چار بر جستہ معنوی نعمتیں

مؤلف: آیت اللہ انصاریان 

کتاب: چاربرجستہ معنوی نعمتیں

ہمارے پاس چار معنوی بر جستہ نعمتیں ہیں ، عقل؛ قرآن کریم ؛ رسول خد ا ؛ اور امہءطاہرین کا با برکت وجود ان چار نعمتوں پر روشنی ڈالنے کے لئے آیات و روایات کا سہارا لینا ضروری ہے ۔ 

نعمت عقل :

عقل جیسی نعمت کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق  کے بابرکت وجود سے اصول کافی کی پہلی جلد کی دسویں صفحہ پر نقل ہوا ہے کہ خدا وند عالم نے عقل کی خلقت کے بعد اسکو مخاطب کر کے فرمایا تم سے زیادہ پسندیدہ مخلوق میں نے خلق نہیں کی۔ یعنی خدا کی محبوب ترین چیز ہم سب کے وجود میں ہے اور اگر ہم اس عظیم معنوی سرمایہ کو صحیح انداز سے استعمال کریں تو یقینا اللہ کے محبوب بندوں میں ہمارا شمار ہو گا اگر ہم اس عالم خلقت کی مثال ایک درخت کے مانند فرض کریں تو اس درخت کی سب سے قیمتی اور اہم شاخ انسانی وجود کی شاخ ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟کیونکہ خدا وند عالم نے سب سے زیادہ فائدہ مند پھل کو اس شاخ میں لگایا اور خدا وند عالم نے ہمارے وجود میں عقل جیسی نعمت ڈال کر ہمیں محترم او ر با اہمیت بنایا صاحبان دل جب اس آیت ۔ ولقد کرمنا بنی آدم۔۔ کی تفسیر کرنا چاہتے ہیں تو اس سوال کے مقابلے میں کہ بنی آدم کس چیز کی وجہ سے صاحب کرامت بنا ہے جواب دیتے ہیں ۔عقل ۔کیونکہ یہ عقل ہمارے اور تمام حقائق عالم کے بیچ واسطہ ہے بز نطی نے جب امام رضاسے سوال کیا کہ ہم حقیقت کو کس چیز سے درک کریں ؟تو آپ نے جواب دیا [العقل ] عقل ہی ہےکہ جسکے ذریعہ تم خدا کو پہچان سکتے ہو عقل ہی ہے کہ جسکے ذریعے تم نبوت کو سمجھ سکتے ہو عقل ہی کے ذریعے اولیاءالٰہی کی ولایت کو درک کر سکتے ہو امام جعفر صادق فرماتے ہیں :

عقل ہی ذریعے خدا کی عبادت ہوتی ہے اور جنت حاصل کی جاتی ہے عقل کو اہمیت نہ دینا خدا ،قیامت ، انبیاء؛ائمہ ،اورقرآن مجید سے رابطہ قطع کرنے کے مترادف ہے۔ اگر آپ سورہٓ مبارکہ ملک کا مطالعہ کریں تو دیکھں گے کی اسمیں خدا وندعالم جہنمیوں کے بارے میں گفتگو کر رہا ہے کہ روز قیامت جہنمیوں سے سوال کیا جائے گا کی آخر تم لوگ کس وجہ سے دوزخی ہو گئے ہو تو وہ جواب دیں گے۔ لوکنانسمع اونعقل ماکنافی اصحاب السعیر۔  اگر ہم لوگوں نے پہچان اور شناخت کے وسیلوں کا (کہ جس میں سے ایک کان ہے )صحیح استعمال کیا ہو تا اور اپنی عقل سے زندگی گزاری ہو تی تو آج ہم واصل جہنم نہ کئے جاتے ۔

نعمت قرآن :

لیکن قرآن آئیے خود قرآ ن سے ہی اسکے بارے میں سنا جائے سورئہ مبارکہ یو نس کی خارق العادہ آیت قرآنی اہداف و مقاصد کو بیان کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص ابتک ان اہداف تک نہ پہونچ سکا تو گویا اسنے بہت بڑا نقصان اٹھایا ہے اگر کوئی ان اہداف تک نہ پہونچ سکا تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ ابھی تک خواہشات کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور قرآن بھی اسکے بارے میں کہتا ہے وا لذین کفروا یتمتعون و یا کلون کما ناکل الانعام والنار مثولھم ، آیت شکم پرست و خواہشات پرست افراد کی مثال چوپایوں کی سی ہے کہ کسی بھی طرح کی ترقی نہیں کر سکتے اور انکا ٹھکا نا جہنم ہے۔ 

