کیا بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کی سزا عاقلانہ تھی؟

سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۵۴ میں ارشاد ہوتا ہے “اور وہ وقت بھی یاد کرو جب موسٰی علیھ السّلام نے اپنی قوم سے کہا کہ تم نے گو سالہ بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے. اب تم خالق کی بارگاہ میں توبہ کرو اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کہ یہی تمہارے حق میں خیر ہے. پھر خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی کہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے-” قابل غور ہے کہ یہاں پر جہالت کے کفارہ کو جو کہا گیا ہے کہ بہترین کفارہ ہے ، کیا ایک دوسرے کا قتل کرنا ایک عاقلانہ کام ہے کہ خداوند متعال نے بنی اسرائیل سے ایسا کرنے کو کہا ہے؟
ایک مختصر

مفسرین نے اس آیہ شریفہ مین قتل کرنے کے حکم کے بارے میں خداوند متعال کی مراد کے سلسلہ میں تین احتمالات بتائے ہیں

۱۔ یہ حکم ، امتحانی حکم تھا ، اور بنی اسرائیلیوں کے توبہ کرنے کے بعد اس حکم کو اٹھالیا گیا ہے۔

۲۔ اس آیہ شریفہ میں قتل سے مراد نفسانی شہوتوں اور شیطانی وسوسوں سے اجتناب کرنا ہے۔

۳۔ آیہ شریفہ میں قتل سے مراد، حقیقی معنوں میں قتل ہے ، یعنی تم لوگ ایک دوسرے کو قتل اور ہلاک کر ڈالو، اور اس حکم کا فلسفہ ممکن ہے مندرجہ ذیل تمام مقاصد یا ان میں سے کوئی ایک ہو:

الف: بنی اسرائیل کو کفر و شرک سے پاک کرنا۔

ب: اس قسم کے گناہ کبیرہ کو دہرانے سے روکنا۔

ج : توحید کے اصول سے منحرف ہو کر بت پرستی کی طرف میلان پیدا کرنے کے مسئلہ کی اہمیت۔

بہر صورت ، شدید ترین سزاوں کو برداشت کرنا ، دوزخ سے رہائی پانے کی قیمت ہوسکتی ہے۔
تفصیلی جوابات

خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: اور وہ وقت بھی یاد کرو جب موسٰی )ع( نے اپنی قوم سے کہا کہ تم نے گو سالہ بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے. اب تم خالق کی بارگاہ میں توبہ کرو اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کہ یہی تمہارے حق میں خیر ہے. پھر خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی کہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔[1]

اس آیہ شریفہ میں جو خداوند متعال نے بنی اسرائیل کو ایک دوسرے کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے ، اس کے بارے میں مفسرین نے مندرجہ ذیل تین احتمالات بیان کئے ہیں:

۱۔ اس آیہ شریفہ میں قتل کرنے کا حکم ایک امتحانی حکم تھا ، جیسا کہ خداوند متعال نےحضرت ابراھیم کو حضرت اسماعیل )ع( کے قتل کئے جانے سے پھلے خطاب کیا:” اے ابراھیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا”[2] حضرت موسی )ع( کی داستان میں بھی خداوند متعال نے فرمایا: ” توبہ کرو اور ایک دوسرے کو قتل کرو کہ یہی تمھارے حق میں خیر ہے” ، لیکن خداوند متعال کے حکم کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنانے سے پہلے خداوند متعال نے بعض لوگوں کے قتل کو تمام لوگوں کے قتل کے برابر شمار کیا اور ان کی توبہ قبول کی۔[3]

۲۔ اس آیہ شریفہ میں قتل سے مراد نفسانی شہوتوں اور شیطانی وسوسوں سے اجتناب کرنا ہے ، اور آیہ شریفہ کے معنی یہ ہیں کہ نفسانی شہوتوں اور شیطانی وسوسوں کو اپنے سے دور کرو اور پورے خلوص کے ساتھ خدا کی وحدانیت کا اقرار اور اعترااف کرو۔ [4]

۳ -آیہ شریفہ میں قتل سے مراد، حقیقی معنوں میں قتل ہے ، یعنی ایک دوسرے کو قتل اور ہلاک کرو۔[5] کیونکہ یہ قتل ہونا تمھارے لیے دنیوی زندگی سے بہتر ہے ۔

