کربلا میں جوانوں کا کردار

“مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُواْ مَا عَاهَدُواْ اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضىَ نحَْبَهُ وَ مِنهُْم مَّن يَنتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُواْ تَبْدِيلا ” (الاحزاب/۲۳) 

” مومنین میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا، ان میں سے بعض نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا اور ان میں سے بعض انتظار کر رہے ہیں اور وہ ذرا بھی نہیں بدلے” 

مفسرین نے لکھا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) کربلا میں شھدا کو الوداع کہتے وقت اور کبھی شھدا کے سرہانے اس مندرجہ بالا آیت کی تلاوت فرماتے تھے۔ (تفسیر کنزالدقائق) 

دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو مادی زندگی کے خواہاں ہیں جبکہ بعض الہی لوگ بھی ہیں جو ان کے مقابلے میں اپنی جانوں کو خدا کی راہ میں قربان کرتے ہیں اور اسلام اور دین کی سربلندی کاباعث بنتے ہیں۔ جہاں اکثر انسانوں کا ہدف یہ ہے کہ وہ زندہ رہیں اور بہترین مادی زندگی سے لطف اندوز ہوں وہیں پر ایسے انسان بھی موجود ہیں جو قرب خدا کو حاصل کرنے کے غرض سے شہادت کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور اسلام کے پودے کی اپنے خون سے آبیاری کرتے ہیں اور بہشت میں اپنا مقام بنا لیتے ہیں ۔اسلام بھی اپنے پیروکاروں کو یقین دلاتا ہے کہ میدان جنگ میں قتل کرو یا مار دیئے جاؤکامیاب ہو اور خدا کے نذدیک تمہارا مقام عظیم ہے۔قرآن کریم نے ایسے افراد کو جو ایثار اور فداکاری سے اپنی جانوں کو خدا کی راہ میں قربان کرتے ہیں “وعدے کے پکے” اور “الہی عہد پر صادق رہنے والے” کے القاب سے یاد کیا ہے۔یہ مرتبہ ،خدانے شہدا کو عطا کیا ہے۔ اولیاء دین اور ان کے خالص پیروکار اس قسم کا جذبہ رکھتے تھے اور اسلام کی راہ میں جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔صدر اسلام میں بہت سے شھداء کی مثالیں تاریخ میں ثبت ہیں مگر کربلا میں ہمیں جس قسم کی مثالیں ملتی ہیں وہ بے نظیر ہیں۔۶ ماہ کے معصوم بچے سے لیکر ۹۰ سال کے بزرگ کے ایثار کی مثالیں عاشورا کے روز دیکھنے کو ملیں۔یہ وہ کردار ہیں کہ جو قرآن کی آیات کے مصداق ہیں ۔جی ہاں قربانی اور ایثار کی ایسی مثالیں کسی اور مکتب میں نہیں ملیں گی ۔یہ مکتب عاشورا ہے کہ جس میں ہر قسم کے صبر واستقامت،ایثار و قربانی،مبارزہ و جہاد اور لطف و مہربانی کے نمونے ملیں گے۔خود امام حسین علیہ السلام شہادت طلبی کے میدان میں سب سے آگے تھے اور اسی طرح آپ کے تمام اصحاب ، رشتہ دار اور بالخصوص جوانان بنی ہاشم شہادت کے جذبہ سے سرشار تھے۔ 

جس وقت سیدالشھدا امام حسین علیہ السلام مکہ سے حرکت کرنا چاہتے تھے تو آپ نے اپنے خطبے میں لوگوں سے فرمایاکہ جوبھی شہادت کا شوق رکھتا ہو وہ ہمارے ساتھ چلے۔ 

” مَنْ كَانَ فِينَا بَاذِلًا مُهْجَتَهُ فَلْيَرْحَلْ مَعَنَا ” (بحارالانوار/ج۴۴،ص۳۶۷) 

روز عاشورا جب سیدالشھدا نے اپنے اصحاب سےفرمایا کہ جو جانا چاہتا ہے اسے میری طرف سے اجازت ہے تو سب اصحاب نے یک زباں ہو کر کہا: 

