گناہ دعا کی قبولیت میں مانع ہے

پہلی روایت: وَعَنْہُ عَلَیْہِ السَّلام: مَرَّمُوْسٰی بِرَجُلٍ مِنْ اَصْحَابِہِ وَھُوَ سَاجِدٌ وَانْصَرَفَ مِنْ حَاجَتِہِ وَھُوَ سَاجِدٌ فَقَالَ لَوْکَانْتَ حَاجَتَکَ بِیَدِیْ لَقَضَیْتُھَالَکَ فَاَوْحیٰ اللّٰہُ اِلَیْہِ یَامُوْسٰی لَوْسَجَدَ حَتْیٰ اِنْقَطَعَ عُنُقُہ مَاقَبِلْتُہ اَوْیَتَحَوَّلُ عَمَّا اَکْرَہُ اِلٰی مَااُحِبُّ۔ (عدة الداعی ص ۱۲۵) حضرت موسیٰ (علیہ

پہلی روایت:

وَعَنْہُ عَلَیْہِ السَّلام: مَرَّمُوْسٰی بِرَجُلٍ مِنْ اَصْحَابِہِ وَھُوَ سَاجِدٌ وَانْصَرَفَ مِنْ حَاجَتِہِ وَھُوَ سَاجِدٌ فَقَالَ لَوْکَانْتَ حَاجَتَکَ بِیَدِیْ لَقَضَیْتُھَالَکَ فَاَوْحیٰ اللّٰہُ اِلَیْہِ یَامُوْسٰی لَوْسَجَدَ حَتْیٰ اِنْقَطَعَ عُنُقُہ مَاقَبِلْتُہ اَوْیَتَحَوَّلُ عَمَّا اَکْرَہُ اِلٰی مَااُحِبُّ۔ (عدة الداعی ص ۱۲۵)

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا گزر ایک شخص کی طرف سے ہوا جو ان کے اصحاب میں سے تھا، وہ سجدے کی حالت میں تھا ، پھر جب موسیٰ اپنے کام سے فارغ ہو کر واپس آئے تب بھی اُسے سجدے میں دیکھا تو آ پ نے فرمایا، اگر تمہاری حاجت بر آوری میرے اختیار میں ہوتی تو میں خود تمہاری حاجت پوری کرتا۔

خداوند تعالیٰ نے موسیٰ پر وحی نازل کی کہ اگر یہ شخص میرے لئے اتنے سجدے کرے کہ اس کی گردن کٹ جائے پھر بھی میں اس کے اعمال قبول نہیں کروں گا یہاں تک کہ وہ جو چیز مجھے نا پسند ہے اس سے روگردانی نہ کرے اور جو مجھے پسند ہے اُسے بجا لائے (یعنی گناہوں سے پرہیز کرے اور عبادات بجا لائے) ورنہ گناہ دعا کی قبولیت کو روک لیتا ہے۔

گناہ ترک کرنا حقیقی عبادت ہے

دوسری روایت:

اَصْلُ الدَیْن الْوَدَعُ کُنْ وَرِعاً تَکُنْ اَعْبَدَ النَّاسِ کُنْ بِالعَمَل بِالْتَّقْویٰ اَشَدَّ اِھْتِمَاماً مِنْکَ بِالعَمَلِ بِغَیْرِہِ فَاِنَّہُ لاَ یَقِلُّ عَمَلٌ یَتَقَبَّلُ لِقَوْلہٍ تَعَالٰی اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنِ (الداعی)

گناہوں سے پرہیز کرنا دین کی بنیاد ہے۔ اس لیے گناہ سے اجتناب کرو تاکہ سب سے زیادہ عبادت گزار متقّی ہو جاؤ اور سختی کے ساتھ اپنے آپ کو تقویٰ سے مزیّن کرنے کا اہتمام کرو۔ تقویٰ کے بغیر کوئی عمل بجا نہ لاؤ۔ یقیناوہ عمل مقبول ِالٰہی ہے ، جس کے ساتھ تقویٰ ہو اگرچہ عمل مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا صرف پرہیز گاروں کے (اعمال) قبول کرتا ہے۔

یعنی اگر تم نے گناہ سے دوری اختیار کی اگرچہ تمہارا عمل کم سے کم کیوں نہ ہو ، قبول ِ درگاہ ِ الہٰی ہو تا ہے اور مقبول عمل اس لحاظ سے جب کہ رب العالمین نے اسے شرف ِ قبولیت بخشا ہو کم عمل اور چھوٹا عمل نہیں کہا جا سکتا

 
گناه

 

ترک گناہ حقیقی عادت ہے

روایات کے پیش نظرگناہ سے زیادہ ڈرنا چاہیئے اور بہت ہوشیارہنا چاہیئے، تب جا کر اس سے نیک کام صادر ہوتا ہے، اور ان نیک کاموں کو آل ِ محمد (علیہم السلام) کے قرب و جوار کے منازل اور اعلیٰ درجات تک پہنچانا چاہیئے۔ مبادا گناہ کے ارتکاب سے وہ ضائع اور برباد ہو جائے۔ ایسے خسارے اور نقصان سے بہت ہوشیار رہنا چاہیئے جس سے انسان اپنے ہی ہاتھوں اپنے نیک اعمال کے ذخیرے کو ضائع کرتا ہے۔

