کربلا؛ حق و باطل کے درمیان حد فاصل

تحریر: مولانا سید امین حیدر حسینی،استاد جامعہ ایمانیہ،بنارس

حوزہ نیوز ایجنسی | دین اسلام کی سربلندی اور بقا کے لئے نواسۂ رسول خداۖ حضرت امام حسین  نے ایسی پاک و پاکیزہ تحریک چلائی جس کی مثال دنیا میں نظر نہیں آتی ہے ۔کا ئنات رنگ و بو میں واقعات تو بہت رونما ہوئے لیکن مختصر مدت کے بعد طاق نسیاں کے حوالے ہوگئے ۔نہ کوئی سالانہ یاد منانے والا اور نہ ہی کوئی تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرنے والا۔یہ امتیاز صرف کربلا کو حاصل ہے کہ دنیا کا کوئی ایسا خطہ اور گوشہ نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا دن کہ جب فرزند رسولۖ اور ان کی عظیم قربانی کو یاد نہ کیا جاتا ہو۔واقعہ کربلا تاریخ انسانیت کا وہ واحد واقعہ ہے جس کے امتیاز و برتری کی برابری دنیا کا کوئی بھی واقعہ نہیں کرسکتا ۔کربلا ؛عظیم مقصد کے لئے عظیم قربانی کا نام ہے جس کے اہداف و مقاصد ،افکار و خیالات ،اخلاص و للہیت ،حقانیت و صداقت اور روحانیت ومعنویت نے سب کو غرق حیرت کر ر کھا ہے۔واقعہ کربلا حق و باطل کے درمیان امتیاز کی ایسی علامت بن گیا ہے جس کی مثا ل ہر معرکہ حق و باطل کے لئے رہتی دنیا تک دی جائے گی۔انقلاب حسینی  نے ایسا درس اور الہی کردار پیش کیا جو تا قیامت تمام انسانیت بالخصوص پیروان اہل بیت  کے لئے نمونہ عمل بنا رہے گا۔

حق کو باطل سے نہ ملاؤ :پروردگار عالم نے اولاد آدم کو عقل و شعور اور ارادہ جیسی گراں قدر نعمتیں عطا کی ہے جو دیگر مخلوقات سے انسان کو ممتاز بنا تی ہیں۔  انسان مذکورہ نعمتوں کے ذریعہ حق و باطل میں تمیز پیدا کر سکتا ہے۔ قرآن و اہل بیت اطہار  کی پیروی اور عقل و شعور، حق و باطل کی شناخت میں بہترین مددگار ہیں ورنہ شیاطین کے وسوسے اور باطل پرستوں کی سازشیں سادہ لوح انسانوں کو عقل کا اندھا بنا دیتی ہیں۔ باطل کو اس طرح سجا کر پیش کیا جاتا ہے جیسے حق ہو۔بھولے بھالے لوگ اہل باطل کی چالوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کربلا میں کچھ ایسا ہی ہوا۔یزید اور اس کے ہمنواؤں نے باطل کوحق بناکر پیش کرنے میں پوری طاقت لگا دی۔ لیکن حق ،حق ہوتا ہے آج نہیں کل ظاہر ضرور ہوگا۔اسی اہم امر کی جانب قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:” ولا تلبسوا الحق بالباطل وتکتمواالحق و انتم تعلمون(١) ؛حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کی پردہ پوشی نہ کرو”۔ ویسے تو ہر دور میں حق کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن امام حسین  ایسے زمانے میںزندگی بسر کر رہے تھے جب کو ئی ایسا حربہ اور چال نہیں تھی جو حق کوباطل سے مخلوط اور پردہ پوشی کرنے میں نہ چلی گئی ہو۔ ایسے موقع پر شعور اور بصیرت کی اشد ضرورت ہوتی ہے جس سے انسان نہ صرف حق شناس بنتا ہے بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی باطل کی وادیوں سے نکال کرحق کی نورانی فضاؤں میںلاتا ہے۔اس زمانے میں حضرت امام حسین جیسی عظیم المرتبت شخصیت موجود تھی لیکن بے شعور اور بے بصیرت افراد نے بغض و حسد،جاہ و مقام اور مال و دولت کی لالچ میں آکر یزید جیسے بدکارحاکم کے ہاتھوں پر بیعت کرکے آتش جہنم کا نوالہ بن گئے۔