یاایھاالناس قد جائت کم موعظةمن ربکم و شفاءلما فی الصدور وہدا ورحمةللمومنین  

قرآن مجید موعظہ اور نصیحت کی کتاب ہے اس موعظہ کا واعظ کون ہے ؟ خدا وند عالم ۔کیا اس واعظ سے زیادہ مہربا ن اور دلسوز واعظ اس دنیا میں ہو سکتا ہے نہیں اگر ہم اس واعظ کی نصیحتوں کو سننے والوں میں سے نہ ہو نگے تو ہمارا شمار کن افراد میں سے ہوگا؟حکمائے الٰہی کے بقول ایسی صورت میں ہم ایک صفر کے مانند ہونگے کیا ایسی صورت میں ہم صفر پر باقی رہیں گے یا اس سے بھی زیادہ تنزلی کا شکار ہو سکتے ہیں حکماءکہتے ہیں اس صفر سے بھی زیادہ پست یہاں تک کہ موعظہ اور نصیحت سے فرار کرنے والا انسان اسقدر کم اہمیت ہے کہ خدا وند عالم اسکے بارے کہتا ہے کہ قیامت میں اسکے اعمال کو تولنے کیلئے کسی قسم کا ترازونہ ہوگا کیونکہ اس شخص کی حیثیت ہی کچھ نہیں ہے ۔

کر سکتے و شفاءلما فی الصدور  اور قرآ ن پرور دگار عالم کا ایک طبی مرکز ہے کہ جسمیں بہت اچھی اور مفید دوائیں دستیاب ہیں یہاں تک کہ دوسرے طبی مرکز میں اس طبی مرکز کی طرح سالم اور موثر دوائیں نہیں مل سکتیں خدا کی قسم قرآن سے رابطہ رکھنے والا حاسد نہیں ہوسکتا کیونکہ قرآن دوا ہے قرآن کو اپنی زندگی کے ہمراہ رکھنے والا لالچی ،بخیل اور مغرور نہیں ہو سکتا اپنی عزت دیکھ کر سینہ چوڑا نہیں کرتا ریاکار؛ فاسد ؛اور ظالم نہیں ہو سکتا کیا آخر ایسا ممکن ہو سکتا ہو کہ انسان قرآن مجید کی آیات اپنے وجود کے سانچے میں ڈھال لے اور اسکے بعد بھی اسکا وجود لالچ کنجوسی ؛ حسد اور کینہ جیسے درندوں کی پناہ گاہ ہو ۔

اگر انسانت قرآن کے ذریعہ اپنا علاج کرے تو پھر اپنی پوری عمر میں نہ کسی کو کوئی نقصان پہونچائے گا اور نہ ہی کسی کی مدد سے دریغ کرے گا الخیر منہ مامول والشر منہ مامون ۔ اگر ایسا ہے تو پھر قرآن مجید یہ دعویٰ کرنے کا حقدار ہے کہ وشفاءلما فی الصدور  وھدی اور قرآن کریم خدائی راستہ ہے راہ راست اسی قرآن اوراس کے معلموں کی راہ ہے اور اس کے علاوہ کوئی راہ مقصد کو نہیں پہونچتی بلکہ ہرراہ میں ضلالت اور گمراہی اور انحراف کے علاوہ کچھ نہیںہے لہٰذا جس وقت ہم قرآنی موعظہ کو سنتے ہیں۔ وموعظة من ربکم و شفاءلما فی صدور وھدی  اور قرآنی دواﺅں کے زریعے اپنا علاج کرکے خدائی راستے پر آتے ہیں تو قرآن اس طرح سے اپنا اثر دکھاتاہے ورحمۃ للمومنین  اورہم خدآئی رحمت میںغرق ہو جاتے ہیں ۔

نعمت پیغمبر اسلام :