“الْحَمْدُالِلّهِ الَّذى اكرمنا بنصرك و شَرَّفَنَا بِالْقَتْل مَعَكَ ،‌ او لا ترضی أَنْ نَكُون مَعَكَ فِي دَرَجَتِك يَابْنَ رَسُولِ اللَّه ” (کامل،ابن اثیر) 

“اس خدا کا شکر کہ جس نے ہمیں آپ کی نصرت اور یاری کی سعادت عطا کی اور ہمیں آپ کے رکاب میں شہید ہونے کا شرف بخشا۔آیا آپ نہیں چاہتے کہ ہمیں بھی آپ جیسا مرتبہ نصیب ہو؟” 

حر بن یزید،نے صبح عاشورا ایسی بصیرت کا مظاہرہ کیا کہ جسکی مثال نہیں ملتی۔ جب حر کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ عمر سعد کی فوج امام علیہ السلام سے جنگ ضرور کرے گی تو خود کو بہشت اور دوزخ کے درمیان دیکھا اور پھر بہشت کا انتخاب کرتے ہوئے امام علیہ السلام سے آ ملے اور اس راہ میں اپنی جان قربان کردی ۔ کربلا کے راستے میں حضرت علی اکبرعلیہ السلام کا اپنے والد گرامی سے یہ کہنا کہ اگر ہم حق پر ہیں تو پھر موت سے کیا ڈر؟شہادت طلبانہ طرز فکر کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔ 

سانحہ کربلا کی جانب نگاہ کی جائے تو شہادت طلبانہ جذبے کی بیشمار مثالیں ملیں گی ان تمام کو نقل کرنا یہاں پر مقصود نہیں ہے ۔اس تحریر میں نوجوان نسل کیلئے کربلا میں جوانوں کے کردار پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے امید ہے یہ کوشش جوانوں کیلئے مشعل راہ ہو گی اور ہمارے جوان موجودہ مشکل اور کٹھن دور میں کربلا کے جوانوں کو اپنا آئیڈيل بناتے ہوئے یذیدیت اور اس کی سازشوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنیں گے اور اپنے اندر شہادت اور شجاعت کا جذبہ پیدا کریں گے۔ 

علی اکبرعلیہ السلام،آینۂ جمال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم 

کربلا کے جوانوں کے سردار حضرت علی اکبر علیہ السلام اپنے جد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت شباہت رکتھے تھے ۔آپ علیہ السلام کے بارے میں تاریخ میں ہے کہ آپ علیہ السلام صورت، سیرت،خًلق اور خٌلق میں پیغمبر صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شبیہ ترین فرد تھے۔حضرت علی اکبر علیہ السلام کی اطاعت کربلا میں عجیب تھی۔ یہ اطاعت اس لیے نہیں تھی کہ امام حسین علیہ السلام سے آپ علیہ السلام کی رشتہ داری تھی اور چونکہ امام علیہ السلام آپ علیہ السلام کے والد تھے اس لیے آپ علیہ السلام مطیع تھے ،نہیں ،بلکہ حضرت علی اکبر علیہ السلام وقت کے امام اور ولی خدا کے تابع تھے ، وصی رسول اللہ کے مطیع تھے اور امام کی اطاعت کو واجب سمجھتےتھے۔ 

روز عاشورا جب امام علیہ السلام کے تمام اصحاب شہید ہو گئے تو بنی ہاشم کی باری تھی ۔بنی ہاشم میں سب سے پہلے میدان میں حضرت علی اکبر علیہ السلام گئے ۔حضرت علی اکبر علیہ السلام نے امام علیہ السلام سے میدان میں جانے کی اجازت چاہی تو امام علیہ السلام نے فورا اجازت دے دی ۔جیسے ہی حضرت علی اکبر علیہ السلام نے میدان کی جانب چلنا شروع کیا سیدالشہدا علیہ السلام کی آنکھوں سے اشک جاری ہوئے ۔ امام حسین علیہ السلام نے آسمان کی طرف نگاہ کی اور فرمایا: 

