کورونا واٸرس کی تباہ کاریاں اور اخلاق کی دھجیاں

حوزہ نیوز ایجنسی| کہتے ہیں کہ فضا میں تقریبا 196 کے قریب مختلف واٸرس بیکٹریا و جراثیم موجود ہیں۔ مگر  ان تمام جراثیم کے باوجود جتنا کورونا واٸرس کے بارے میں لکھا اور پڑھا گیا ہے کسی اور واٸرس کے بارے میں اتنا لکھا اور پڑھا نہیں گیا۔ 
یہ وہ واٸرس ہے جس نے اپنے پھیلنے کی رفتار میں اتنی تیزی دکھا دی کہ غیر متوقع طور پر  پرواز کرتی دنیا کو نہ فقط پرواز سے روکا بلکہ ناقابل یقین حد تک ساکت و جامد بھی کردیا۔ فضاٶں میں سیر کرتے جہازوں سے لے کر سمندر کا سینہ چیرتی آبدوزوں تک، تیز چلتی گاڑیوں سے لے کر سمندر کے سینے پر کھڑے بحری بیڑوں تک، دن رات کی تفریق  سے ماورا ٕ عالمی منڈیوں اور مارکیٹوں سے لے کر اسٹاک ایکسچینج تک،  عبادات گاہوں سے لے کر قمار خانوں تک،  ترقی یافتہ ملکوں سے لے کر ترقی پذیر ممالک تک،  رنگ برنگے شہروں سے لے کر خاموش و پرسکون دیہاتوں تک اور  تعلیم و تربیت کے اداروں سے لے کر  شباب و کباب کے کلبوں تک، سب کے سب کو سنسان و ویران کر کے پہلی بار اس مشینی زندگی کو مکمل طور پر جام کر کے رکھ دیا ہے۔ 
صرف یہی نہیں بلکہ کم سے کم ہوتے ہوئے انسانی لباس کو ایک بار پھر نہ صرف سر تا پا پہنچا دیا بلکہ نقاب و حجاب کا مزاق اڑانے والوں کو بھی ایک بار پھر منہ ڈھانپنے پر مجبور کردیا۔
دنیا میں انسانی اموات میں بالترتیب سر فہرست پانچ ممالک شام، عراق، یمن ، افغانستان اور لیبیا کی جگہ بالترتیب امریکہ ، اٹلی ، اسپین ، فرانس و برطانیہ  قرار پائے ہیں۔جس کا سابقہ حالات میں کوٸی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
دنیا کی نظر میں اس بیماری کی ابتدا ٕ ظاہرا چین کے صنعتی اور ترقی یافتہ شھر ووہان سے ہوئی ۔ شروع میں امریکہ(بہادر) نے اسے چینی واٸرس قرار دیا، یہاں تک امریکہ نے گروپ سیون کے سربراہی اجلاس میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے انجام پانے والے اجلاس میں بھی کورونا واٸرس کو چاٸنا واٸرس اور ووہان واٸرس کانام دینے پر اصرار کیا تھا۔ چین کے بعد دنیا نے اس واٸرس کا دوسرا مرکز ایران بالخصوص شھر قم کو قرار دیا۔ ایک متعصب اخبار نے  شھر قم کو آفت زدہ قرار دیتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ پاکستانی طلاب سمیت لوگ قم کی سڑکوں پہ مر رہے ہیں اور شدید غذاٸی قلت کا شکار ہے، جب کہ ہم الحمد للہ اب بھی اسی شھر میں ہیں ۔جہاں نہ تو  کوٸی وباٸی صورت حال ہے اور نہ ہی کسی غذاٸی قلت کا سامنا بلکہ دیگر ممالک کے برعکس یہاں نہ صرف غذاٸی اجناس معمول سے کم ریٹ پر مل رہے ہیں بلکہ ماسک سے لے کر جراثیم کش سامان حکومت، دینی اداروں اور سپاہ پاسداران کی طرف سے مفت گھروں میں پہنچائے جارہے ہیں ۔ پچھلے سالوں کی نسبت اس سال شرح امداد بھی دگنی بڑھ چکی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے حکم کے بعد مسجد ، امام بارگا ہوں اور مدارس کو امدادی مراکز میں تبدیل کردیا گیا ،اور مدارس کے طلبہ نےعوام اور رضاکاروں کے ساتھ مل کر فلاحی کام شروع کردیا۔ 