آیئے اب ہم پیغمبر اکرم کے بابرکت وجود جیسی عظیم نعمت کے بارے میں گفتگو کریں۔ دوسرے ممالک کے بعض افراداگر معنوی نجاست کے دلدل میں دھنسے نہ ہوتے تو اس طرح پیغمبر اسلام کی توہین نہ کرتے پیغمبر  کی عظمت کو پہچنوانے کے لئے میں صرف ایک آیت پڑھتا ہوں قرآن کا وہ بیان صحیح ہے کہ اگر میں نے ان آیات کو پہاڑ پر نازل کیا ہو تا تو وہ بھی برداشت نہیں کر پاتے: لو انزلنا ھٰذالقرآن علیٰ جبل لرایتہ خاشعا متصدعا من خشیةاللہ و تلک الامثال نضربھا لناس لعلھم یتفکرون  ۔

بھائو اور بہنوں کیا قرآن میں کسی انسانی شخصیت کے بارے میں اس آیت سے زیادہ با عظمت آیت موجود ہے من یطع الرسول فقد اطاع اللہ  کہ اگر کوئی اپنے تمام امور زندگی میں میرے پیغمبرکی اطاعت کرے تو گویا اسنے میری اطاعت کی ہے کیا اس آیت سے زیادہ کوئی آیت اور بھی ہے یہ شخصیت پیغمبر  کی ناقابل تو صیف عظمت ہے۔ پیغمبر  کے ذریعے توحید کو واقعی طور پر رواج ملا پیغمبر  کے ذریعے حقیقی دینداری پہچانی گئی اور آپ ہی کے ذریعے لوگ حقائق کی گہرائیوں سے آشنا ہوئے ۔

اس تقریر کے وقت میں اتنی گنجائش نہیں ہے کی میں یہ بات ثابت کروں کہ آج کا عالمی تمدن اپنی تمام علمی شاخوں کے ساتھ محمد بن عبدا۔۔۔ کے وجود کا مرہون منت ہے یہاں تک کہ اس بات کا اعترا ف خود یورپی دانشوروں نے کیا ہے ۔

اے ڈنمارک ؛ ھلیند ؛ مکیا ؛کلنیا ؛ اور دنیا کی دوسری یونیورسٹیوں کے نمک حراموں تم نے حقیقت کو چھپایا ہے کہ جسکا چھپانا گناہ کبیرہ میں سے ہے جو عذاب قیامت کا سبب ہے کیونکہ جو حقیقت تمہارے لئے واضح و روشن ہے لیکن اسکے باوجود بھی تم اسکو چھپا رہے ہو اے یورپی خطہءآتن کے باشندو (فلسفہ کے نشو نما کا مرکز) جب تم اپنی بیٹیوں کی شادی کرتے تھے تو اگر اسکے یہاںپہلی ولادت لڑکی کی ہو تی تھی تو اسکو عدالت میں جرمانہ دینے پر محکوم کر تے تھے اور اگر شادی کے دوسرے سال بھی اسکے گھر دوسری لڑکی کی ولادت ہو تی تو اس سے دو گنا جرمانہ لیتے تھے اور اگر تیسرے سال بھی ایسا ہو تا تو اسکو شہر کے میدان میں پھانسی پر چڑھا دیتے تھے اے یورپیو اے رومیو وہی آج کے ایٹالیائی پیغمبر ﷺ کے بعثت سے پہلے اگر کوئی عورت اپنے گھر میں شوہر کی ناراضگی کا سبب بنتی تھی تو بچیوں کی مدد سے اس عورت کو زیتون کے جلتے ہوئے تیل کی دیگ میں اس طرح جلاتے تھے کہ وہ پانی بن جائے اے جرمن انگلینڈ اور فرانس کے باشندو چھ ہزار سال پہلے نہ تمہارے پاس بیت الخلاءتھا ،نہ غسل خانہ، جب ہماری کتابیں تمہارے پاس پہونچی تو تم انسان بنے اور پھر تم نمک حراموں نے ہماری حکومتوں کو اپنے فتنہ و فساد کے ذریعے ڈرا دھمکا کر اپنا غلام بنا لیا اور خود ہماری حکومت کے ذریعے ہمکو ترقی کی راہ سے ہٹا دیا سچ ہیکہ اس دنیا میں تم سے زیادہ نمک حرام موجود نہیں ہیں ۔

