام کر رہا ہو،گویا”السلام علیک” کہہ کر تمام فرشتوں ،مومنین اور صالحین کی روحوں پر سلام بھیج رہاہو ۔چونکہ یہاں پر سلام کا خطاب حضوری ہے علیکم کے معنی  یعنی میرا سلام ہو ان سب پر جن کو میں مشاہدہ کر رہا ہوں ۔

پروردگار کی رحمت تک پہنچنے کا یہ وہ راستہ ہے جس کو پروردگار عالم نے اپنی کتاب قرآن  مجید میں بیان کیا ہے،حقیقت میں نماز کے الفاظ اس کے پراکندہ عناصر ہیں اس نے لفظوں کو ہمارے اختیار میں دیا ہے یا اس نے اس کی حالت و کیفیت کو ہمارے لئے بیان کر دیا ہے اور خدا نےہم سے یہ مطالبہ کیا ہے  کہ اس نماز کو اپنے وجود میں کامل کرکے میرے سپرد کر دو ،اس کے بعد تمہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ۔جب میں اس بے نقص و عیب نماز کو لے لوں گا تو اس کو اپنے پاس محفوظ بھی رکھوں گا۔

ارشاد ہوتا ہے:”وما تقدّموالا نفسکم من خیر تجدوہ عند اللہ” مرنے کے بعد جب تم میری بارگاہ میں آؤ گے تو اس  کو حاضر پاؤ گے،اس حال میں کہ “ھو خیرا و اعظم اجرا” اس کو اجر وخیر  کے ا لحاظ سے بہتر اور افضل پاؤگے اس وقت میں تمہاری اس نماز کو جو میں نے تم سے لی تھی اپنی رضایت اور بہشت کی شکل میں تمہاری ملکیت قرار دے دوں گاچونکہ مجھے تمہاری نمازوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ تم ہو جنہیں میری نمازوں کی ضرورت ہے ، میں تمہاری نمازوں کا فقیر نہیں ہوں چاہے پڑھو یا نہ پڑھو لیکن تم میری نمازوں کے فقیر ہو ،تم بغیر نماز کے کسی مقام تک نہیں پہنچ سکتے ،تم میری نماز وں کے بغیر میری رحمت تک نہیں پہنچ سکتے،بیٹھ کر الٹی سیدھی باتیں نہ کیا کرو کہ خدا کو ہماری نماز کی ضرورت ہے اسی لئے میں نماز نہیں پڑھتا۔

میں ایسے شخص سے یہ پوچھنا چاہوں گاکہ کیا آپ  انبیاء(ع) سے بہتر سمجھتے ہیں ؟کیا وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ خداوند عالم غنی ہے؟کیا آپ کواب پتا چلا ہے؟نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ہم تمام چیزوں میں اس کے محتاج ہیں اور خدا کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔

تبصرے
Loading...