حق و باطل کی صحیح شناخت:حق و باطل کی پہچان کا مسئلہ بے حد اہم ہوتا ہے۔ جب تک شناخت نہیں ہوگی صحیح اور غلط کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔تاریخ اسلام کی بڑی سے بڑی شخصیتیں بھی حق و باطل کے مسئلہ میں دھوکا کھا گئیں۔چاہے وہ ابتدائے اسلام کا معاملہ ہو یا واقعہ کربلا یا اس کے بعد کا مرحلہ۔شیطان اپنی شاطرانہ چال میں کامیاب ہو گیا۔ چنانچہ اگر حق و باطل کے معیار کو پرکھا گیا ہوتا تو اس طرح کے افسوس ناک واقعے پیش نہ آتے۔مولائے کائنات حضرت علی نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ١٤١، میں حق و باطل کی پہچان کا بہترین طریقہ تعلیم فرما رہے ہیں:”اما انہ لیس بین الحق والباطل الا اربع اصابع(٢)؛یاد رکھو کہ حق و باطل میں صرف چار انگل کا فاصلہ ہوتا ہے”۔لوگوں نے عرض کی حضور اس کا کیا مطلب ہے؟توآپ نے آنکھ اور کان کے درمیان چار انگلیاں رکھ کر فرمایا :”الباطل ان تقول سمعت، والحق ان تقول رأیت ؛باطل وہ ہے جو صرف سنا سنایا ہوتا ہے اور حق وہ ہے جو اپنی آنکھ کا دیکھا ہواہوتا ہے”۔حقیقت امر یہ ہے کہ حق و باطل کے معیار جو شریعت نے متعین کئے ہیں اگر انہیں پیش نظر رکھا جائے تو حق و باطل کو بہت آسانی کے ساتھ پہچانا جا سکتا ہے۔امیر المومنین  اسی بات کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اہل باطل کے فریب میں نہ آؤ بلکہ حق و باطل کے معیار کو سامنے رکھ کر جو آنکھوں سے دیکھا ہے اس کے مطابق صحیح اور غلط کا فیصلہ کرو۔سنی سنائی باتوں پر کان نہ دھرو بلکہ تحقیق و جستجو کرکے حقیقت کی تہ تک پہنچو۔ امام عالی مرتبت حضرت امام حسین نے کربلا میں حق و باطل کی شناخت کے سارے راستے اپنے گراں قدر خطبات،وعظ و نصیحت اور عملی سیرت کے ذریعہ عوام الناس پر واضح کردیئے تھے ۔یزید اوراس کے حامیوں کا نام لے کران کی مذموم کرتوتوں سے پردہ ہٹا چکے تھے۔لیکن امام عالی مقام کی جانفشانیوں کے باوجود اہل باطل کے بنے ہوئے جال میں اکثریت پھنس گئی جس کا نقصان اسلام کو آج تک اٹھانا پڑ رہا ہے۔ 