جنھوں نے کہا ہے کہ قتل سے خداوند متعال کی مراد حقیقی معنوں میں قتل کرنا ہے ، انھوں نے اس قتل کے بارے میں خداوند متعال کے حکم کے سلسلہ میں کچھ فلسفے بیان کئے ہیں کہ ہم ذیل میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف: یہ قتل ہونا ، بنی اسرائیل کے شرک و کفر سے پاک ہونے اور انھیں جاودان اور ابدی زندگی ملنے کا سبب بن جاتا ہے۔ [6]

ب] انسان کو قتل کرنا ، اگرچہ ایک برا اور حرام کام ہے ، لیکن کبھی بعض مصلحتوں کے پیش نظر یہی کام نیک اور واجب بن جاتا ہے اور ایک قسم کی دینی اور اجتماعی مصلحت اس کے عنوان کو بدل دیتی ہے بنی اسرائیل کے بارے میں بھی چونکہ ان کا قتل ہونا اس قسم کے گناہ کبیرہ کو دہرانے سے روکنا تھا، اس لئے یہ ایک نیک کام اور ایک پسندیدہ حکم شمار ہوتا ہے۔[7]

ج] سامری کے گوسالہ کی پرستش کرنا کوئی معمولی کام نہیں تھا جب ایک پوری قوم ، خداوند متعال کی تمام آیات اور اپنے عظیم پیغمبر حضرت موسی)ع( کے عام معجزات کا مشاہدہ کرنے کے بعد، سب کچھ بھول کر اور حضرت موسی)ع( کی ایک مختصر غیر حاضری کے نتیجہ میں توحید کے بنیادی اصول اور دین خدا کو پائمال کرکے بت پرست بن جائے اور اگر یہ موضوع ہمیشہ کے لئے ان کے ذھن سے نابود نہ ہوجائے تو ایک خطرناک حالت رونما ہوگی ، اور ممکن ہے ہر فرصت کے بعد خاص کر حضرت موسی کی وفات کے بعد ان کی دعوت کی تمام آیات نابود ہوں گی۔ اور ان کے دین کا انجام مکمل خطرہ سے دوچار ہوگا اس لئے یہاں پر سخت رویہ اختیار کرنا چاھیئے اور پشیمانی اور زبانی توبہ پر ہرگز قناعت نہیں کرنی چاھیئے لہذا خداوند متعال کی طرف سے ایک شدید حکم صآدر ہورہا ہے جس کی انبیاء کی پوری تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے، اور وہ یہ کہ توبہ کرکے توحید کی طرف پلٹنے کے حکم کےضمن میں گناھگاروں کی ایک بڑی تعداد کو ایک خاص صورت میں [ اپنے ہاتھوں} اجتماعی طور پر قتل کرنے کا حکم صادر ہوا ہے۔

ان سزاوں کے شدید ہونے کی وجہ یہ ہے کہ توحید کے اصول سے منحرف ہونا اور بت پرستی کی طرف جانا کوئی سادہ مسئلہ نہیں تھا کہ اس سے آسانی کے ساتھ چشم پوشی کی جائے وہ بھی ان سب واضح معجزات اور خدا کی بڑی نعمتوں کا مشاھدہ کرنے کے بعد حقیقت میں تمام ادیان الھی کے تمام اصولوں کو توحید اور یکتا پرستی میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے ، اس اصول کے بارے میں تذبذب دین کے تمام اصولوں کے نابود ہونے کے مترادف ہے ، اگر گوسالہ پرستی کے بارے میں سادگی کے ساتھ چشم پوشی کی جاتی تو، شاید آنے والوں کے لئے ایک سنت بن جاتی ، خاص کر جبلی تاریخی شواھد کے مطابق بنی اسرائیل ھٹ دھرم اور بہانہ باز تھے ، لھذا ان کی ایک ایسی تنبیہ کی جانی چاھیئے تھی کہ جس کی یاد رہتی دنیا تک باقی رہتی کہ اس کے بعد کوئِ بت پرستی کا تصور بھی نہ کرسکے، شاید : ذلکم خیر لکم عند بارئکم ” [ یہ قتل عام آپ کے پروردگار کے پاس آپ کے لیے بہتر ہے] کا جملہ اس معنی کی طرف اشارہ ہے۔ [8]

