کربلا منزل بہ منزل

عنوان کی جدت و دلکش تسلیم لیکن کوئی اور نہیں میرا اپنا دل کہتا کہ یہ درست بھی ہے یا نہیں؟ کربلا منزل بہ منزل یعنی کیا؟ کربلا رہ نور دان عشق و آگہی کی آماجگاہ ،کاروان اخلاق و شرافت کی منزل آخر۔کربلا سر نوشت مسجود ملائک کا پہلا و آخری ورق ،عہد و معبود ، نازو نیاز کا نقطہ ¿ اتصال ،زندگی و بندگی کی صدرنگ معنویت کا نگارخانہ ہے ۔ کربلا جادہ بھی ہے منزل بھی ،راہ بھی ہے راہبر بھی، داستان بھی عنوان بھی ۔یہاں ظرف و مظروف کا فرق مٹ جاگیا ہے نسبت و منسوب میں حد فاصل نہیں رہ گئی ہے ۔ کربلا کے معنی ہیں حسین علیہ السلام اور حسین علیہ السلام یعنی کربلا ۔ دنیا کے عجائب خانے میں بھی ایک نادر و منفرد تجربہ ہی ہے ۔ تو پھر کربلا منزل بہ منزل کا مقصد؟

لیکن مجھے یہاںدونوں میں خط جدائی کھینچنا ہے کیوں کہ موضوع کا تقاضہ ہے اگر چہ یہ ممکن ہے کہ وہ اسی طرح موسوم ہو جیسے خط نصف النہار جو دن کی تصنیف روزانہ ہی کیا کرتا ہے اس بات کو یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ صف امامت کے گوہر بے بہا اور شمشیر ولایت کے جوہر آبدار اور دو عالم کی آبرو حسین ابن علی علیہ السلام جو خیر النساءکے پارہ تن صاحب لا فتیٰ کے لخت جگر اور محبوب خدا کے پروردہ آغوش تھے جن کا مولد حرم رسول اور شہر منور تھا ، جن کی گہوارہ جنبانی روح الامین کرتے تھے ان کی منزل آخراور مرقد اطہر کی جلالت و شکوہ عالم کیا ہونا چاہئے اور اسے وہ رفعت و شان ملی بھی کہ نہیں۔

یہ تو ہم میں سے ہر ایک کو یاد ہے کہ امام عالی مقام نے اس خط ¿ ارض پر قدم رکھتے ہی فرمایاتھا: کہ یہ کرب اور بلا کی زمین ہے لیکن شائد ہم نے اس کا مفہوم و معنی سمجھنے میں کچھ زیادہ عجلت یا سہل انگاری سے کام لیا اور کربلا کو اندوہ و مصیبت کی جگہ مان کر اسے عاشورہ کے پر الم داستان و واقعات شہادت کا سر نامہ قرار دے دیا اور اس کا نام لے کر اپنی فغان و فریاد کے لئے شعار بنا لیا اور بس۔حالانکہ یہ امت کے ایک الوہی حکیم اور قرآن ناطق کا فقرہ تھا جس کی تہ داری ، معنویت ، گہرائی و وسعت کی تھاہ لگانا ممکن نہیں لیکن معمولی غور و فکر سے کھلتا ہے کہ امام علیہ السلام نے اس جملے میں نفسیات انسانی اور بشری ارتقا کی کنجی چھپا کے رکھ دی ہے اور بتایا ہے کہ کرب و غم ہی تو وہ متاع بے بہا ہے جس سے انسان اپنے وجود کی تکمیل کرکے اپنا مقصد حیات پورا کر سکتا ہے ۔ غم و الم جس کا آفاق میں نہ بدل ہے نہ ہمسر رنج و بلا کی آنچ میں تپ کر انسان کا تذکیہ نفس ہوتا ہے اور جوں جوں آزمائش و مصایب کی تپش بڑھتی ہے اس کا مادی پیکر پگھلنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ جوہر دو ما فوق البشر بن کر عالم لاہوت و مقام محمود کا مالک بن جاتا ہے۔

