استاد کا مقام پیغمبر اسلام ؐ کی نگاہ میں

*5۔اکتوبریوم استاد:*
*پیغمبرختمی مرتبت ہی معلم انسانیت واساتذہ کے لیے کامل نمونہ عمل ہے۔*

*استاد کا مقام پیغمبر اسلام ؐ کی نگاہ میں*

*مولانا علی حسن شگری*

حضور ختمی مرتبت کا فرمان ہے کہ:
*مجھے معلم۔بنا کر بھیجا گیا ہے.*

یوں تو معلم کی عظمت کو سب سلام کرتے ہیں لیکن اسلام میں جو عظمت معلم اور طالب علم کو عنایت ہوئی ہے.دنیا کے کسی اور مکتب میں اس کا تصور بھی نہیں ملتا۔ جہاں حدیث میں ہے کہ معلم کے لئے نباتات،حیوانات حتیٰ کہ سمندر میں موجود مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں وہاں طالب علم کے پیروں تلے خدا کے فرشتوں کے پر بچھانے کا ذکر بھی موجود ہے۔
اسلام نے معلم کو باپ کا درجہ دیا ہے لیکن حقیقی باپ اور معلم میں یہ فرق موجود ہے کہ حقیقی باپ انسان کو آسمان سے زمین پر لاتا ہے لیکن معلم اس فرش نشین کو عرش نشین بنا دیتا ہے ۔
معلم کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے رسول خدا ؐ کی یہ حدیث کافی ہے جس میں آپ ؐنے فرمایا:
*’’ مجھے معلم بنا کر بھیجا ہے۔‘‘*
گویا آج کا معلم درحقیقت رسول خداؐکا ہم پیشہ ہے.
رسول خداؐ نے فرمایا:
*’’ معلم جب شاگرد کو بسم اللہ پڑھاتا ہے تو اللہ اس وقت اس کے والدین اور استاد کے لئے جہنم کا امان نامہ لکھ دیتا ہے ۔‘‘*
( الحکم الزہرہ ص۲۶۰)
ایک اور حدیث میں استاد کے احترام کو ایمان کی علامت اور بے احترامی اور استاد سے ناانصافی کو نفاق کی علامت قرار دیا ہے.رسول پاکؐ نے مولا علی ؑ سے فرمایا:
*یا علی ؑ تین چیزیں ایمان کی حقیقت ہیں۔*
*۱۔ تنگ دستی کی حالت میں راہ خدا میں خرچ کرنا۔*
*۲۔ لوگوں کے ساتھ انصاف سے پیش آنا۔*
*۳۔ علم کو شاگردوں تک پہنچانا۔*
پھر آپ ؐ نے فرمایا:
تین قسم کے افراد کا حق منافق کے علاوہ کوئی پائمال نہیں کرے گا:
۱۔ مسلمان بوڑھے کا حترام
۲۔ اچھے لیڈر اور رہبر کا احترام
*۳۔ نیک وپرہیز گار استاد کا احترام.*

ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا:
*قیامت کے دن ،مقام حساب میں ایک شخص کے میزان عمل میں بادل اور پہاڑ جتنا نیک عمل لا کر رکھا جائے گا تووہ شخص حیران ہو کر پوچھے گا میںنے ایسا تو کوئی عمل انجام نہیں دیا تھا؟ خدا کی طرف سے آواز آئے گی یہ اس علم کا ثواب ہے جو تم نے لوگوں کو سکھایا اور لوگوں نے اس پر عمل کیا۔*
(بحار ج۱ ص۱۷)
اس کا ئنات کا پہلا معلم خدا کی ذات مبار ک ہے اللہ کے دو نام رب اور معلم ہیں جن کے معنی تربیت کرنے والا اورتعلیم دینے والا کے ہیں۔
قرآن مجید میں ۲۰ سے زیادہ مقامات پر اللہ نے اپنے آپ کو معلم کے عنوان سے پہچنوایا ہے۔ کائنات کا دوسرا بڑ ا معلم رسول پاک ہے اور اس معلم بے بدیل کا شاگرد بے نظیر امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی ذات ہے جو اپنے معلم کے طرزتعلیم اور شفقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:

*’’جب میں کمسن تھا تو رسول ؐمجھے اپنے پاس اپنے حجرے میں بٹھاتے ،مجھے اپنے آغوش رحمت میں بٹھاتے ‘ غذا کے لقمے بنا بنا کر میرے منہ میں رکھتے، میں پیغمبر کے ساتھ ایسا رہتا تھا جیسے کوئی بچہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہے پیغمبر مجھے ہر روز ایک اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے اور اس پر عمل کرنے کو کہتے۔*

(نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۷)
رسول خداؐ کل کائنات بالخصوص آج کے اساتذہ کے لئے نمونہ اور اسوۂ حسنہ ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ
کیا ہمارے اساتذہ اپنی زندگی میں پیغمبر اسلام ؐ کو اپنا آئیڈیل قرا ر دیتے ہیں؟
کیا آپ نے ایک معلم ہونے کے ناطے کبھی رسول ؐکے طرز تعلیم کے بارے میں سوچا ہے؟
یاکسی وقت رسول ؐ کی طرح شاگردوں سے ایسے ہی انس ومحبت اظہار کرتے ہیں ؟

تمام اساتذہ کو چاہیے کہ وہ پیغمبر اکرم کو تعلیم وتربیت کے میدان میں اپنے لیے نمونہ عمل قرار دیں،اپنی عظمت ومقام کے ساتھ ذمہ داری کو سمجھیں۔اور نئی نسل کی(جو کہ قوم ومکتب کی امانت ومستقبل کےمعمار ہیں)تعلیم وتربیت کے لیے پیغمبر کو اپنا راہنما قرار دیتے ہوئے ان کے نقش قدم پر پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔بچوں کو تعلیم کے ساتھ فکری،اسلامی تربیت کی جانب توجہ دیں۔اور سیرت پیغمبر سے طلبا وطالبات کو آشنا کریں۔چونکہ یہ پیغمبرانہ پیشہ ہے۔جس کی اہمیت کے ساتھ ذمہ داری بھی سنگین ہے۔

تبصرے
Loading...