کامیاب کون ہوا ؟

کیا اس حق و باطل کی جنگ میں بنی امیہ اور ان کا خونخوار اور دنیا پرست لشکر کامیاب ہوا یا امام حسین علیہ اسلام اور ان کے باوفا اصحاب کہ جنہوں نے راہِ حق اور رضائے خدا میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا؟ اگر کامیابی و ناکامی اور فتح و شکست کے صحیح معنی اور مفہوم کی طرف توجہ کی جائے تو اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔ فتح و کامیابی یہ نہیں کہ انسان میدانِ جنگ میں اپنی جان بچا لے یا دشمن کو ہلاک کر دے۔ بلکہ فتح و کامرانی یہ ہے کہ انسان اپنے ہدف و مقصد کو محفوظ کرکے آگے بڑھا سکے اور دشمن کو اس کے مقصد میں

کیا اس حق و باطل کی جنگ میں بنی امیہ اور ان کا خونخوار اور دنیا پرست لشکر کامیاب ہوا یا امام حسین علیہ اسلام اور ان کے باوفا اصحاب کہ جنہوں نے راہِ حق اور رضائے خدا میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا؟

اگر کامیابی و ناکامی اور فتح و شکست کے صحیح معنی اور مفہوم کی طرف توجہ کی جائے تو اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔ فتح و کامیابی یہ نہیں کہ انسان میدانِ جنگ میں اپنی جان بچا لے یا دشمن کو ہلاک کر دے۔ بلکہ فتح و کامرانی یہ ہے کہ انسان اپنے ہدف و مقصد کو محفوظ کرکے آگے بڑھا سکے اور دشمن کو اس کے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دے اگر فتح و کامرانی اور شکست و ناکامی کے یہ معنی سامنے رکھے جائیں تو معرکہ کربلا کا نتیجہ بلکل واضح ہو جاتا ہے۔

 

یہ صحیح ہے کہ امام حسین علیہ اسلام اور ان کے اصحاب باوفا شہید ہو گئے لیکن انہوں نے اس شہادت سے اپنا مقدس ہدف و مقصد حاصل کر لیا۔ہدف یہ تھا کہ بنی امیہ کی اس مذموم اور اسلام دشمن سازش کو بے نقاب کیا جائے اور اس کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے لایا جائے مسلمانوں کی فکر بیدار ہو اور ان کو زمانہ جاہلیت ، زمانہ کفر اور بت پرستی کے مبلغین سے آگاہ کیا جائے۔ یہ مقصد و ہدف بہترین طریقے سے حاصل ہوا۔

 

امام حسین علیہ اسلام اور ان کے اصحاب با وفا نے اپنے مقدس خون سے بنی امیہ کے ظلم کے درخت کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں ۔ انہوں نے اپنی قربانی سے بنی امیہ کی ظالم و جابر حکومت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔اور ان کا شرمناک سایہ مسلمانوں کے سر سے ختم کر دیا ۔یزید نے ماما حسین علیہ اسلام جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے باوفا اصحاب کو شہید کرکے اپنا اصلی چہرہ ظاہر کر دیا۔

 

واقعہ کربلا کے بعد جتنے انقلاب رونما ہوئے شہدائے کربلا کے انتقام کے نام سے شروع ہوئے اور تمام کا نعرہ یہ تھا کہ ہم شہدائے کربلا کا انتقام لیں گے ۔ حتیٰ کے بنی عباس کے زمانہ تک یہی ہوتا رہا۔ اور خود بنی عباس نے بھی انتقام خونِ حسین علیہ اسلام کے بہانے سے حکومت حاصل کی ۔ مگر حکومت حاصل کرنے کے بعد بنی امیہ کی طرح ظلم و ستم شروع کر دیا ۔ کیا شہدائے کربلا کے لئے اس سے بڑھ کر اور کامیابی ہو سکتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مقدس مقصد تک پہنچ گئے بلکہ ظلم و ستم میں جکڑے تمام انسانوں کو درسِ حریت دے گئے۔

 

عزاداری کیا ہے؟

اگر امام حسین علیہ اسلام اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس خوشی میں جشن کیوں نہیں منایا جاتا اور اس کی بجائے گریہ کیوں کیا جاتا ہے ؟ کیا یہ گریہ و ماتم اس کامیابی کے مقابلے میں صحیح ہے؟جو لوگ اعتراض کرتے ہیں انہوں نے در حقیقت فلسفہ عزاداری کو سمجھا ہی نہیں بلکہ انہوں نے عزاداری کی ناتوانی اور احساس کمتری سے پیدا ہونے والے آہ و نالہ کی مانند تصور کیا ہے۔

رونے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہونے کی چار صورتیں ہیں

 