ہاں وہی کربلا غم والم کی زمین جہاں ہجری ١٦ میں ایک مختصر سا قافلہ اترا تھا جس میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اولاد بھی تھی اور اصحاب وتابعین بھی ، نو وارد بھی تھے اور قدیم حلقہ بگوش اہلبیت بھی، بوڑھے، بچے، مرد، عورت، آزاد غلام، جگری دوست اور جانی دشمن سبھی جمع تھے ۔ لیکن یہ تمام داخلی وخارجی اختلافات حدود کربلا کے باہر تک تھے مگر جوں ہی اس ارض مقدس سے ان کے پیر مس ہوئے یک لخت سارا افتراق ،وحدت کاملہ میں بدل گیا۔ اور سب کے سب ایک تن ایک جاں ہوگئے ۔شہادت سے کافی پہلے یہ قلب ماہیت ہوئی اور پھر اس کے بعد تو کہنا ہی کیا؟ تب سے آج تک وہ نورامامت کا بالہ بنے ہوئے ہیں یہ بہتر تن معنوی حیثیت سے ایک پیکر ایک آواز ،ایک لگن ،ایک ہی دھن کہ توحید کا پرچم سر نگوں نہ ہونے پائے اللہ کا نام اونچا رہے اس واقعہ کو سیگڑوں برس گزرگئے مگر کربلا اپنا رول آج بھی ادا کرنے پر کمر بستہ ہے اسی اثنا میں جب بھی توحید پر آنچ آئی تو ارض کربلا نے ہی تڑپ کر آواز ھل من ناصر ہم فرزندان توحید کے کان میں پھونکی اور توحید کا علم بلند کرنے کے لئے سب صف آرا ہو گئے اور آنے والے کل میں کربلا ہی سب کے لئے مرکز امید ہے ۔ 

یہ تو تھی کربلا کی پہلی منزل ،آخری منزل کا سراغ اس اہم نکتہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب اس کے قدیم وجدید معنی میں بُعد مشرقین پیدا ہوچکا ہے اور شہادت و مظلومیت اور خون و آنسو کی یہ وادی ایمن رب بشارت ،فتح و نصرت کامیابی و کامرانی سے عبارت ہے۔

کربلا اب بے خونی ،جگر داری ،حریت ،ضمیر ،آزادی فکر جہد مسلسل کے گلہائے گوناگوں سے رنگین لالہ زار کا نام ہے جس پر محبوب خدا کی خانہ بربادی ،خاتون جنت کی آہ نیم شبی ۔ پیاسے بچوں کی صدائے العطش ،ابن زہرا کا خون میں ڈوبا ہوا تن زار اور بہتر لاشے ، زینب و ام کلثوم کی اسیری سید سجاد کی بے چارگی ابر رحمت کی طرح سایہ فگن ہے دل گداز ہوش ربا رقت انگیز اور عقیدہ جہاد کی طویل دعوت دیتا اور شجر ایمان کی آبیاری کرتا خزاں کے سامنے سپر بنا ہوا ہے ظرف و مظروف اور نسبت و منسوب کے لازمی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخی واقعات کی روشنی میں بھی کربلا کی بلندی آسمان سے بات کرتی نظر آتی ہے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں صرف ہمارے امام زمانہ حضرت حجة ابن الحسن عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی بخشی ہوئی زیارت وارثہ ہی سے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا کی عظمت مستقیم ہوجاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ روز ازل ہی سے لوح محفوظ میں ذبح عظیم کا نام شط فرات سے جڑا ہوا تھا امام حسین علیہ السلام نے تمام انبیا کرام کی وراثت پائی تو ان کا مقتل بھی تقدس و طہارت ،عروج و نورانیت کے تمام اعلیٰ معیاروں کو پار کر گیا ۔ یہاں تک کہ مٹی جس کا کھانا حرام ہے ۔ کربلا کی نسبت پاتے ہی خاک شفا بن گئی ۔ امام حسین علیہ السلام سردار جوانان جنت ہیں اور کربلا امام علیہ السلام کا پایہ گاہ ہے جو فرق مملکت کے دوسرے علاقوں اور دارالسلطنت میں ہوتا ہے اتنا تو جنت سے کربلا کو کم ماننا ہی پڑے گا اگر چہ جنت ہر بلند مقام سے بلند ہے کہ وہ متقین ،صالحین ،شہداءو صدقین انبیا و اولیا و اوصیا سب کی قرار گاہ اور منتہا ئے آرزو ہے لیکن کربلا اس سے بہتر ہے شاید اسی لئے اس سرزمین پر جناب آدم،جناب نوح ،جناب ابراہیم ،جناب موسیٰ ،جناب عیسیٰ علیہم السلام اور سبھی بزرگ انبیا تشریف لائے جس کی بہت سی توجیہ ممکن ہے لیکن بہر حال امام حسین علیہ السلام ان سب کے وارث تھے اس لئے بھی کہ ان کو یہاں آناتھا آئے اور روایتوں کے مطابق ہر ایک نے کچھ نہ کچھ ایذا پائی امام حسین علیہ السلام پر گریہ کیا اور ان کے قاتلوں پر لعنت اور جب خاک کربلا وادی شہادت اور حسین کی آخری آرام گاہ کی زیارت کرکے آگے بڑھے تو ان کی بہت سی مشکلات حل ہوگئیں ۔جناب آدم علیہ السلام اور جناب حوا مل گئے۔کشتی نوح علیہ السلام بھنور سے نکل کر کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور کتابوں میں تلاش کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن دل گواہی دیتا ہے کہ شہادت امام حسین علیہ السلام سے بہت پہلے ملائکہ کو اس زمین کے طواف پر مامور کر دیا گیا ہوگا۔