حق کو شخصیت سے نہ پہچانو: حیرت کی بات ہے کہ بعض مسلمان واقعہ کربلا کے سلسلے میں حق و باطل کا فیصلہ آج تک نہیں کر سکے ہیں کہ ایک طرف امام حسین جیسی پاک و پاکیزہ شخصیت  اور دوسری طرف یزید جیسا فاسق و فاجر انسان کہ جس کا کام قتل و غارتگری،شرانگیزی اور فتنہ پردازی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔جس نے دولت و اقتدار کی خاطر نہ دین کی پرواہ کی اور نہ ہی رسولۖ کے گھرانے کی۔اگر عوام کو حق و باطل کی صحیح شناخت ہوتی تو شخصیت کو دیکھ کر حمایت نہ کرتے بلکہ حق و باطل کے معیار پر جو کھرا اترتا اس کے حامی ہوتے۔ اسی اہم مسئلے کے متعلق حضرت علی فرماتے ہیں:”انّ الحق لا یعرف بالرجال اعرف الحق تعرف اھلہ؛(٣)بے شک حق،شخصیت سے نہیں پہچانا جاتا ،حق کو پہچان لو اس کے اہل کو بھی پہچان لو گے”۔آج کے دور میں اس حدیث کے بالکل برخلاف ہو رہا ہے ۔لوگ حق کے بجائے شخصیت کو دیکھتے ہیں ۔شخصیت اور مقام دیکھ کر حق اور باطل کا فیصلہ کرتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ جب انسان کو حق کی معرفت ہو جائے گی تو اہل حق کو پہچاننے میں دیر نہیں لگے گی۔سرکار ختمی مرتبتۖ کی وفات کے بعد اہل باطل نے صاحبان حق کے خلاف اپنی مسموم تبلیغات کے ذریعہ ایسی فضا قائم کر رکھی تھی جس کے فریب میں آکر کمزور ایمان والوں نے اپنی آخرت کوکوڑیوں کے دام بیچ دیا اور ہمیشہ کے لئے لعنت کے مستحق بن گئے۔اگر کربلا میں حق کو مد نظر رکھا گیا ہوتا توواقعہ کربلا پیش نہ آتا ۔حاکم شام کے مکر و فریب اور یزید کی بدکاریوں اور ظلم و ستم کے خلاف صدا ئے احتجاج بلند کرنے کے بجائے لوگوں کی زبانوں پر تالے لگے ہوئے تھے۔کسی میں جرئت نہ تھی جو یزید اور اس کی حکومت کے خلاف زبان کھولے۔ہر طرف قتل و غار تگری عروج پر تھی۔دین اسلام کے احکام وقوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں۔بدعتوں کا دور دورہ تھا۔گناہان کبیرہ کو لھلم کھلا انجام دیا جا رہا تھا۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکرتو جیسے کوئی جانتا ہی نہ ہو۔ایسے بدترین حالات میں امام حسین  نے یزید اور اہل باطل کے خلاف قیام کرکے نہ صرف اسلام کی پاسبانی کی بلکہ سسکتی ہوئی انسانیت کو ظلم و بربریت کے چنگل سے آزاد کرایا ہے۔ اپنے پاک و پاکیزہ خون سے چمنستان اسلام کی ایسی آبیاری کی جہاں اب خزاں کا گزر بسر نہیں ہو سکتا۔ امام حسین  نے اپنے قیمتی خطبات اور اقوال و ارشادات کے ذریعہ آخری وقت تک اصلاح کی مکمل سعی و کوشش کی تاکہ حرّ ابن یزید ریاحی جیسا با شعور انسان ایک شب میں اہل جہنم سے اہل بہشت بن جائے۔لیکن یزید،شمر، ابن زیاد ،ابن سعد ،حرملہ وغیرہ جیسے لعنتی افراد، مال و دولت کی لالچ اوربغض و حسد کی آگ میں شیطان لعین کے شکار ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے لعن و نفرین کے مستحق بن گئے۔

کربلا؛عزت و وقار کی علامت:عزت و ذلت دو ایسے عنوان ہیں جس کے معنی اور مفہوم سے صاحبان فکر و شعور بخوبی واقف ہیں۔ناخواندہ افراد بھی اپنی ٍعقل و خرد کے مطابق آگاہی رکھتے ہیں۔دین و شر یعت نے بھی عزت و وقار کی زندگی گزارنے اور ذلت و رسوائی سے کوسوں دور رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔قرآن حکیم نے عزت و ذلت کے راستے بتا دیئے ہیں اب انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ راہ عزت و شرافت پر گامزن ہو کر صاحب عزت بن جائے یا ذلیل و رسوائی کے راستوں کو گلے لگا کر بے نام و نشاں ہو جائے۔فرزند رسول حضرت امام حسین  نے کربلا میں عزت و وقار کا وہ مفہوم پیش کیا جس کی مثال تا قیامت دی جائے گی۔فرماتے ہیں:” موت فی عز خیر من حیاة فی ذل(٤) ؛ترجمہ:ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے”۔امام  کی مذکورہ حدیث زبان زد خاص و عام ہے جو اپنے دامن میں بے شمار مفاہیم کو سمیٹے ہوئے ہے۔کربلا میں دراصل عزت کا مقابلہ ذلت سے تھا،حق کا سامنا باطل سے تھا ،مظلوم کی جنگ ظالم سے تھی،انصاف پسندوں کا معرکہ بے انصافوں سے تھا۔ ایک سچا مومن جان تو نچھاور کر سکتا ہے لیکن عزت پر آنچ آنے نہیں دیتا۔امام حسین  نے کربلا میں اہل باطل کی شر انگیزی اور فتنہ پروری کو برملا کیا اور ان کے چہرے سے منافقت اور فسق و فجور کی نقاب ہٹا کر نہ صرف دین کو حیات نو بخشی بلکہ انسانیت کو وہ عزت وو قار عطا کیا جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے ۔امام عالی مقام کا یہ نعرہ ”ھیھات من الذلة”(٥)آج بھی مردہ ضمیروں کو خواب غفلت سے بیدار کر رہا ہے کہ اٹھو اور کربلا کو اپنا نمونہ ٔ عمل بناؤتاکہ دنیا کی بڑی سے بڑی باطل طاقتوں سے لرزہ براندام نہ ہو بلکہ آنکھ سے آنکھ ملا کر عزت کی زندگی گزارو۔