” اللهم اشهد فقد برز إليهم غلام اشبه الناس خلقا و خلقا و منطقا برسولك صل اللہ علیہ وآلہ وسلم و كُنَّا إِذا اشقنا إِلى نَبِيِّك نَظَرْنَا إِلَيْه ” (لھوف) 

“خداوند ! گواہ رہنا وہ جوان جو صورت ، سیرت اور گفتار میں تیرے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ ترین فرد میں سے ہے ، جنگ کے لیے جا رہا ہے اور ہم جب بھی تیرے نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کا شوق رکھتے اس جوان کی طرف نگاہ کرتے تھے”۔ 

حضرت علی اکبر علیہ السلام شجاعت اور بہادری سے دشمن سے لڑے اور وسط جنگ میں ایک بار آپ علیہ السلام کا جی چاہا کہ امام علیہ السلام کی ایک مرتبہ پھر زیارت کریں بس یہ سوچ کر امام علیہ السلام کے پاس آئے اور پانی طلب کیا حالانکہ جانتے تھے کہ امام علیہ السلام کے پاس پانی نہیں ہے ،امام علیہ السلام نے فرمایا :بیٹا جاؤ اور جنگ کرو، آپ کو جلد ہی آپ کے جد سیراب کریں گے۔ فرزند امام حسین علیہ السلام امام کی اطاعت کرتے ہوئے میدان میں لوٹے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ امام حسین علیہ السلام شبیہ رسول علیہ السلام کے جسد مبارک کے سرہانے تشریف لائے اور اپنی صورت اپنے لخت جگر کی صورت پر رکھ کر فرمایا: 

” قَتَلَ اللَّهُ قَوْماً قَتَلُوكَ يَا بُنَيَّ مَا أَجْرَأَهُمْ عَلَى الرَّحْمَنِ وَ عَلَى انْتِهَاكِ حُرْمَةِ الرَّسُولِ عَلَى الدُّنْيَا بَعْدَكَ الْعَفَا “(لہوف،بحار،الارشاد) 

“خدا اس قوم کو قتل کرے جس نے تجھے قتل کیا،انہوں نے خدا کی شان میں جسارت کی ہے اور رسول خدا کی بے حرمتی، تمہارے بعد اس دنیا کے سر پر خاک ہو!” 

ہاشمی جوانوں کا خون جوش میں آتا ہے 

حضرت علی اکبر علیہ السلام کی شہادت نے بنی ہاشم کے جوانوں کے درمیان عجیب جوش و ولولہ ایجاد کر دیا تھا ۔سب جوان شہادت کی تیاری کر رہے تھے اور شہید ہونے کیلئے مضطرب اور بے چین تھے مسلم بن عقیل کے فرزند عبداللہ بہت کم سن و سال کے تھے ، علی اکبر علیہ السلام کی شہادت کے بعد دشمن پر حملہ آور ہوئے ،عبداللہ لڑتے ہوئے یہ رجز پڑھ رہے تھے 

اليوم ألقى مسلما و هو أبي و فتية بادوا على دين النبي  

“آج مسلم سے ملاقات ہوگی جو میرے بابا ہیں اور ایسے جوانوں سے ملاقات ہوگی جو دین نبی پر فدا ہوگئے”(بحارالانوار) 

عبداللہ بن مسلم نے تین مرتبہ دشمن پر حملہ کیا اور تینوں مرتبہ کامیاب رہے اور ۸۹ دشمنوں کو ہلاک کیا یہاں تک کہ عمروبن صبيح الصيداوي او ر أسد بن مالك نے آپ کو شہید کر دیا۔ یہ دیکھ کر ہاشمی جوانوں اور آل ابو طالب عبداللہ بن جعفر کے بیٹوں عون و محمد اور محمد بن مسلم نے دشمن پر حملہ کردیا ۔امام حسین علیہ السلام نے جوانوں کی شجاعت دیکھ کر فرمایا: 

” صَبْراً يَا بَنِي عُمُومَتِي صَبْراً يَا أَهْلَ بَيْتِي فواللہ لَا رَأَيْتُمْ هَوَاناً بَعْدَ هَذَا الْيَوْمِ أَبَدا” (لہوف) 