کورونا کی تباہ کاریوں کے سلسلے میں ایران  واحد ملک ہے جس نے بغیر کسی لاک ڈاون، خدا کی مدد اور امام عصر کی نصرت سے اس مہلک واٸرس پر اب کافی قابو پالیا ہے۔
 غلط پروپیگنڈوں کی وجہ سے امام رووف علی بن موسی الرضا علیہ السلام اور کریمہ اہل بیت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے زاٸرین کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔چونکہ پاکستان میں ایک طبقہ واٸرس کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کا پابند سمجھ رہا تھا اس لیے میڈیا کی نظریں بھی تافتان باڈر پر  مرکوز رہیں۔  جبکہ چین ، سعودی عرب ،  امریکہ اور دیگر یورپی و عرب ممالک سے آنے والوں کے لیے کسی بھی قسم کے چیک اپ اور قرنطینہ کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔جس کی وجہ سے میرا پاکستان بھی اس وبا ٕ کی لپیٹ میں آگیا اور بات لاک ڈاون تک پہنچ گٸی ۔
آٸی ایم ایف کی سربراہ کرسٹینا جارجیوا نے کرونا واٸرس سے مقابلہ کرنے والے ملکوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پہ قرض کی فراہمی کے لیے پچاس ارب ڈالر کی رقم مختص کرنے کا جب اعلان کیا تو ایران کے مرکزی بینک کے سربراہ نے 6 مارچ کو IMF سربراہ کے نام خط میں پانچ ارب ڈالر کی فراہمی کا تقاضا کیا تھا تو امریکی وزیر خارجہ ماٸک پومپیو نے کہا کہ وہ اس حق میں نہیں اور ضرورت پڑنے پر مشہور ظالمانہ حق ”ویٹو“ کا استعمال کرنے کا اعلان کیا۔ نہ صرف یہ ظالمانہ اور غیر انسانی اقدام کیا بلکہ امریکہ نے تو بغیر کسی ثبوت کے چین کے ساتھ ساتھ ایران پر بھی کورونا واٸرس  پھیلانے کا جھوٹا الزام لگا دیا۔    
البتہ چین کے مطابق کرونا واٸرس کا اصل اور ابتداٸی  مرکز اٹلی ہے ۔امریکہ نے وہاں سے اس واٸرس کو امریکی فوج کی زیر نگرانی ایک ریسرچ لیباٹری میں جدید شکل دینے کے بعد اسے چین کے شہر ووہان میں پھیلایا پھر اس لیباٹری کو بند کردیا۔اور اس وبا ٕ کے منظر عام پر آنے سے قبل حفاظتی ریہر سل بھی کی گٸی۔اس بارے میں چین کی طرف سے اقوام متحدہ میں امریکہ پر الزام ایران کی تاٸید اور حالیہ دنوں میں بل گیٹس کے خلاف امریکی عوام کا احتجاج قابل غور ہے۔
البتہ مجھ جیسے کوتاہ بین کے لیے یہ فقط ایک الزام ہے۔ مگر جو امریکی باٸیوٹیررزم ہتھکنڈوں اور تاریخ سے آشنا بندہ تو بہتر جانتا ہے کہ بقول خود امریکی پروفیسر رابرٹ گالو کے کہ ”ہمیں کہا گیا تھا، افریقی نسل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے خفیہ طور پہ HIV VIRUS {ایڈز}کو بناٸیں تاکہ اس سے مطلوبہ نتیجہ نکال سکیں“
لہذا امریکہ سے کچھ بھی بعید نہیں۔ مگر یاد رکھیں واٸرس بھی آگ اور پانی کی طرح ہے جو جب تک کم ہے ہمارا غلام ہے مگر طاقت پکڑنے پر پھر کسی کو بھی نہیں بخشتا۔کچھ ایسا ہی حال اب امریکہ کا ہے۔
اس واٸرس نے اپنے منتظم کو بھی اب بری طرح لپیٹ میں لیا ہے۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکہ میں اب تک 76 ہزار 415 افراد موت کی نیند سوچکے ہیں۔جبکہ اس واٸرس سے بیمار ہونے والوں کی مجموعی تعداد 9 لاکھ 87 ہزار 322 ہوچکی ہے۔ 