آخر میں اس نکتہ کو بیان کرنا ضروری ہے کہ دنیا کی شدید ترین سزائیں آخرت کی معمولی ترین سزاوں کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہیں اور اسی بناء پر ، اگر انسان دنیا میں سخت ترین سزاوں کو برداشت کرکے قیامت کی طاقت فرسا سزاوں سے اپنے آپ کو نجات دلاسکے تو اس نے بیشک ایک سود مند معاملہ کیا ہے اور ہمارا اعتقاد ہے کہ اس دنیا میں خدا کی طرف سے حدود اور سزائیں ان افراد کے گناہوں کا کفارہ ہوں گی ، جنھوں نے دل سے توبہ کی ہو۔

مندجہ ذیل روایت پر توجہ فرمایئے :

چوروں کے ایک گروہ کو امیر المومنیں {ع}کی خدمت میں حاضر کیا گیا۔

مولا نے اس گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد کا ہاتھ کاٹ دیا اس کے بعد ان چوروں کو ایک مناسب جگہ پر لے جا کر حکم دیا کہ ان کے لئے ضروری معالجہ کا اقدام کیا جائے اور اس کے بعد ، ان سزا یافتہ افراد کی گوشت و شہد جیسی لذیذ عذاوں سے خاطر تواضع کی اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:’ : اے گناھگارو اس وقت تم لوگوں کے ہاتھ جہنم میں داخل ہوئے ہیں ، البتہ اگر تم لوگ توبہ کرو گے اور خدا جان لے کہ تم لوگ اپنی توبہ میں سچے ہو ، تو تمھارے ہاتھوں کو جہنم سے نجات ملے گی اور تم لوگ انھیں اپنے ساتھ بہشت میں لے جاو گے ، اگر ایسا نہ کیا تو تمھارے کٹے ہوئے ہاتھ تمھیں اپنے ساتھ جہنم میں لے جائیں گے۔ [9]

بنی اسرائیل کے مقتولین کے بارےمیں بھی مندرجہ ذیل دو احتمال میں سے ایک ممکن ہے:

۱۔ یا انھوں نے توبہ کی ہے اس صوت میں وہ ابدی بہشت میں داخل ہوں گے ، وہاں تک پہنچنے میں ہر قسم کی سختی برداشت کرنا قابل قدر ہے۔

۲۔ یا وہ اپنے باطل عقیدہ پر پابند رہے ہیں تو اس صورت میں نشانیوں اور معجزوں کا مشاھدہ کرنے کے باوجود ان کے باطل عقیدہ پر باقی رہنے کے پیش نظر ان کے لئے موت کی سزا بھی کم ہے۔

 

[1] بقره،54:” وَ إِذْ قَالَ مُوسىَ لِقَوْمِهِ يَاقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتخَِّاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلىَ بَارِئكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ ذَالِكُمْ خَيرٌْ لَّكُمْ عِندَ بَارِئكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيم “

[2] صافات، 105:” يا إِبْراهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيا”

[3] موسوى همدانى سيد محمد باقر، ترجمه الميزان، ج 1، ص: 288 (با اندکی تصرف) نشر: انتشارات اسلامى جامعه ى مدرسين حوزه علميه قم ، 1374 ش

طبع: پنجم

[4] كاشانى ملا فتح الله ، تفسير منهج الصادقين في إلزام المخالفين، ج 1، ص: 192، نشر كتابفروشى محمد حسن علمى، تهران ، سال چاپ: 1336 ش

[5] تفسير منهج الصادقين في إلزام المخالفين، ج 1، ص: 192

[6] تفسير منهج الصادقين في إلزام المخالفين، ج 1، ص: 192

[7] ترجمه مجمع البيان في تفسير القرآن، ج 1، ص: 179 تحقيق: رضا ستوده ، ،انتشارات فراهانى ، تهران، 1360 ش ، چاپ: اول

[8] مكارم شيرازى ناصر، تفسير نمونه، ج 1، ص: 256، نشر دار الكتب الإسلامية، تهران ، 1374 ش ، چاپ: اول

[9] کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 7، ص 266، ح 31، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365 هـ ش.

 

تبصرے
Loading...