“اے میرے بیٹو!اےمیرے اہل بیت!صبر کرو۔ خدا کی قسم آج کے بعد ذلت اور خواری نہیں دیکھو گے” 

یادگار امام مجتبی علیہ السلام 

امام حسن مجتبی علیہ السلام کے فرزند حضرت قاسم علیہ السلام نے کربلا میں ثابت کر دیا کہ ان کی رگوں میں امام حسن علیہ السلام کا خون موجود ہے ۔شب عاشورا امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو شہادت کی خوشخبری سنائی اور فرمایا: 

“يا قَوْم فَإِنِّي غَدا أُقْتَل ،وتُقْتَلُونَ كُلُّكُم مَعِي ، حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْكُم أَحَد” 

“کل میں مارا جاؤں گا اور آپ تمام بھی میرے ساتھ شہید کر دیے جاؤ گے اور آپ میں سے کوئی ایک بھی نہیں بچے گا” 

حضرت قاسم نے یہ سنا تو کھڑے ہو کر چچا سے سوال کیا: 

” وَانَا فِيمَن يُقْتَل ؟” 

“آیا میں بھی شہید ہوجاؤں گا؟ 

امام علیہ السلام نے جواب دیا: 

” يَا بُنَيَ !كَيْف الْمَوْت عِنْدِك ؟” 

“اے میرے بیٹے آپ کے نذدیک موت کیسی ہے؟” 

حضرت قاسم نے بلا فاصلہ جواب دیا: 

” يَا عَم ّّ! أَحْلَى مِنَ الْعَسَل” 

“اے میرے چچا جان!شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہے۔” 

امام حسین علیہ السلام نے یہ سن کر فرمایا! آپ کے چچا آپ پر قربان ہوں آپ بھی قتل کر دیئے جاؤ گے اور میرے فرزند عبداللہ بھی شہید ہوں گے۔(فرسان الھیجاء،ج۳ ،) 

حضرت قاسم نے روز عاشورا جنگ کا لباس زیب تن کیااور امام علیہ السلام سے میدان میں جانے کی اجازت طلب کی۔امام علیہ السلام اجازت دینا نہیں چاہتے تھے مگر قاسم کی منت سماجت اور شوق شہادت دیکھتے ہوئے امام مجبور ہو گئے اور حضرت قاسم کو میدان میں جانے کی اجازت دے دی۔ 

جناب قاسم میدان جنگ میں 

لشکر عمر سعد کا ایک راوی کہتا ہے کہ: 

ایک مرتبہ ایک جوان کو دیکھا جو گھوڑے پر سوار ہے اور اس کے سر پر عمامہ ہے۔ جوان اتنا حسین تھا ،اس کی تعبیر کے مطابق ” كأنه فلقة القمر” جیسے چاند کا ٹکڑا ہو۔راوی کہتا ہے قاسم جیسے جیسے نذدیک آئے ، ان کے گالوں پر اشکوں کے موتی ابھی بھی تھے۔سب حیران تھے کہ یہ جوان کون ہے؟ وہ قریب آئے اور للکار کر بولے: 

إن تنكروني فأنا ابن الحسن سبط النبي المصطفى و المؤتمن  

هذا حسين كالأسير المرتهن بين أناس لا سقوا صوب المزن  

” اگر مجھے نہیں پہچانتے میں حسن کا بیٹا ہوں جو نبی مصطفی اور امین کے فرزند ہیں، یہ حسین ہیں جو لوگوں کے درمیان قیدی کی مانند ہیں،خدا کرے یہ لوگ باران رحمت خدا سے سیراب نہ ہوں” 

جناب قاسم جیسے ہی میدان میں گئے ،حسین نے گھوڑے کی باگیں ہاتھوں میں تھام لیں جیسے کسی سانحہ کے منتظر ہوں ۔اتنے میں ایک آواز سنائی دی “یا عمّاـہ ” ،راوی کہتا ہے کہ ہم نہیں دیکھ سکے کہ حسین کیسے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوئے بس اتنا دیکھا کہ وہ شکاری باز کی مانند قاسم کے جسد پر پہنچے اور انہیں یہ کہتے سنا : 