کلینٹن نے انگلینڈ میں عوام کے درمیان کی گئی تقریر میں کہا کہ اگر خداوند عالم ہمارے مظالم اور گناہوں کے مقابلے میں اپنے پاس موجود تمام عذاب کو بھی نازل کر دے تب بھی کم ہے یہ اسرائیل انگلینڈ کی نجس پیدا وار ہے اے ایرانیوں پیغمبر کی بعثت سے پہلے تمہارا سب سے مقدس دنیوی آگ تھی آج بھی ہزار سال گزرنے کے بعد یزد کے آتش پرستوں کی آگ روشن ہے ۔

اے ایرانیوں تم ایسی چیز کو مقدس سمجھتے تھے جو ایک مہینے کے بچے کے پیشاب سے بجھ سکتی ہے تمہیں پتا ہے کہ پیغمبر کا تم پر کیا حق ہے قرآنی زبان میں ۔من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ۔ یہ پیغمبر  کی معنوی عظمت ہے ۔

اے اپنے ملک اور اسکی ثقافت کے بارے میں غیرت و حمیت رکھنے والے ایرانیو فردوسی کے شاہنامہ میں ایک قصہ نقل ہوا ہے کہ جو پیغمبرکے مبعوث ہونے سے پہلے کا ہے جاﺅ جاکر فردوسی کا شاہنامہ خریدو میں نے خود اس شاہنامہ کے ایک قصہ کا مطالعہ کیا ہے وہ قصہ یہ ہے کہ انو شیروان اور مشرقی روم کے بیچ جنگ تھی انوشیروان کا جنگی بجٹ کم ہو گیا وہی انوشیروان کہ بعض حضرات جسکی عدالت کے قائل تھے وہ کیسا عادل تھا مگر قرآن یہی کہتا لا تشرک با اللہ ان الشرک لظلم عظیم  ہم کس طرح اسکے شرک کے ساتھ عادل سمجھیں کیا یہ ممکن ہے آفتاب رسالت کے طلوع سے قبل ایرانی حکومت اور مشرقی روم کے مابین جنگ چھڑی جنگ کے درمیان حکومت کا جنگی بجٹ ختم ہو گیا انو شیروان نے وزیر اول سے مشورہ کیا وزیر نے جواب دیا کہ خزانہ خالی ہے انوشیروان نے کہا کہ اب شکست کو بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ انوشیروان کے زمانے سے تین صدی گزرنے کے بعد فردوسی اس داستان کو بیان کر رہا ہے یعنی شاہنامہ انوشیروان کے دور سے کافی نزدیک ہے فردوسی کہتا ہے کہ اس زمانے میں ایک موچی انوشیروان کے پاس آکر کہتا کہ میں جنگی بجٹ کی کمی کو پورا کر سکتا ہوں اہم نکتہ یہ کہ اس موچی نے یہ کہا کہ میں جنگی بجٹ کو ایک شرط پر پورا کرونگا اور وہ یہ کہ انوشیروان میرے بچے کو مدرسہ جاکر علم حاصل کرنے کی اجازت دیدے انوشیروان نے اس درخواست کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ ایران میں صرف چار طبقوں کے بچوں کو علم کے حصول کا حق ہے شہزادوں ؛ حاکموں ؛ مذہبی راہنما؛ اور شرفاءاس جنگ میں شکست و ناکامی کو قبول کر سکتا ہوں لیکن اس موچی کی اولاد کو علم کے حصول کی اجازت دیکر اس ذلت کو اپنے ساتھ قبر تک نہیں لیجانا چاہتا یہ تو رسول خدا ﷺ ہی تھے جنہوں نے آکر اعلان کیا۔ 

طلب العلم فریضة علیٰ کل مسلم و مسلمہ  ۔اور اعلان کیا کہ قیامت میں تمہاری مغفرت کی بنا پر تمہارے اعمال کی جزا دی جائےگی نہ صرف تمہارے عمل کی بنا پر پیغمبر اسلام ﷺ نے عالم بشریت کی کتنی عظیم خدمت انجام دی ہے ۔

اے یورپیو خود تمہارے ہی بقول پیغمبر  کی بعثت سے پہلے تمہارے کمروں میں ناند (کھور وہ جگہ جہاں جانورو ں کیلئے گھاس ڈالی جاتی ہے)۔ 

