کلمہ انتظار فرج سے غلط مطلب نکالنا

* امام زمانہ(عج) کا قيام اور ديگر امور معمول کے مطابق انجام پائيں گے ايسا نہيں ہے کہ يہ سب معجزہ کے ساتھ انجام پاۓ گا- جيسا کہ امام صادق (ع) فرماتے ہيں: جب ہمار

* امام زمانہ(عج) کا قيام اور ديگر امور معمول کے مطابق انجام پائيں گے ايسا نہيں ہے کہ يہ سب معجزہ کے ساتھ انجام پاۓ گا- جيسا کہ امام صادق  (ع)  فرماتے ہيں:

جب ہمارے قائم (عج) قيام فرمائيں گے تو سب فقط زينوں (سواريوں )پر خون و پسينہ گرائيں گے اور نيند چھوڑ ديں گے يعني ايسا نہيں کہ سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہيں گے اور امام معجزہ کے ساتھ جنگ کريں گے نہ بلکہ سب اس جنگ ميں شريک ہونگے اپنا آرام و خون اس پر قربان کريں گے-

* امام زمانہ (عج) کے قيام سے پہلے لوگ اس قيام کے اسباب فراہم کريں گے اور تياري کريں گے جيسا کہ روايات ايک گروہ کے بارے ميں ذکر ہوا ہے کہ وہ امام مہدي کي حکومت کےليے تياري کريں گے

غيبت کے زمانہ ميں امام کي امامت کے قائل اور انکے ظہور کے منتظر ہر زمانے والوں سے افضل ہيں – – – وہ حقيقي طور پر مخلص سچے شيعہ اور اللہ کے دين کي طرف علانيہ اور خفيہ دعوت دينے والے ہيں –

* اگر انسان کسي امر ميں مکمل طور پر اصلاح نہيں کرسکتا تو اپني طاقت کے مطابق کرنا اس پر فرض ہے يہ اس سے ساقط نہيں ہوگا-

* يہ نظريہ کہ جلد ظہور ہونے کيلئے گناہ کريں مکمل طور پر غلط ہے کيونکہ جس طرح امام مھدي (عج) کي حکومت ظلم و جور کو ختم کرنے والي اور عدل و انصاف کو قائم کرنے والي ہے اس حکومت تک پہنچنے کا راستہ بہي اسي طرح ہے کہ اس راستے ميں نہ کسي پر ظلم ہے نہ شقاوت ہے نہ رياکاري اور جھوٹ ہے کبہي بہي مقدس ھدف کي بنا پر گناہ جائز نہيں ہوتا کيونکہ گناہ سے گناہ پيدا ہوتا ہے اور ظلم سے کبہي عدل جنم نہيں ليتا-

* واضح سي بات ہے کہ ايسا ضروري نہيں ہے کہ سب لوگ ظالم يا فاسد ہو جائيں تو پہر زمين کا ظلم سے بہر جانا ہوگا- نہ بلکہ اس سے مراد يہ ہے کہ دنيا ميں ظالم ہونگے اور مظلوم بہي ہونگے اور امام زمانہ کے محبين ہونگے جو مسلسل فعاليت اور کوشش سے آپکے ظہور کيلئے راہ ہموار کريں گے- جيسا کہ امام صادق نے فرمايا ہے !——-لا واللہ لاياتيکم حتي يشقي من مشقي و يسعد من سعد(کمال الدين ج 2 ص 346) يہ ظہور اس وقت تک بپا نہيں ہوگا جب تک ظالم اور نيک اپنے کام کاانجام نہ ديکہ ليں-

پس معلوم ہوا کہ اس روز ميں سب ظالم اور فاسد نہيں ہونگے بلکہ ظالموں کے ساتہ نيک بہي ہونگے البتہ ظالم اپنے ظلم کريں گے کہ معلوم ہوگا دنيا ظلم سے پرہوگئ ہے اور دنيا ميں اب نيک لوگوں کے لئے اب جگہ نہيں رہي- دوسري بات يہ ہے کہ آيات اور روايات ميں ہميں ظلم و ستم سے جنگ کرنے کي دعوت دي گئ ہے جيسا کہ آنحضرتغ– فرماتے ہيں:

يکون في آخر الزمان قوم يعملون المعاصي و يقولون ان اللہ قد قدرہا عليہمظ‌ الراد عليہم کشا ہر سيفہ في سبيل اللہ(الطرائف ج 2 ص344)

آخري زمانہ ميں ايک گروہ معصيت کرے گا اور کہيں گے کہ اللہ نے يہ انکي قسمت ميں لکہا تہا (يعني جبر کے قائل ہونگے) تو جو انکي باتوں کو رد کرے گا اس شخص کي مانند ہے کہ جس نے اللہ کي راہ ميں تلوار چلائي ہو-

