کہانی بدل گئی، ایران بمقابلہ ترقی یافتہ امریکا و یورپی ممالک

حوزہ نیوز ایجنسی| چند دنوں سے ایک موصوف کی  تحریر گردش کر رہی ہے جس میں انہوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ کسی بھی ملک کے سیاسی نظام کی مضبوطی وہاں پر پیش آنے والے حوادث اور اموات سے لگائی جاسکتی ہے۔ پھر انہوں نے ایران کی مثال دی اور اس بات کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ ایرانی حکومت اور وزارت صحت کرونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کو کنٹرول نہ کرسکی اور یہ ایران کے سیاسی مذہبی نظام کی ناکامی ہے۔ ساتھ ساتھ یہ دعوی بھی کیا کہ یہ سب آیت اللہ خامنہ ای کی غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔

میرا نہیں خیال  کہ ان باطل اور تہمت سے بھرپور باتوں کو رد کرنے کے لئے بہت زیادہ پیچیدہ خبریں اور ایران کی داخلی معلومات کی ضرورت ہو۔ ان موصوف کے پیش کردہ اصولوں سے ہی اس تہمت کو با آسانی رد کیا جاسکتا ہے۔
اگر شرح اموات کسی بھی ملک کے سیاسی نظام کی مضبوطی کی علامت ہے تو www.worldometers.info کے مطابق  مورخہ 24 مارچ 2020 تک امریکا میں اس مہلک بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد کی کل تعداد 53 ھزار 667 اور ایران میں کرونا وائرس سے بیمار افراد کی کل تعداد 13 ھزار 964 تھی جبکہ اسی روز امریکہ میں اس وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد 225 افراد سے زیادہ تھی اور ایران میں ا22 کے لگ بھگ تھی۔ یہ بات بھی پوشیدہ نہ رہے کہ ایران میں اس تاریخ تک اس بیماری سے مکمل صحت یاب ہونے والے افراد کی کل تعداد 8 ھزار 913 تھی جبکہ امریکہ میں اس تاریخ تک صرف 378 افراد ہی ریکور ہو پائے ہیں۔ گرچہ امریکی آبادی ایران کی نسبت زیادہ ہے لیکن باقی مغربی ممالک کی آبادی ایران سے کم ہی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایران میں کرونا وائرس کا پہلا کیس فروری کے وسط میں سامنے آیا تھا جبکہ امریکہ و یورپی ممالک میں مارچ کے اوائل میں سامنے آیا، نیز ایران دنیا کا وہ واحد ملک کے جس پر ہر قسم کی پابندیاں آئد ہیں، وہ بہت سی اہم دوائیں اور میڈکل اکوپمنٹس درآمد نہیں کرسکتا، یہ پابندیاں بھی امریکہ اور یورپی ممالک کی ہی لگائی ہوئی ہیں۔ اگر نتیجہ لینا چاہیں تو ان موصوف کے اصولوں کے مطابق امریکا اور یورپی ممالک کا سیاسی اور میڈیکل نظام دنیا کا سب سے کمزور ترین نظام اور وھاں کے حکمران دنیا کے نا اھل ترین سیاسی حکمران ہیں۔ کیونکہ اسی وائرس نے اٹلی، اسپین، فرانس اور جرمنی میں جو تباہی مچائی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

اس کے علاوہ اگر ایران اور امریکہ و یورپی ممالک کے بازاروں اور سوپر مارکٹس کی عمومی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اخبارات اس بات کے گواہ ہیں کہ مغربی ممالک کی سوپر مارکٹس اور بازاروں میں ایک جنگ کا سماں ہے اور اکثر ضرورت کی اشیاء کم یاب دکھائی دے رہی ہیں۔ امریکا کی عوام نے سوپر مارکیٹس کو مادی جنگ کا میدان بنا رکھا ہے، بیت الخلاء میں استعمال ہونے والے ٹیشو پیپرز سے لیکر بچوں کے پیمپرز اور کھانے پینے کی اشیاء، یہاں تک کہ اسلحے کی فروشگاہوں پر بھی لمبی لمبی قطاریں نظر آنے لگی ہیں۔ جو سالوں سال پوشیدہ بد تہذیبی اور مادہ پرستی کی بنیاد پر قائم ثقافت کو دنیا کے سامنے عیاں کر رہی ہیں لیکن اس کے برعکس ایران کی سوپر مارکیٹس اور عمومی صورت حال میں کسی بھی طرح کی کوئی ایسی اضطراری اور بحرانی صورت حال دکھائی نہیں دے رہی بلکہ ایران میں مادی سوچ کو بالائے طاق رکھ کر بہت سے مالک مکان ایسے ہیں کہ وہ اپنے کرایہ داروں سے ماہانہ کرایہ تک وصول نہیں کر رہے ہیں، مساجد و مدارس ویلفیرز کی شکل اختیار کرچکے ہیں، عوامی رضا کار فورس بسیج اور سپاہ پاسداران روز اول سے لوگوں کی خدمت رسانی میں مصروف عمل ہیں۔ وائرس سے وفات پانے والے افراد کو غسل، کفن اور دفن کی ذمہ داری حتی ہسپتالوں میں موجود عملے کی مدد اور ان کی ضروریات کی حفاطت علماء اور طلاب ایثار اور جھادی ولولہ کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ آج ایران میں یہ تمام الہی اقدار اسی نظام کے توسط سے نافذ ہیں جس کے رھبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای ہیں۔

مادی بنیادوں پر قائم نظام اور الہی بنیادوں پر قائم ہونے والے نظام دونوں کی اعلی تریں مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مادیت دنیا کو ظاہری رونق تو بخش سکتی ہے لیکن دنیا کو کمال تک نہیں پہنچا سکتی، مادیت سے معاشرے میں ایثار، قربانی، الفت، بھائی چارگی اور دیگر اخلاقی فضائل کبھی وجود میں نہیں آسکتے بلکہ اس کے برعکس انسانی اقدار اور انسانیت کی بدترین تذلیل ہوتی دکھائی دیگی جس کی واضح مثال آج ہم مغربی ممالک میں دیکھ رہے ہیں ۔ لہذا بے جا تہمتیں لگانے والے حضرات کو دعوت دیتا ہوں کہ کینہ، بغض اور دشمنی کی عینک کو اتار کر لوگوں کو حقائق بتائیں اور ان کی پاکیزہ فطرت سے انہیں گمراہ نہ کریں۔

  حقیقت مٹ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
  کہ خشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

تحریر: ابو ثائر مجلسی

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...