 ہوتا تھا اور تم لوگ اسکے کنارے کھڑے ہو کر اس وقت تک کھانے سے اپنا ہاتھ نہ کھینچتے تھے کہ جب تک قے کی نوبت نہ آجائے پیغمبر آئے اور انھوں نے تمہارے لئے اس آیت کی تلاوت کی کلو ا والشربو ا ولا تسرفوا  ۔پیغمبر ہی تمہارے لئے طب اور دوسرے علوم لیکر آئے یہاں تک تمدن و فرھنگ بھی تمہارے پاس پیغمبر کا دیا ہو ا تحفہ ہے تم تو انسان ہی نہ تھے تمہارے پاس بیت الخلاءبھی نہ تھا اور تم اس وقت اپنے گھروںسے باہر پورے یورپ میں حیوانوں کی مانند رفع حاجت کیا کرتے تھے تم گندگی کے دلدل میں دھنسے جارہے تھے اور پیغمبر نے آکر تم کو اس دلدل سے نجات دی اور اب اس طرح نمک کا حق ادا کر رہے ہو یہ اس معنوی نعمت کی عظمت تھی۔ 

من یطع الرسول فقد اطاع اللہ   اور آخرت میں اسکی عظمت اس سے بھی بلند بالا ہے اصول کافی کی دوسری جلد میں سورئہ ہود اور فرقان کی ایک آیت کے ذیل میں پیغمبر  سے ایک بہت اہم روایت نقل ہوئی ہے آپ فرماتے ہیں کہ خدا وند عالم قیامت کے دن کسی کو بھی کلام کرنے کی اجازت نہیں دیگا قیامت کی شروعات ہی ایک گہری خاموشی سے ہو گی یوم لا تکلم نفس الا باذنہ  ۔وہ پہلا شخص کہ جسکو قیامت کے دن کلا م کرنے کی اجازت دی جائے گی وہ میں ہوں میں اپنی جگہ سے بلند ہو کر ایسا کلا م کروں گا جسکا مخاطب نہ تمام لوگ ہونگے اور نہ ہی میری امت بلکہ میں صرف اپنے خدا سے ہمکلام ہونگا میں خدا وند عالم کی اجازت سے اس حالت میں گفتگو کروںگا کہ میرے ایک ہاتھ میں قرآن اوردوسرے ہاتھ میں علی ؛زہرا ؛ حسن اور حسین  کا ہاتھ ہوگا میں پھر خدا وند عالم کی بارگاہ میں عرض کرونگا کہ اے خدا میری امتیوں سے سوال کر انھوں نے میری وفات کے بعد ان دونوں کے ساتھ کیسا برتاﺅ کیا میں کھڑا رہوںگا یہاں تک کہ خدا مجھکو میرے سوال کا جواب دے پھر خدا وند عالم ہمارے ایک ایک امتی سے قرآن اور اہلیبیت  کے متعلق سوال کرے گا تم لوگ کس خوش فہمی میں پڑے ہو ئے ہو اگر خدا وند عالم نے تم سے پوچھا کہ تمنے ان دونوں کے ساتھ کیسا برتاﺅ کیا تو تم دو تین منٹ کے اندر جواب دے ڈالو گے خدایا ہمنے اپنی صلاحیت کے مطابق عبادات و مال سے مربوط آیات پر عمل کیا اور اپنی صلاحیت و ظرفیت ہی کے مطابق ا میر المومنین  ائمہ اطہا ر حضرت امام رضا  اور امام حسینکی پیروی کی اگر تمنے ایسا ہی جواب دیا اور خدا نے بھی اس پر دستخط کر دی تو اس وقت کے بارے میں پیغمبر  جناب فاطمہ زہرا سے فرماتے ہیں کہ ان سب کے ہاتھوں کو میں اپنے ہاتھ میں لے جاﺅنگا کہ جہاں جہاں خدا مجھے لے جائے گا لیکن بے پردہ خواتین کا کیا ہوگا اوراسی طرح سو د خور ظالم، غاصب ؛ غبن ؛ کرنے والے چور قاتل شرابی جواری نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت کر نے والے اور دشمنوں کے جاسوسوں کا کیا حال ہوگا وہ لوگ قیامت کے دن خدا ؛قرآن ؛اور اہلبیت کے سوالوں کا کیا جواب دینگے ؟

نعمت اہلبیت :