*  يہ جو بعض روايات ميں آيا ہے کہ ظہور سے قبل پر علم اور پرچم باطل ہے اس سے مراد يہ نہيں ہے کہ معاشرہ کي اصلاح کيلئے ہر تحريک اور قيام با طل ہے نہ بلکہ اس سے مراد يہ ہے کہ ہر وہ قيام اور تحريک جو امام زمانہ کے نام سے شروع ہو (کوئ جھوٹا دعوي کرے) وہ باطل ہے – اسي ليے آئمہ نے حضرت زيد کے قيام اور انکي مانند اسي طرح کي ديگر کوششوں کي تائيد کي مثلا امام کاظم (ص)  فرماتے ہيں:

اہل قم ميں سے ايک شخص لوگوں کو حق کي طرف دعوت دے گا اس کے حامي محکم اور فولادي جذبوں والے ہونگے کہ جو جنگ سے تھکيں گے نہيں اور نہ دشمن سے خوف کھائيں گے فقط اللہ پر توکل کريں گے اور اچھي عاقبت ان کےليے ہے کہ جو اھل تقوي ہوں

امام خميني رہ فرماتے ہيں :

پوري دنيا کو عدالت سے بھرنا يہ ہم نہيں کرسکتے اگر کر سکتے تو ضرور کرتے ليکن چونکہ ايسا نہيں کرسکتے –اگر طاقت ہوتي تو ضرورت روکتے چونکہ ظلم روکنا ہمارا شرعي وظيفہ ہے ليکن يہ پوري دنيا کا ظلم چونکہ ہم نہيں روک سکتے تو ضروري ہے آپ  (ص)  تشريف لائيں ليکن ہم کو چاہيے کہ امام کي نصرت کے ليے کام کريں اس کام کے اسباب فراہم کريں اس طرح تياري کريں کہ ان کے آنے کے تمام اسباب مہيا ہوں-

يہ جو کہتے ہيں کہ ہر حکومت و علم انتطار فرج کے خلاف ہے يہ نہيں سمجھتے کہ يہ کيا کہہ رہے ہيں – يہ جو لوگوں کے ذہنوں ميں يہ ڈال رہيں ہيں ليکن خود نہيں سمجھتے کہ وہ کيا کہہ رہے ہيں حکومت صالح نہ ہو يعني لوگ ايک دوسرے پر تجاوز کريں-

ايک دوسرے کو قتل کريں اور مار ديں يہ سب قرآني آيات کے خلاف بات ہے فرض کرو ايسي اگر 200 روايات بھي ہو پس سب کو ديوار پر دے مارتے چونکہ يہ روايات قرآني آيات کےخلاف ہيں جو روايات يہ کہتي ہيں کہ نہي عن المنکر نہ کرو وہ قابل عمل نہيں ہے بلکہ آپ لوگ انکے تشريف لانے کے اسباب مہيا کريں اکٹھے ہوں مل جل کر کام کريں کہ انشاء اللہ حضرت ظہور فرمائيں ظ‌

اب جبکہ ہم زمانہ غيبت ميں ہيں ضروري ہے اسلام کے حکومتي احکام باقي رہيں اور جاري ہوں تاکہ لوگوں ميں فتنہ و فساد پيدا نہ ہو ضروري ہے اسلامي حکومت تشکيل پاۓ ظ‌ عقل بھي يہي کہتي ہے تاکہ اگر دشمنان اسلام ہم پر حملہ کريں ہم ان کو روک سکيں اگر مسلمانوں کي ناموس پر حملہ ہوگا تو ہم دفاع کرسکيں-

غيبت صغري سے ليکر اب تک ہزار سال اور چند صدياں گذر گئيں اور ممکن ہے لاکھوں سال اور گذر جائيں کبھي مصلحت پيدا نہ ہو کہ آپ (ص)  ظہور کريں تو اس مدت ميں اسلامي احکام اسي طرح پڑے رہيں گے ظ‌جاري نہ ہو ظ‌جو بھي کچھ کرے کرتا رہے ظلم و فساد ہوتا رہے؟

ايسي باتوں پر عقيدہ رکھنا تو اسلام کے منسوخ ہونے کے عقيدہ سے بھي بد تر ہے –

اب جبکہ غيبت کا زمانے ميں اللہ تعالي کي طرف سے کوئ خاص شخص اسلامي حکومت کي تشکيل کے ليے معين نہيں ہے تو ہماري شرعي ذمہ داري کيا ہے ؟ آيا اسلام کو چھوڑ ديں آيا اسلام صرف دو سو سال تک تھا اب ہمارے ليے کوئ تکليف نہيں يا يہ کہ حکومت بنانے کي کوئ ذمہ داري نہيں ہے اسلامي حکومت نہ ہونے کا معني يہ ہے کہ مسلمانوں کي کوئ حدود نہيں (نہ کوئ قانون نہ کوئ اجراء) ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بيٹھے رہيں- وہ جو کريں کرليں ہم خاموش رہيں –

تبصرے
Loading...