نیک اعمال گردوغبار کی طرح پراگندہ ہو سکتے ہیں

عَنْ سُلَیْمَانِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ سَئَلْتُ اَبَاعَبْدِاللّٰہِ (ع) عَن قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَقَدِ منَا اِلٰی مَاعَمِلُوا مِنَ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاءً مَّنشُوْراً قَالَ اَمَا وَاللّٰہُ وَاِنْ کَانَ اَعْمَالُھُمْ اَشَدَّ بَیَاضاً مِنَ الْقَبَاطِیْ وَلٰکِنْ کَانُوْا اِذا عَرَضَ لَھُمْ حَرَامٌ لَّمْ یَدْعُوْہُ (عدة الداعی)

سلیمان بن خالد کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اس قول ِ خدا کے بارے میں پوچھا، ٌہم نے قصد کیا اُس عمل کا جو خوبصورت شکل میں ہے پھر اس عمل کو ذروں کی طرح ہوا میں بکھیر دیتے ہیں تو حضرت نے فرمایا؛ خدا کی قسم اگرچہ ان کے اعمال مصری کپڑوں کے مانند زیادہ سفید ، چمکدار بھی ہوں گے مگر جب ان کے سامنے گناہ اور حرام نمودار ہوتا ہے تو وہ اسے چھوڑتے نہیں ہیں۔ ٌ

بعبارت دیگر ان کے اعمال تقویٰ نہ ہونے اورحرام میں مرتکب ہونے کی بنا پرگردوغبار کی طرح فضا میں پراگندہ ہوتے ہیں ایسے اعمال کی قدروقیمت ہی نہیں ہوتی۔

علامہ مجلسی علیہ الرحمة والرضوان اس حدیث کی شرح کے ضمن فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ عبادات واطاعات گناہ کی سبب سے فنا ہوتی ہیں ۔

بے شمار پرھیز گار لوگ جنت میں جائیں گے

قَالَ اَبُوْ عَبْداللّٰہِ (ع) اَوْحیٰ اللّٰہُ تَعالٰی اِلٰی مُوْسٰی اِنَّ عِبَادِیْ لَمْ یَتَقَرّبُوْا اِلیَّ بِشَیٴٍ اَحبِّ اِلَیَّ مِنْ ثَلَاثِ خِصَالٍ قَالَ مُوْسٰی یَارَبِّ وَمَاھُنَّ قَالَ تَعَالٰی یَامُوْسٰی الزُّھْدُ فِی الدُّنْیَا واَلْوَرَعُ عَنْ مَّعَاصیْ وَالبُکَاءُ مِنْ خَشْیَتِیْ قَالَ مُوْسٰی مَالِمَنْ صَنَعَ ذا؟ فَاَوْحیٰ اللّٰہُ اِلَیْہِ اَمَّا الزَّاھِدُوْنَ فِی الدُّنْیَا فَفِیْ الجَنَّةِ وَاَمََّا البَکَّاوٴُنَ مِنْ خَشْیَتِیْ فَفِیْ الرَّفِیْع اِلْاَعَْلٰی لاَ یُشَارِکُھُمْ فِیْہِ اَحَدٌ غَیْرُ ھُمْ وَاَمَّا الْوَرِعُوْنَ عَنْ مَّعَاصِیْ فَاِنِّیْ اُفَتِشُ النَّاسَ وَلاَ اُفْتِیْشُھُمْ(عدة الداعی)

حضرت صادق آلِ محمدعلیہ الصٰلوةوالسلام نے فرمایا:اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر وحی نازل کی اور فرمایا یقینا میرا بندہ میرے نزدیک نہیں ہو سکتا مگر میری پسندیدہ تین چیزوں کے بغیر۔حضرت موسیٰ نے عرض کی میرے پالنے والے وہ تین چیزیں کونسی ہیں؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛اے موسیٰ وہ تین چیزیں دنیا میں زہد سے کام اور گناہوں سے پرہیز کرنا اور میرے خوف سے گریہ کرناہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:پروردگار !جو یہ چیزیں بجا لایا اس کے لیے کیا اجروثواب ہے؟فرمایا:دنیا میں زہد سے کام لینے والوں کے لیے بہشت ہو گی اور میرے ڈر سے گریہ کرنے والوں کے لیے ایسا بلند مقام ہو گا جہاں ان کے علاوہ اور کسی کو ٹھہرنے کی گنجائش نہیں ہو گی ۔لیکن میری نافرمانی سے پرہیز کرنے والوں کے لیے بے شک تمام مخلوق کے اعمال کی باز پرس ہو گی مگر ان کے اعمال کا حساب و کتاب نہیں ہو گا ااور بغیر حساب بہشت میں داخل ہوں گے۔

تبصرے
Loading...