نعمت اہلبیت کے بارے میں صرف ایک ہی روایت کی طرف اشارہ کر رہا ہوں اور وہ ایسی روایت ہے کی جسکو شیعوں کے علاوہ اہلسننت کے مشہور علماءنے نقل کیا ہے اور وہ روایت یہ ہے انما مثل اہلبیتی کمثل سفینہ نوح من رکبہا نجا ومن تخلف عنہا غرق  

قیامت تک تمہاری دنیا میں طوفان اٹھتا رہے گا اورزمین وآسمان سے تم پر بلائیں ٹوٹ پڑیںگی آگر آپ غور کریں تو خود دیکھئے گا کہ آج ہزارو ں ڈش انٹینا ہیں کہ جو بلائیں نازل کر رہے ہیں اور وہ بلائیں بھی ایسی ہیں کہ جنکا مقصد و ہدف اللہ اور دین کی نابودی کے سوا کچھ نہیں ہے انکا مقصد یہ نہیں ہےکہ وہ آپ کو لذتوں میں غرق کریں بلکہ وہ دین کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہم سے ہمارا قرآن چھین لیں البتہ ہم میں سے بعض حضرات ان چالوں سے واقف ہیں لیکن اگر آپ اب تک ان باتو ںسے واقف نہیں تھے تو اب بھی موقع ہے گزرے ہوئے چند سالوں میں امریکا اور اسرائیل نے ایک نئی چال چلی ہے اور کہا کہ اگر ہم ایران کی نابودی چاہتے ہیں تو ہمیں تین کام کرنے ہونگے کہ جسکے ذریعے انکو نیست ونابود کیا جاسکتا ہے یقینا یہ نابودی جسمی اور خواہشاتی نابودی نہیں بلکہ انسانی شخصیت کی نابودی ہے کہ جسکے ذریعے ایرانی ملت و حکومت نابودی کے گھاٹ اتر سکتی ہے ۔

انکا پہلا کام یہ ہے کہ وہ ہمارے اور امام حسین بن علی  کے ما بین رابطہ کو ختم کر دیں یہ انکی محض خام خیالی ہے کیوں ؟یہ کیونکہ خود امام جعفر صادق  نقل کرتے ہیں کہ من اراداللہ بہ الخیر قذف فی قلبہ حب الحسین  احب الزیارة اگر خدا کسی بندے کےلئے نیکی اور خیر چاہتا ہے تو اسکے دل کو امام حسین  کی محبت سے مالامال کر دیتا ہے تم یہ سوچتے ہو کہ ہم تمہارے معاملے میں پڑ کر حسین بن علی  کو چھوڑ دینگے اس کام کے لئے تم ہمیں کتنا دے سکتے ہو ۔

انکا دوسرا کام یہ ہے کہ ایرانیوں کی آئندہ سے وابسطہ امیدوں کو ختم کر دیا جائے امام زمانہ  کے وجود پر قائم امیدوں کو اس طرح ختم کیا جائے کہ وہ لوگ پھر ظہور کے منتطر نہ رہیں ۔

انکا چوتھا پروگرام یہ ہے کہ علماء الاہی اور لوگوں کے آپسی روابط کو ختم کر دیا جائے تھوڑی سی توجہ کر کے آپ کو نظر آئےگا کہ دینی مدرسوں کے خلاف کیا کیا پروپگنڈے ہو رہے ہیں حقیقت میں یہ جنا ب نوح  کے زمانے سے بھی زیادہ عظیم طوفان ہے جناب نوح  کے زمانہ میں تو صرف آسمان اور زمین سے ایسا پانی ابلا تھا جسنے تمام لوگوں کو نیست ونابود کر دیا تھا آج کس کس قسم کے آلودہ پانی کا طوفان اوپر نیچے سے ابل رہا ہے جس سے نجات کا واحد راستہ ایک ایسی کشتی کا سہارا ہے کہ جو ہمیں اس طوفان سے نجا ت دے سکے 