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق امریکہ میں گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کورونا کے باعث دوہزار چارسو چورانوے افراد جاں بحق ہوئے ہیں ۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تازہ واقعے میں ایک اور بحری بیڑہ یو ایس ایس کڈ پر تعینات اٹھارہ اہلکار کورونا واٸرس کا شکار ہوئے ہیں جبکہ ان میں مزید اضافے کا خدشہ بھی ہے۔ 
امام علی علیہ السلام کے ایک فرمان کے مطابق ہمارا تمام انسانوں سے ایک مضبوط رشتہ خود انسانیت کا ہے لہذا ہمیں امریکہ سمیت پوری دنیا میں انسانی جانوں کی نقصان پر بہت دکھ اور افسوس ہے مگر
امریکہ میں اس وبا ٕ کی آمد کے ساتھ ساتھ امریکی عوام کا اخلاقی دیوانہ پن بھی کھل کر سامنے آگیا ہے۔مہذب و انسان دوست سمجھی جانے والی عوام ابتدا ٕ میں سپر مارکیٹوں پر دھاوا بول کر لوٹ مار کرتے ہوئے نظر آٸی۔ لاک ڈاون سے پہلے چھینا جھپٹی اور مار پٹاٸی عام تھی۔ مارکیٹوں میں اشیا ٕ خورد نوش نایاب ہوگٸی تھیں۔ لوگ اپنے گھر اور راشن کی حفاظت کے لیے اسلحہ کی دکانوں کی طرف رخ کر رہے تھے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر لاک ڈاٶن جلدی ہٹایا گیا تو حالت مزید خراب ہوگی ۔
  اگر یورپ کے حکومتی سطح پر اخلاقیات دیکھنا چاہیں تو یہی کافی ہے کہ 
چین نے اٹلی کو 680 ہزار ماسک بھیجے لیکن دوسرے نیٹو اتحادی ملک جمھوری” چک“ نے ان پر قبضہ کرلیا۔
فرانس نے اسپین کے ماسک پر قبضہ کیا اور خود امریکہ بہادر نے فرانس کے ماسک پہ قبضہ کیا۔سپر پاور امریکہ کا صدر اپنی عوام کو اسکارف سے استفادہ کرنے کا مشورہ دیتے نظر آٸے ،اس وقت امریکہ سب سے زیادہ کورونا سے متاثر ملک ہے،اور کرونا منتظم اعلٰی کی معیشت بھی بری طرح بیٹھ گٸی ہے۔
جبکہ چینیوں  نے مکمل طور پہ اس واٸرس کو اپنے ملک سے ختم کیا ہے . ایران نے اب تک بغیر لاک ڈاون کے اس واٸرس پر کافی حد تک  قابو پالیا ہے ۔
یہاں شرح اموات کافی کم اور شرح صحت کافی بڑھ گئی ہے۔
اس حوالے سے ایران نے کافی پیشرفت بھی کی ہے ۔ بقیة اللہ میڈیکل یونیورسٹی کی جانب سے کرونا ٹیسٹ کٹ بنانے کے بعد کافی مقدار میں یہ کٹس کرونا کی تشخیص کے لیے امریکی عوام کے نام بھیجنا چاہا تھا جسے امریکی  حکومت  نے شاید شرم کے مارے قبول کرنے سے انکار کیا۔ 
جبکہ کچھ لوگ سوشل میڈیا پہ ایرانی عوام کے سڑکوں اور گلیوں میں سڑنے اور مرنے کے منتظر تھے۔
اگر دیکھا جاۓ تو کورونا واٸرس نے انسان کی باغیانہ سوچ کو لگام اور اسکی بےبسی و عاجزی پہ مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ ایران و پاکستان سمیت دیگر تمام ممالک میں مذہبی طبقہ اور مذہبی این جی اوز اس مشکل ماحول میں انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جبکہ خود مغرب سمیت مشرق میں موجود یوایس ایڈ اور انکی چھتری کے نیچے انسانیت کی خدمت کا لاگ الاپنے والے این جی اوز ورکرز آپ کو کہیں نظر نہیں آتے صرف یہی نہیں بلکہ کورونا واٸرس نے انسانیت کے علمبرداروں کے اخلاقی زوال کو بھی واضح کیا ھے۔شاید یہ فرق نیکی کو واجب سمجھنے والے دین داروں اور نیکی کو ایک آپشن کے طور پہ سمجھنے والی ملحدانہ سوچ کا عملی عکس ہو.

تحریر : محمد بشیر دولتی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...