” يَعَزُّ وَ اللَّهِ عَلَى عَمِّكَ أَنْ تَدْعُوَهُ فَلَا يُجِيبَكَ أَوْ يُجِيبَكَ فَلَا يُعِينَك ” 

” خدا کی قسم تیرے چچا کیلئے یہ کتنا سخت ہے کہ تو اسے مدد کیلئے پکارے اور وہ تجھے جواب نہ دے سکے اور تیری مدد کو نہ پہنچ سکے اور تجھے نجات نہ دلا سکے، ،خدا کی رحمت سے دور ہو وہ گروہ جس گروہ نے تجھے شہید کیا۔” 

عبداللہ ابن حسن مجتبی علیہ السلام 

عبداللہ بن حسن کم سن و سال کے تھے ۔جب امام حسین علیہ السلام کو دشمنوں کے محاصرے میں دیکھا تو خیمے سے باہر دوڑے ،حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے عبداللہ کو پکڑا ،امام علیہ السلام نے یہ منظر دیکھا تو بہن سے کہا :عبداللہ کو میدان میں مت آنے دو۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے عبداللہ کو روکنا چاہا مگر وہ نہ رکے اور کہنے لگے: 

“لا افارق عمّی” 

“خدا کی قسم !چچا جان سے جدا نہیں ہوسکتا” 

یہ کہکر میدان میں پہنچے ۔اس وقت “ابحر بن کعب” شمشیر کو امام علیہ السلام پر وار کرنے کیلئے بلند کر چکا تھا۔عبداللہ نے یہ دیکھ کر خود کو امام علیہ السلام کے سینے پر گرا دیا اور اپنے ہاتھ سے شمشیر کے وار کو روکا۔تلوار نے اس معصوم بچے کے ہاتھ کو کاٹ ڈالا۔عبداللہ نے چیخ کر کہا:” یا ابتاہ ، یا عماہ” ۔ امام علیہ السلام نے اپنے سینے سے عبداللہ کو لپٹا لیااور فرمایا: 

“میرے بچے !صبر کرو!جلد ہی آپ اپنے جد کے پاس پہنچ جاؤ گے” 

ادھر حرملہ نے جب بچے کو حسین علیہ السلام کی گود میں دیکھا تو ایک تیر مارا جس سے بچہ شہید ہو گيا۔(منتھی الا مال) 

عون و محمد کی شہادت 

طبری اور ابن اثیر لکھتے ہیں: 

جب امام حسین علیہ السلام مکہ سے روانہ ہوئے تو عبداللہ ابن جعفر نے عون و محمد کو امام کے ہمراہ کیا اور نصیحت کی کہ امام کا ساتھ کسی صورت میں مت چھوڑنا چاہے جان قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔تاریخ میں ہے کہ عون اپنے بھائی محمد کی شہادت کے بعد میدان میں گئے اور تین سوار اور 8 پیادہ دشمنوں کو ہلاک کیا اور پھر خود بھی جام شہادت نوش کیا۔جب عبداللہ کے بیٹوں کی شہادت کی خبر مدینہ میں پہنچی تو عبداللہ کے ایک غلام “ابوالسلاسل” نے کہا: یہ مصیبت حسین کی وجہ سے نازل ہوئی ہے۔یہ سنکر عبداللہ تیش میں آ گئے اور جوتا نکال کر غلام کو مارتے ہوئے کہا:اے کنیز کی اولاد!حسین کے بارے میں جسارت کرتے ہو۔خدا کی قسم! اگر میں بھی کربلا میں حاضر ہوتا تو اپنی جان امام کی راہ میں قربان کر دیتااور اگر خود کربلا نہ جا سکا تو میرے بچوں نے میری لاج رکھ لی ۔ (فرسان الھیجاء) 

عبداللہ اور عبدالرحمن کی فداکاری 

روز عاشورا جب امام علیہ السلام کے تمام اصحاب مارے گئے اور دشمن پیشقدمی کرنے لگا تو فرزندان عروہ غفّاری امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: 