انما مثل اہلبیتی کمثل سفینة نوح من رکبا نجا ومن تخلف عنہا غرق  

ہمارے اہلبیت کے ساتھ زندگی گزارنے والا نجات پائے گا اور اس سے دوری رکھنے والا غرق ہو جائے گا نہ صرف صاف پانی میں ۔ولا تتبعوا السبیل فتفرقو ا بکم عن سبیلہ  ۔بلکہ ایسے ہزاروں قسم کے گندے اور بدبو دار پانی کے سیلاب میں فرق ہوگا کہ جس میں سے ایک ہی اس دنیا کے لوگوں کے دم گھٹنے کیلئے کافی ہے واقعا اگر ہم توجہ کریں تو خدا وند عالم کا لطف وکرم ایرانی قوم و ملت پر بہت زیادہ ہے اگر تمام پروپگنڈوں اور چال بازیوں کے بعد کیا آج کے زمانے میں مجلس حسین  برپا کرنا واجب شرعی نہیں ہے کیا ہر وہ شخص کی جو امام حسین  کی مجالس جیسے نیک کام میں شریک ہوسکتا ہے اس کے لئے یہ کام واجب نہیں ہے کیاذاکرین کے لئے قرآن اور اہلبیت کے تمدن وفرہنگ کو ذکرکرنا ضروری نہیں ہے کہ امام حسین  کی مصیبت کا ذکر اور مجالس میں وعظ و نصیحت کرنا مستحب ہے ۔۔.

 ایمان کی کشتی اس وقت تک طوفان سے محفوظ ہے جب تک اس کے ناخدا رہیں مرحبا اسکے بعد آپ لوگ امام رضا  کی زیا رت کے اعتقاد کو اور زیادہ قوی اور بہتر کر کے زیاد ہ سے زیادہ تعداد میں زیارت کے لئے تشریف لے جایئے مرحبا چھوٹے بچوں اور شیر خواروں اور ضعیفوںکمر خمیدہ لوگوں عصا لیکر چلنے والوں اور ایسے جوانوں جو شدید سردی کے موسم میں بھی سو کلو میٹر دور سے امام رضا  کی زیارت کے لئے مشہد مشرف ہوئے ہیں میں تم سب کی دست بوسی اور رو بوسی کرتا ہوں امام کی زیارت کے لئے آﺅ اور پاپیادہ بھی آﺅ تاکہ امریکا اور اسرائیل اہلبیت کے تئیں ہماری محبت و الفت کا نظارہ کر سکیں حرم میں آکر زیادہ گریہ کرو تاکہ دشمن سمجھ سکے کہ ہم میں ہمارے اہلبیت کیلئے کس قدر محبت ہے میں اپنے لئے نہیں کہہ رہا ہوں میرا زمانہ تو گزر گیا میرا پاسپورٹ تو عزرائیل کی میز پر ہے کیونکہ پیغمبر  نے فرمایا ہے کہ ہمارے امتی ساٹھ سے ستر سال کے درمیان چل بسیںگے مجھے ستر سال تک پیونچنے میں چار پانچ سال سے زیادہ کی مدت نہیں بچی ہے اس سال تو ہم چھپ کر جی رہے ہیں لیکن تم لوگ اپنے گریہ و زاری کو محفوظ رکھو اور اہلبیت پر بلند آوا ز میں گریہ کرو پیغمبر نے تم کو دیکھا تھا اور شاید اس لئے حضرت زہرا سے فرمایا تھا کہ اے فاطمہ  اپنے حسین  کی فکر نہ کرو حسین  کی فرش عزا تو قیامت تک بچھی رہے گی ایسے مرد اور ایسی خواتین آئیں گی کہ جو حسین  پر اس طرح روئیں گی جیسے کسی جوان پر آنسو بہائے جاتے ہیں ۔

خدا وند عالم جامع المدارک نامی کتاب کے موئلف جناب سید احمد خوانساری پر رحمت نازل کرے اور انکے درجات بلند کرنے انکو پہچاننے والے انکی علمی صلاحیت کے بارے میں بخوبی جانتے ہیں انکو عالم ہو نے کا درجہ حاصل تھا تہران کی غدیر نامی ایک مسجد میں یہ مرحوم تقریبا پچیس سال تک امام جماعت رہے انکی عادت تھی کہ وہ نماز میں ہاتھوں کو کانوں کے کنارے لے جانے کے بعد تکبیر ةالاحرام سے پہلے یہ جملہ کہتے تھے السلام علیک یا ابا عبداللہ اور پھر بعد میں تکبیرةالاحرام کہتے تھے میرا ایک دوست کہ جو میری بنسبت کچھ تھا ایک دن محراب کے کنارے جاکر انسے سوال کر بیٹھا کہ مولانا کیا تکبیرة الاحرام سے پہلے ابی عبداللہ حسین پر صلوات بھیجنا کسی جگہ نقل ہوا ہے انھوں نے جواب میں فرمایا یہ میرا عمامہ یہ محراب یہ منبر یہ مسجد یہ شہر قم یہ مرجعیت سب کے سب امام حسین کے صدقے میں قائم ہوئے ہیں لہذا نقل ہونے نہ ہونے کا کیا مطلب ؟