آج سید الشہداءامام حسین علیہ السلام کا روضہ ایک آراستہ و پیراستہ وسیع وشاندار عمارت ہے سورج کی کرنوں سے اس کے طلائی قبہ و مینار اسی طرح چمکتے دمکتے ہیں جیسے صحرا میں ریت کے ذرے۔ نیچے سرداب ہے اور پختہ وبلند احاطہ ہے جس میں باب قبلہ باب قاضی الحاجات ، باب صحن کوچک ، باب حر ، باب سلطانیہ ، باب زینبیہ ، نام کے بلندو بالا دروازے نصب ہیں وسط حرم میں روضہ مقدس ہے روضہ انوار کے دروازے نقری ¿اور بہت دیدہ زیب ہیں تمام عمارت پر چینی کی گل کاری ہے اور قرآنی آیات جابجا بہترین خط میں لکھی ہوئی ہیں اندرونی حصوں میں کاشی کاری اور آئینہ بندی کا اعلا نمونہ ہے ۔ علی الخصوص زیر قبہ جہاں مزار مبارک ہے اس کی آرائش دیکھنے ہی سے تعلق رکھتی ہے ۔ یہ وہی مقام ہے جس کے لئے بانی اسلام نے فرمایا تھا : ”دعا تحت قبہ مستحب ہے “

یہاں رات بھر بجلی کے قمقمے جگ مگاتے رہتے ہیں اور روضہ بقعہ ¿ نور بنا رہتا ہے پہلے جگہ جگہ برقی پنکھے لگے ہوئے تھے اب ان کو ہٹا کر پوری عمارت کو ایرکنڈیشن کر دیا گیا ہے قیمتی جواہرات اور نادر اشیاءجو نذر میں چڑھائی گئی ہیں ان کو موقع بہ موقع آویزاں کیا گیا ہے جس سے رونق دو بالا ہوگئی ہے ضریح مبارک چاندی کی ہے اس کے ارد گرد سنگ مرمر کا فرش ہے جس پر قیمتی و دبیز قالین بچھے ہوئے ہیںجس کے بننے میں فن کا کمال رکھا گیا ہے زائرین کا سخت ہجوم یہاں شب و روز رہتا ہے سب ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور شانے سے شانہ چھلتا ہے۔