“یا اباعبداللہ !دشمن نزدیک آ چکا ہے جبکہ ہماری تعداد بہت کم رہ گئی ہے ،ہم دشمن کو نہیں روک سکتے ، ہمیں اجازت دیں کہ دشمن سے لڑتے ہوئے آپ کے قدموں میں اپنی جانیں نثار کریں”۔ 

امام علیہ السلام نے فرمایا: 

“مرحبا!آگے بڑھو اور دشمن سے جنگ کرو۔” 

یہ جوان آگے بڑھے اور دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ 

دو جوانوں کی وفاداری 

راوی کہتا ہے” دو جوان سیف بن حارث اور مالک ابن عبداللہ روتے ہوئے امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔حضرت نے رونے کا سبب دریافت کیا۔عرض کرنے لگے: ہم اپنی زندگیوں کیلئے گریہ نہیں کر رہے بلکہ ہم آپ کی غربت پر رو رہے ہیں کیونکہ دشمن نے آپ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور ہم انہیں آپ سے دور نہیں کر سکتے۔امام علیہ السلام نے فرمایا: 

“خدا آپ کو جزائےخیر دے !” 

دونوں نے امام کو خدا حافظ کہا اور میدان میں دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے”۔(منتھی الامال) 

کربلا میں ان بچوں اور جوانوں کے علاوہ اور بہت سے جوانوں نے فداکاری کے جوہر دکھائے جن کو بیان کرنے کی فرصت نہیں ہے یہاں تک کہ ایسے غلام بھی کربلا میں شہید ہوئے جن کی صورت پر امام علیہ السلام نے اپنی صورت رکھی اور ان کیلئے دعا کی۔ان غلاموں میں سے ایک “اسلم ابن عمرو” تھے ۔یہ جیسے ہی زخم کھا کر زمین پر گرے ،امام علیہ السلام ان کے نزدیک آئے اور انہیں اپنی گود میں لیا اور اپنے گالوں کو غلام کے گالوں پر رکھا۔غلام مسکرائے اور کہنے لگے: 

” مَنْ مِثْلِي وَابْن رَسُولِ اللَّه وَاضِع خَدَّهُ علی خَدِّه ” 

 

“کون ہے مجھ جیسا کہ جسکی صورت پر رسول خدا کے فرزند نے اپنی صورت رکھی ہو؟”(ابصارالعین) 

دوسرا غلام جس کا نام “واضح” تھا اور یہ حرث سلمانی کا غلام تھا۔جب کربلا میں یہ غلام شہید ہوا تو امام علیہ السلام اس کے قریب آئے ، ان کے سر کو اپنی گود میں لے کر اپنا چہرہ مبارک اس کے چہرے پر رکھا ۔(ایضا) 

ایک اور غلام ترک تھے جو بہت نیک اور قاری قرآن تھے ۔روز عاشورہ اس باوفا غلام نے دشمنوں پر حملہ کرکے کئی دشمنوں کو ہلاک کیااور پھر خود شہید ہو گئے ۔امام علیہ السلام ان کے جسد کے قریب آئے اور ان کی صورت پر اپنی صورت رکھی اور ان پر گریہ کیا۔اسی طرح ایک غلام “طرماح” تھے جنہوں نے کربلا کے میدان میں 70 دشمنوں کو فی النار کیا اور پھر دشمنوں نے ان کا محاصرہ کر کے ان کے سر کو تن سے جدا کر دیا۔ 

یہ تھیں کربلا کے میدان میں روز عاشورا مجاہدجوانوں اور باوفاؤں کی مختصر سی داستانیں ۔آخر میں دعا ہے کہ خدا ہمیں محمد و آل محمدعلیھم السلام کی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور راہ امام علیہ السلام میں شہادت نصیب فرمائے۔آمین 

منابع 

قرآن کریم 

ابصارالعین 

بحارالانوار 

زیبای ہای کربلا 

سیدالشہداء و یاران وفادار او 

فرسان الھیجا 

کامل ابن اثیر 

لہوف 

منتہی الآمال

تبصرے
Loading...