کربلا ؛ظلم کے خلاف سراپا احتجاج:کربلا اس مقدس تحریک کا نام ہے جس کے سامنے ساری مذموم تحریکوں نے دم توڑ دیئے۔ تحریکوں کے باقی رہنے کا دارومدار محرک کے اخلاص و خلوص پر ہوتا ہے ورنہ تحریکیں زیادہ دن تک زندہ نہیں رہتیں۔یہی وجہ ہے امام حسین نے اسلام اور انسانیت کی بقا کے لئے جو تحریک چلائی تھی آج بھی زندہ ہے ورنہ محرک کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد تحریک بھی مر جاتی ہے۔ امام حسین تمام انبیائ،مرسلین اور أئمہ اطہار کے سچے وارث ہیںان کا باطل پرست طاقتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اور بیعت نہ کرنا گویا تمام نمائندگان خداکا عمل ہے۔ اسی لئے یزید ابن معاویہ جیسے بدکردار اور خودساختہ خلیفہ سے بیعت کا یہ کہہ کر انکار دیا کہ” مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا؛مثلی لا یبایع مثلہ”(٦)۔ اسی طرح حضرت عباس علمدار  نے بھی عبید اللہ بن زیاد جیسے موقع پرست انسان کے امان نامہ کو ٹھکرا کر یہ ثابت کر دیا کہ میری رگوں میں علی  ابن ابیطالب کا خون دوڑ رہا ہے جان تو قربان کر سکتا ہوں لیکن امام وقت کے ساتھ غداری نہیں کر سکتا۔ مقابلہ وہاں ہوتا ہے جہاں انیس یا بیس کا فرق ہو۔لیکن جہاں ایک طرف بلندی ہی بلندی ہو اور دوسری طرف پستی ہی پستی وہاں موازنہ نہیں کیا جاتا۔جس امام کی طہارت کی گواہی آیہ تطہیر دے رہی ہو،جس کا قصیدہ قرآن پڑھ رہاہو،جس کے فضائل و کمالات کو سرکار ختمی  اپنے اقوال و ارشادات اور عملی سیرت کے ذریعہ بیان کر رہے ہوں اس عظیم المرتب امام کا مقابلہ یزید جیسے پلید سے کرنا قرآن و رسول کی توہین کے مترادف ہے، آخرت میں جس کی جوابدہی کے لئے ہر انسان کو آمادہ رہنا چاہئے۔

حوالہ جات:

(١) سورہ ٔ بقرہ٤٢،(٢)نہج البلاغہ ،خطبہ ١٤١،(٣)مجمع البیان،ج ١،ص ١٨٧،(٤)بحار الانوار،ج٤٤،ص١٩٢،(٥)تحف العقول،ص٢٤١،(٦)بحار الانوار،ج٤٤،ص٣٢٥۔                                                                                               اختتام:٢٦ذیقعدة الحرام ١٤٤١ھ مطابق١٨جولائی ٢٠٢٠ئ

تبصرے
Loading...