لیکن خد اکی قسم ان مجالس کو ان قیمتی لمحات کو نہ چھوڑنا خدا یا علماءکو تنہا نہ چھوڑنا خیا ل رکھنا کہ تمہاری آنکھو ں کے چشمہءاہلبیت  پر آنسو بہانے میں کنجوسی نہ کریں ؛گریہ و زاری نہایت اہم چیز ہے دلوں میں وسوسہ ڈالنے والوں کی طرف توجہ نہ کرو ؛ قرآن پڑھو ۔قویٰ اعینھم تفیض من الدمع مما عرفوا من ا لحق ۔قرآن کہتا ہے کہ میرے حق شناس بندوں کی آنکھیں اشکوں سے بھری رہتی ہیں ہمارے گریہ پر اعتراض کرنے والے تو حیوان ہیں ؛ انکے پاس آنکھ اور دل نہیں ہے وہ قرآن کو نہیں سمجھتے ۔

گریہ ہر درد لا دوا کی دوا ہے ؛ روتی ہوئی آنکھیں خدائے فیض کا چشمہ ہیں ؛

اگر آسمان نہ روئے تو زمین میں سبزہ نہ اگے گا ؛اگر بچہ نہ روئے تو کس طرح دودھ پیئگا اگر حلوا بیچنے والا نہ روئے ؛ تو پھر بخشش و بذل کی دیگ میں کس طرح ابال آئے ۔

ایک بچہ کا باپ مر گیا تھا اور وہ یتیم ہو گیا تو اسکی ماں نے اسکو بلا کر کہا کہ ؛بیٹا ہمارے پاس ۴یا ۵ ؛ کلو آٹے ؛ تھوڑے گھی ؛اور تھوڑی شکر کے علاوہ کچھ نہیں بچا ہے تمہارے باپ نے اسکے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا ہے میں ان چیزوں کا حلوا بناﺅن گی اور تم اسکو بازار میں لیجا کر بیچ دینا تاکہ اس طریقہ سے ہمارا خرچہ نکل آئے صبح ہونے پر وہ لڑکا حلوے کی دیگ لیکر بازار کی جانب نکلا صبح کے نو بج رہے تھے کسی نے بھی اس بچے سے حلو ا نہیں خریدا دس بج گئے لیکن پھر بھی کسی نے اس بچہ سے حلوا نہ خریدا بارہ بج گئے اور ظہر ہو گئی لیکن پھر بھی وہ حلوا نہ بک سکا یہاں تک کہ دو پہر کے ایک بجنے تک حالات اپنی جگہ پر باقی رہے لہذا اب اس بچے سے نہ رہا گیا اسکی طاقت نے جواب دے دیا ؛ اس نے زور زور سے رونا شروع کر دیا بازار میں ایک شخص کا بچے کے کنارے سے گزر ہوا اور بچے کی یہ حالت دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا اس نے کہا ؛ پیارے بچے آخر کس لئے تم رو رہے ہو ؟ بچے نے جواب دیا ؛ میں یتیم ہوں اور ہمارا سار اسرمایہ اور پونجی یہی حلوے کی دیگ ہے میری ماں نے مجھ سے کہا تھا کہ اس کو بازار لے جا کر بیچ دو تاکہ اس پیسوں سے ہم اپنی زندگی بسر کر سکیں اب جب میں اس حلوے کو بیچنے آیا تو کوئی بھی مجھ سے یہ حلوا خریدنے کے لئے تیار نہیں ہے اس شخص نے کہا کہ میں یہ پوری دیگ حلوے کو خرید لوں گا اور کل بھی تم حلوا بنا کر بازار میں لانا میں پھر خریدوں گا ؛

اگر حلوا بیچنے والا بچہ نہ روئے ؛ تو بخشش و بذل کی دیگ میں کس طرح ابال آئے ۔

 

تبصرے
Loading...