لیکن یہ سب کچھ بہت دنوں بعد ہوا ابتدا میں تو بنی اسد کی بنائی ہوئی چند کچی قبریں ہی تھیں اور پہلے زائر صحابی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب جابر ابن عبدا للہ انصاری اور ان کے بعض ساتھی و غلام تھے ۔ شہادت امام حسین علیہ السلام کے کئی سال بعد امیر مختار نے ان قبروں کو پختہ کرایا اور سائبان ڈلوائے مگر بنی مروان نے زیارت پر پابندی عائد کر دی ۔ عباسیوں کے زمانہ میں پھر روضہ کی آبادی شروع ہوگئی اور زائرین کربلا جانے لگے یہاں تک کہ متوکل ملعون نے تمام روضوں کو تباہ و برباد اور مسمار کر دیا اور زیارت امام حسین علیہ لالسلام کو لائق گردن زنی جرم قرار دے دیا اس کے قتل کے بعد گو کہ یہ بات نہیں رہی مگر کچھ ایسی شرطیں لگادی گئیں کہ اسے عوام نہیں پورا کر سکتے تھے اور سالہا سال مجبوری اور بے چارگی کا یہ دور چلتارہا ۔

اس مزار مقدس کا موجودہ عظیم الشان ہیکل آل بویہ کی عقیدت کا نتیجہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان ہی کے زمانے سے کربلا کی رونق و مستقل آمدنی بڑھنے لگی اور چوتھی صدی ہجری سے لے کر ابھی چند سال قبل تک اس میں اضافہ و توسیع ہی ہوتی رہی ۔آٹھویں صدی میں خدا بندہ شاہ ایران نے پھر دسویں صدی میں شاہ اسماعیل صفوی اور اس کے بعد مختلف سلاطین ایران و ہندوستان و ترک کی عالی ہمتی اور خلوص و محبت کے زیر اثر کربلا، کاظمین، سامرہ، روضہ حضرت عباس علیہ السلام و حضرت حر علیہ السلام و دیگر شہدا کے روضے تعمیر ہوئے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ خصوصیت کا حامل ہے ۔

دکن کے بہمنی حکمرانوں اور اودھ کے آخری تاجدروں نے بھی کربلا ئے مقدسہ اور اس کے روضہ ¿ ہائے متبرکہ کی تعمیر و تزئین میں نمایاں حصہ لیا ۔ اس کے ساتھ ہی سرائے ،مساجد ،نہر اور حمام بھی ان لوگوں نے تعمیر کرائے۔

امام حسین علیہ السلام کے مزار مبارک کے میناروں اور قبہ کو شاہ عباس اعظم صفوی نے طلائی زینت سے مزین کرایا ہے ایران کا یہ نامور بادشاہ اکبر کا ہمعصر تھا اس کی متابعت میں نادر شاہ درانی نے بارہویں صدی ہجری میں دوسرے روضوں خصوصا نجف و کاظمین کا مطلا کرایا لیکن تمام روضوں کی مرمت آئینہ کاری کا شی کا کام قاچار یوں کے دور میں ہوا ۔اور ترک حکمرانوں نے کربلا میں سڑک کی تعمیر ،روشنی ،پولیس ،شفاخانہ اور دیگر ضرورتوں کو پورا کیا اور متولیان و خدام کا نظارہ بنایا اور اس طرح کربلائے معلا ایک شہر مقدس کی شکل اختیار کر گیا جہاں کی آبادی بڑھتے بڑھتے لاکھوں کی تعداد ہوگئی۔

” کربلا منزل بہ منزل “ کا عنوان ختم ہونے والا نہیں اگر چہ کئی منزلیں کربلا پر گزر چکی ہیں لیکن ابھی نہ جانے کتنی باقی ہیں ۔زمانہ نے پھر کروٹ بدلی ہے پچھلے سو سال سے عراق کو بعثی کافروں نے دبوچ لیاتھا ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا خون ناحق بہا یا جا رہا تھا گردنیں کٹ رہی تھیں قید خانے آباد ہو رہے تھے روضے ویران ہر طرف شور کہرام برپا تھا ۔بعثی کافر ظالم کی حکومت ختم ہوگئی لیکن ظلم و بربریت کا دور ختم نہیں ہوا کربلا کی زمین پھر تڑپ کر صدائے ” ھل من ناصر “ بلند کر رہی ہے لوگ دیوانہ وار منزل شہادت کی طرف منھ کئے بھاگے چلے جا رہے ہیں لیکن شاید ابھی صبح عاشور کا طلوع ہے اور عصر کے بعد ہی کربلا کی آئندہ کی سرنوشت کا تعین ہو سکے گا ۔ زندہ باد کربلا ۔پائندہ باد شہادت و عزیمت دعوت و جہاد کی سرزمین۔

تبصرے
Loading...