گریہ شوق

ایک ماں جس کا بچہ گم ہو گیا ہو اور کئی سال بعد اس کو ملے تو اس ماں کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے ہیں ۔ یہ رونا گریہ محبت اور گریہ شوق کہلاتا ہے۔کربلا کے اکثر واقعات اور ان میں رونما ہونے والی قربانیاں ایسی شوق آفریں ہیں کہ انسان جب ان قربانیوں ، ان شجاعتوں اور ان دل دہلا دینے والے بیانات کو سنتا ہے تو بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں ۔اور ان آنسوؤں کا جاری ہونا قطعاً ناکامی و شکست کی دلیل نہیں۔

 

گریہ عاطفی

انسان کے سینے میں دل ہے پتھر نہیں ۔ اور یہی دل ہے جو انسان کے عواطف و احساسات کی عکاسی و ترجمانی کرتا ہے ۔ جب انسان کسی پر ظلم ہوتا دیکھ یا کسی یتیم بچے کو ماں کی آغوش میں دیکھے جو باپ کی جدائی میں رو رہا ہو تو فطری طور پر دل میں کچھ عواطف و احساسات پیدا ہوتے ہیں کہ یہ بسا اوقات قطراتِ اشک کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔

در حقیت ان قطرات اشک کا آنکھوں سے جاری ہونا انسان کے صاحبِ دل ہونے کی ترجمانی کرتا ہے۔ اگر ایک چھ ماہ کے بچے کا واقعہ سن کر کہ جسے باپ کے ہاتھوں پر تیر کا نشانہ بنایا گیا ہو اور تڑپ تڑپ کر اس نے باپ کے ہاتھوں پر جان دے دی ہو ۔ دل تڑپ جائے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں تو یہ ضعف و ناتوانی کی دلیل ہے یا صاحبِ دل ہونے کی؟

 

گریہ مقصد

کبھی قطرات اشک ہدف و مقصد کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم مکتبِ حسین علیہ اسلام کے پیروکار ہیں اور ان کے مقصد کے تابع ہیں ممکن ہے کہ اس مطلب کا اظہار الفاظ و احساسات کے ذریعے کریں یا قطراتِ اشک کے ذریعے ،جو شخص فقط الفاظ اور دیگر ظاہری احساسات سے اس مطلب کا اظہار کرے ۔ اس میں دکھاوے اور بناوٹ کا احتمال ہو سکتا ہے ۔ لیکن جو شخص واقعاتِ کربلا سن کر قطراتِ اشک کے ذریعے اپنے مقصد اور احساسات کا اظہار کرتا ہے تو یہ اظہار حقیقت کے زیادہ قریب ہے۔

جب ہم امام حسین علیہ اسلام اور ان کے اصحاب باوفا کے مصائب پر گریہ کرتے ہیں تو یہ گریہ درحقیقت ان کے مقدس مقاصد پر دل و جان سے اعلان وفاداری اور مظلوم سے ہمدردی کی علامت ہے اور بت پرستی ، ظلم و ستم اور ظالم سے نفرت و بیزاری کا اعلان ہے لیکن کیا اس قسم کا گریہ ان کے مقدس مقصد سے آشنائی کے بغیر ممکن ہے؟ ہر گز ہرگز نہیں۔

 

گریہ ذلت و ناکامی

یہ ان ناتواں اور ضعیف افراد کا گریہ ہے جو اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکے اور ان کے اندر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی طاقت بھی نہیں ایسے لوگ بیٹھ کر عاجزانہ گریہ کرتے ہیں ۔

امام حسین علیہ اسلام پر ایسا گریہ ہرگز نہیں کیا جاتا۔اور امام علیہ اسلام ایسے گریہ سے متنفر ہیں امام حسین علیہ اسلام پر گریہ کرنا ہے تو گریہ شوق،عاطفہ اور گریہ مقصد ہونا چاہیے۔

آخر میں اس نقطہ کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ امام حسین علیہ اسلام پر گریہ و سوگواری کرنے کے ساتھ ساتھ مکتب امام حسین علیہ اسلام سے آشنائی بھی لازم و ضروری ہے۔جب امام حسین علیہ اسلام اور ان کے اصحابِ باوفا پر گریہ کرتے ہیں تو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ امام حسین علیہ اسلام کیوں شہید ہوئے اور ان کا مقصد کیا تھا؟اور کیا ہم ان کے مقصد پر عمل کر رہے ہیں؟اگر مام حسین علیہ اسلام پر گریہ کریں لیکن نعوذ باللہ ان کے ہدف و مقصد کو نہ سمجھیں اور اس پر عمل نہ کریں تو امام حسین علیہ اسلام اس گریہ سے راضی نہیں۔

تبصرے
Loading...